ایران اسرائیل جنگ بند ضرور ہوگئی لیکن فریقین میں اسے جیتنے کے دعوے کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز نیتن یاہو نے اسرائیل کی مکمل کامیابی کا اعلان کیا تھا اور آج ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کی مکمل کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ’فاتح ‘ بن کر اُبھرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ اس نے’ امریکہ کے منہ پر ایک سخت طمانچہ مارا ہے‘۔
’مقابلے ‘ میں شریک تیسرے فریق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی صورت اپنے اس دعوے کو درست ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امریکی بمباری سے ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور سے تباہ کردی گئی ہیں۔ ٹرمپ خاص طور سے سی این این اور نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے بعد جز بز ہیں جس میں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں ایرانی جوہری تنصیبات مکمل طور سے تباہ نہیں ہوسکیں بلکہ وہ چند ماہ میں ہی ان مراکز کو فعال کرسکتا ہے۔
نیٹو کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے اور اس کانفرنس کے دوران میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے اس دعوے کو بار بار دہرایا کہ امریکی بمباری پوری طرح کامیاب رہی اور ایران کے جوہری مراکز و تنصیبات تباہ کردی گئی ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری کیرولین لیوٹ نے اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کو فیک نیوز بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ امریکی بمباری اتنی شدید تھی کہ ایرانی آلات و جوہری مواد پہاڑوں کے میلوں نیچے دب چکا ہے اور ہمیشہ کے لیے ضائع ہوگیا ہے۔ البتہ ٹرمپ اس پر بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے۔ اس لیے ان کے وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے آج واشنگٹن میں پریس بریفنگ منعقد کی اوردعویٰ کیا کہ امریکی حملے ’انتہائی کامیاب‘ تھے۔ صدر ٹرمپ نے تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور خفیہ فوجی آپریشن کا حکم دیا تھا۔ یہ ایک ’زبردست کامیابی‘ تھی۔ واشنگٹن نے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ میڈیا میں لیک ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہیگسیتھ کا کہنا تھا کہ یہ ایک ’ابتدائی‘ تخمینہ تھا ۔ ذرائع ابلاغ کا ایک ’ایجنڈا‘ تھا کہ حملوں کو کامیاب نہ کہا جائے۔ انہوں نے ابتدائی رپورٹ کو ’من گھڑت کوریج‘ قرار دیا اور اس کی مذمت کی ۔ اورکہا کہ یہ ابتدائی رپورٹ نامکمل اور خامیوں سے بھرپور تھی۔
کامیابی کے ان تین دعوے داروں کے بیچ سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا اس وقت ایران کے عوام کو ہے جنہیں خوف ہے کہ جنگ بندی کسی وقت ختم ہوسکتی ہے اور ایرانی فضاؤں پر دسترس حاصل کرنے کے بعد اسرائیل ایک بار پھر نئے اہداف کے حصول کے لیے ایران پر حملے کرسکتا ہے۔ ملک میں مذہبی لیڈروں کی سخت گیر حکومت جنگ سے پہلے بھی غیر مقبول تھی اور جنگ کے بعد بھی عوام کو اس پر اعتبار نہیں ہے۔ ایران میں فعال سیاسی ادارے نہ ہونے اور میڈیا پر بندشوں کے باوجود اب یہ رائے سامنے آرہی ہے کہ موجودہ حکومت کو اسرائیل دشمنی کی حکمت عملی ترک کرکے ایرانی عوام کی بہبود پر توجہ دینی چاہئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان خیالات کا اظہار حکمران حلقوں میں بھی کیاجارہا ہے اور عوامی سطح پر بھی بے چینی کا اظہار ہورہا ہے۔ اب یہ جملہ زیادہ شدت سے سننے میں آرہا ہے کہ لیڈروں کو ’عوام کی آواز سننی چاہئے‘۔ حملوں کے دوران ضرور عوام ایرانی پرچم تلے متحد تھے اور دشمن کے کہنے پر حکومت کے خلاف احتجاج پر راضی نہیں تھے لیکن جنگ بندی کے بعد معاشی مشکلات کے علاوہ عدم تحفظ کے احساس نے ایرانی عوام کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔
سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جنگ کے دوران قتل کیے جانے کا اندیشہ تھا۔ خاص طور سے 13 جون کو حملے کے آغاز پر اسرائیل نے ایران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جیسے متعدد جرنیلوں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا ، اس کے بعد یوں لگنے لگا تھا کہ کوئی ایرانی لیڈر اسرائیلی نشانے سے دور نہیں ہے۔ پھر اسرائیلی وزیر اعظم کے علاوہ صدر ٹرمپ نے ایک پیغام میں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ خامنہ ای کہاں چھپے ہوئے ہیں لیکن وہ مطمئن رہیں ، ہم ابھی انہیں مارنا نہیں چاہتے‘۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اسرائیل امریکی صدر کے منع کرنے پر براہ راست علی خامنہ ای کو مارنے کی کوشش سے باز رہا تھا۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ ایرانی سپریم لیڈر جنگ کے بارہ دنوں میں کسی خفیہ بنکر میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کا ایران کے اعلیٰ ترین لیڈروں سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ان کی سکیورٹی کو لاحق اندیشوں کی وجہ سے انہیں باقی دنیا سے بالکل الگ تھلگ کردیا گیا تھا۔ وہ اب بھی سخت سکیورٹی کے حصار میں ہیں کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اسرائیل انہیں اب بھی ہلاک کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
ان حالات میں آیت اللہ کا ایک ریکارڈ شدہ پیغام ٹیلی ویژن پر نشر کرکے ایران کی مکمل فتح کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں ایران کو جن بنیادی سوالات کا سامنا ہے، ان کا کوئی جواب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ایران میں تمام اختیارات کا منبع چونکہ سپریم لیڈر ہیں، اس لیے یہ مناسب تھا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کو جھوٹا اور شکست خوردہ ثابت کرنے کے علاوہ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں ایرانی عوام کی رہنمائی کرتے۔ انہیں بتایا جاتا کہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی اسرائیل دشمنی کے نتیجے میں مسلط ہونے والی جنگ ختم کرتے ہوئے ایران نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کامطالبہ کیوں جنگ بندی کی شرائط میں شامل نہیں کرایا۔ اگر آیت اللہ خامنہ ای کی اس بات پر یقین کرلیا جائے کہ’ ایران نے صیہونی حکومت کو عملی طور پر کچل دیا ہے‘، پھر تو ایران اس پوزیشن میں تھا کہ وہ امریکہ و اسرائیل سے اپنی شرائط پر جنگ بندی پر راضی ہوتا۔ البتہ جس انداز میں جنگ بندی کا اعلان ہؤا ہے، اس سے اس کی تائد نہیں ہوتی۔
ایران کو اس وقت اپنی جوہری صلاحیتوں کو بحال کرنے یا انہیں ترک کرنے کے بارے میں اہم سوال کا سامنا ہے۔ یہ سوال زندگی و موت کا فیصلہ کرنے کی مانند ہے۔ جنگ کے بعد اگر انتہاپسند عناصر فیصلے کرنے پر قادر ہوگئے اور سپریم لیڈر نے ان کے مشورے پر ایک بار پھر جوہری پروگرام جاری رکھنے پر اصرار کیا تو ایران کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہوگا۔ اسی طرح انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نمائیندوں سے اپنی تنصیبات کا معائنہ کرانے سے گریز اور امریکہ کے ساتھ فوری طور سے کوئی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایرانی عوام کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوسکتا ہے کہ ان کے ملک پر حملے دوبارہ شروع ہوجائیں۔ اس کے برعکس اگر معتدل رویہ اختیار کرکے امریکہ کے ساتھ ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کی شرط پر معاہدہ کرلیا جائے تو تقریبا نصف صدی سے معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے ایرانی لوگوں کو بھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہوسکتا ہے۔ ایرانی لیڈر کو سمجھنا چاہئے کہ ملکوں کی تقدیر خواہشات پر مبنی نعروں سے تبدیل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اور ہوشمندانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
آیت اللہ علی خامنہ ای چالیس برس سے بلا شرکت غیرے ایران کے اقتدار پر قابض ہیں۔ انہوں نے جابرانہ ہتھکنڈوں سے حکومت کی ہے اور اپنی صفوں میں بھی اختلاف رائے کی اجازت نہیں دی۔ اگر عوامی سطح پر کوئی احتجاج سامنے آیا تو اس کا سیاسی حل نکالنے، کچھ رعایت دینے اور عوام کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کی بجائے پوری ریاستی طاقت سے ایسے کسی بھی احتجاج کو کچلا گیا۔ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ایک امیر ملک ہے۔ لیکن حکومت کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اس وقت ایرانی عوام غربت و محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک نئے تصادم کی طرف بڑھ کر ایرانی لیڈر عوام کی مشکلات و پریشانیوں میں اضافہ کریں گے۔
خامنہ ای 86 برس کے ہوچکے ہیں۔ انہیں حوصلہ مندی سے اسرائیل سے جنگ کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور قیادت کسی جانشین کے سپرد کردینی چاہئے۔ ان کی طرف سے مسلسل رہنمائی کرنے اور فیصلوں میں حرف آخر بنے رہنے پر اصرار ، ایران کے مستقبل کے لیے شدید نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ نئے فیصلوں اور تبدیلی کے لیے اگر نظام کے اندر سے ہی کوئی راستہ نکال لیاجائے تو وہی سب سے مناسب ہوتا ہے۔ کوئی بھی دوسری صورت انتشار اور تصادم کا سبب بنتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای اگر سبک دوش ہوجائیں تو نئے لیڈر ازسر نو معاملات کا جائزہ لے کر شاید کچھ بہتر اور خوش آئیند فیصلے کرسکیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ