بلوچستان سے مسلسل پریشان کن خبریں سامنے آرہی ہیں۔ بلوچ یک جہتی کمیٹی کے دھرنے، لیڈروں کی گرفتاریوں کے علاوہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی اپیل پر آج بلوچستان میں عام ہڑتال ہوئی۔ اسی دوران نوشکی میں 4 پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا جبکہ ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں چار مزدور کو فائرنگ سے ہلاک کیا گیا۔ یہ چاروں پنجابی مزدور تھے۔
11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملے اور اسے اغوا کرانے کی واردات کے بعد پاکستانی فورسز نے 36 گھنٹے پر محیط آپریشن کے بعد تمام مسافروں کو بازیاب کرا لیا تھا۔ سرکاری اعلان کے مطابق 33 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا تھا تاہم 31 شہری بھی جاں بحق ہوئے تھے جن میں سے 18 کا تعلق فورسز سے تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔ پاکستان میں اس گروہ پر پابندی ہے اور اس سے وابستہ عناصر مبینہ طور پر بھارت کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ گروہ بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے اور اسی مقصد سے ریاست پاکستان سے برسر پیکار ہے۔ کسی بھی علاقے میں خود مختاری حتی کہ علیحدگی کی تحریک چلانا قابل تعزیر نہیں ہونا چاہئے تاہم جو گروپ ہتھیار اٹھا کر یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔، یہ ایک مسلمہ عالمی اصول ہے اور کوئی قانون یا ضابطہ کسی گروہ کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ پر تشدد جد و جہد کے ذریعے کسی ملک یا علاقے میں بدامنی پھیلائے۔
ٹرین سانحہ کے بعد حکومت پاکستان کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور بعد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک تمام پارٹیوں نے دہشت گردی کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے اور اس کے خاتمہ کے لیے ہمہ قسم ریاستی قوت استعمال کرنے کا عزم کیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کسی قسم کی بغاوت یا ریاست کے خلاف تشدد کو برداشت نہیں کریں گے۔ جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ پاکستان کو سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ عام طور سے ان اصطلاحات سے یہ اخذ کیا جارہا ہے کہ حکومت اور فوج اب دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل کرے گی۔ نہ صرف حملے کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کی جائے گی بلکہ انہیں مدد بہم پہنچانے والے نیٹ ورک کو توڑنے اور تباہ کرنے کا کام بھی ہوگا۔ اسی حوالے سے ملک میں سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے عناصر کے خلاف بھی کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ایک قومی سانحہ تھا۔ عام طور سے ملک بھر میں لوگوں نے اس حملہ پر افسوس کا اظہار کیا اور حکومت کی اس بات سے اتفاق دیکھنے میں آیا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہر قسم کی ریاستی طاقت استعمال کرنا ضروری ہے۔ اہل پاکستان ایسے عناصر کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے جو معصوم انسانوں کو ہلاک کرتے ہوں اور مسلح حملوں کے ذریعے عسکری قیادت کو چیلنج کررہے ہوں۔ بلوچستان کے عسکری گروہ خاص طور سے اپنی مہم جوئی کو نسلی رنگ دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔کسی قومی تحریک کے لیے ایسا متعصبانہ رویہ مناسب نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی گروہ کو کسی سیاسی ایجنڈے کے لیے کام کرتے ہوئے اسے بنیادی حقوق اور سیاسی مطالبات تک محدود رکھنا چاہئے۔ لیکن بلوچ عسکری گروہ پنجابیوں پر حملے کرکے یہ واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان میں غیر بلوچ عناصر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حالانکہ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو ملک کے چاروں صوبوں میں صرف ایک ہی نسلی گروہ آباد ہو سکے گا۔ یہ طریقہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس طریقہ پر عمل ممکن ہے۔ تاہم بی ایل اے نے جعفر ایکسپریس کو اغوا کرکے پہلے مرحلے میں چند درجن بلوچ مسافروں کو رہا کیا تھا۔ اس طریقہ سے بھی وہ یہی بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ صرف ریاستی جبر کے خلاف ہی جد و جہد نہیں کررہے بلکہ وہ تمام غیر بلوچ شہریوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ حکمت عملی خود بلوچستان میں انسانی حقوق کی لڑائی کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔
بی ایل اے اور دیگر عسکری گروہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں سے مدد لیتے ہیں اور ان کے تعاون سے دہشت گرد حملے منظم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں افغانستان میں بھی مدد ملتی ہے بلکہ اب تو ان گروہوں نے خیبر پختون خوا میں سرگرم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی تعاون شروع کردیا ہے کیوں کہ وہ گروہ بھی ریاست پاکستان کے خلاف جنگ آزما ہے ۔ اسی لیے پاک فوج اب ان عناصر کو خوارج قرار دے کر انہیں ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ البتہ ایک قومی تحریک سے وابستہ عناصر کی اس حکمت عملی کی وجہ سے بلوچستان کے جائز مسائل کے بارے میں بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ گروہ اپنے خیال میں جس صوبے کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں کے حقوق متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس جنگ جوئی نے بلوچستان کو درپیش سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنا مشکل کردیا ہے۔ اب حکومت اور ریاستی ادارے شر پسند عناصر کو ختم کرنے کا عزم کررہے ہیں اور عوام میں بھی انہیں پزیرائی حاصل ہے۔
بدقسمتی سے ملک کی سب سے بڑی پارٹی تحریک انصاف اس موقع پر مین اسٹریم جذبات کی نمائیندگی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پہلے تو پارٹی نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کردیا اور اس کے لیے عمران خان کی رہائی کو شرط کے طور پر پیش کیا۔ گویا اس کے نزدیک قومی سلامتی کا معاملہ عمران خان کی رہائی سے کم اہم ہے۔ یہ رویہ مایوس کن اور ایک قومی پارٹی کے شایان شان نہیں تھا۔ لیکن بانی چئیرمین کی حراست کے دوران میں تحریک انصاف متبادل قیادت سامنے لانے، پارٹی ڈھانچہ مستحکم کرنے اور اصولی سیاسی مؤقف پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلکہ پارٹی کی تان صرف اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے اور ان سے ہدایت لینے پر ٹوٹتی ہے۔ تحریک انصاف کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا زعم ہے لیکن اس کا رویہ اس دعوے کی عکاسی نہیں کرتا۔ اسی لیے جعفر ایکسپریس حملے جیسے قومی سانحہ پر اس پارٹی نے خود کو قوم کا نمائیندہ بنانے کی بجائے، عمران خان کی رہائی کا مقدمہ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ یہ پالیسی پارٹی کے لیے مفید نہیں ہوسکتی۔ اس وقت عمران خان کی حراست اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے دباؤ میں خواہ زمینی حقائق کو نظر انداز کیا جائے لیکن عام لوگ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو پارٹی قومی سانحہ کو بھی سیاسی رنگ دیتی ہے، اس سے نظام میں اصلاح کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے زعما کو ضرور معاملہ کے اس پہلو پر غور کرنا چاہئے۔
اسی طرح بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تحریک سے امید کی جاتی تھی کہ وہ تشدد اور حقوق کی جنگ میں حد فاصل قائم کریں گے۔ خاص طور سے جعفر ایکسپریس سانحہ کے بعد یہ باور کرایا جائے گا کہ یہ عناصر بلوچستان کے حقوق کی جد و جہد کررہے ہیں۔ وہ ملکی سالمیت کو چیلنج نہیں کرتے اور نہ ہی ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے عناصر کا ترجمان بننے پر تیار ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر شہباز شریف حکومت قومی سطح پر سیاسی یک جہتی اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی تو صوبائی سطح پر قوم پرست عناصر نے بھی اس موقع پر اپنے وجود کا احساس نہیں دلایا۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کرکے یہ نہیں کہا کہ معصوم شہریوں پر حملے بلوچ عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ سردار اختر مینگل سمیت بلوچستان کے دیگر لیڈروں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے گریز کیا اور دو روز پہلے ماہرنگ بلوچ کی سربراہی میں قائم بلوچ یک جہتی کمیٹی نے یک بیک احتجاج اور پولیس مقابلے کا فیصلہ کیا اور کوئٹہ میں دھرنا دیا۔ نوشکی میں پولیس اہلکاروں اور منگیچر میں پنجابی مزدروں کی ہلاکتوں کا براہ راست بلوچ یک جہتی کمیٹی کی تحریک سے تعلق نہیں ہوگا لیکن اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ بلوچ یک جہتی کمیٹی کی طرف سے دھرنے اور احتجاج کی صورت حال کو عسکری گروہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بلوچ یک جہتی کمیٹی کے بارے میں یہ خوش فہمی موجود ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کے لیے پر امن سیاسی جد و جہد کررہی ہے اور آئین پاکستان پر یقین رکھتی ہے تاہم اگر اس کے رویے اس تاثر کو کمزور کریں گے تو بلوچ عوام کے لیے ملک بھر میں پائی جانے والی ہمدردیاں متاثر ہوں گی۔
کوئٹہ کے کمشنر نے ایک بیان میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پرتشدد احتجاج پر اکسانے سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس موبائل پر حملے اور منگیچر میں چار مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان واقعات کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ پولیس اہلکاروں اور بے گناہ مزدوروں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے بلوچستان میں کوئی جگہ نہیں‘۔ حیرت انگیز طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی یا بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی طرف سے ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے لیکن سردار اختر مینگل نے ماہرنگ بلوچ کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں دیر نہیں کی۔
یوں لگتا ہے کہ صرف حکومت ہی یک طرفہ طور سے طاقت کے استعمال کا ارادہ ظاہر نہیں کررہی بلکہ بلوچستان کے حقوق کے نمائیندہ ہونے کے دعویدار لیڈر بھی موجودہ صورت حال کی سنگینی کو مزید پیچیدہ کرنے اور معاملات کو مشکل بنانے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ بلوچستان یک جہتی کمیٹی سے صوبے کے مستقبل کی سیاست میں اہم کردار کی توقع کی جاتی ہے۔ اس کے بیشتر مطالبات بھی درست اور قابل قبول ہیں۔ البتہ اس گروپ کی اصل طاقت اس کی پرامن جد و جہد تھی۔ لیکن حالیہ واقعات سے حکومت یہ تاثر قوی کرنے کی کوشش کرے گی کہ یہ گروہ بھی بے ایل اے کی طرح تشدد پر آمادہ ہے۔ ڈاکٹر ماہرنگ اور ان کے ساتھیوں کو اس مشکل سے نکلنے کے لیے سیاسی چابکدستی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ وہ تشدد کی مذمت کریں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پر امن ایجنڈے سے دست بردار نہ ہوں۔
ماہرنگ بلوچ تصدیق کرچکی ہیں کہ انہیں سال رواں کے نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ انہیں یہ انعام مل سکے گا تاہم اگر ان کا نام عسکری گروہوں کے ہمدرد اور تشدد کو ہتھکنڈا بنانے والوں میں شامل ہؤا تو نوبل کمیٹی کبھی ان کے نام پر غور نہیں کرے گی۔
( بشکریہ: کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ