چین کے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرنے کے ایک روز بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پوری دنیا کو اسلامو فوبیا جیسی لعنت کے خلاف مل کر کام کرناچاہئے۔ ان کا یہ پیغام کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اس ٹوئٹ کے بعد سامنے آیا ہے کہ کینیڈین حکومت اسلاموفوبیا کے خاتمہ کے لئے خصوصی نمائیندہ مقرر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عمران خان نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ بنی نوع انسان کی مشترکہ جنگ ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اسلامو فوبیا کے خلاف کام کرنے اور مسلمانوں کے خلاف تعصبات ختم کرنے کی بات کرتے ہوئے چین کی مسلمان آبادی کے ساتھ برتے جانے والے ظالمانہ اور متعصبانہ سلوک کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں۔ عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں چینی صحافیوں کے ایک گروپ سے باتیں کرتے ہوئے بیجنگ کی ایغور پالیسی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار پر خاموشی اور چینی ایغور کے بارے میں شور مچا کر مغربی ممالک دراصل دوہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خا ن کا اس میڈیا ٹاک میں کہنا تھا کہ’ دنیا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ 90 لاکھ کشمیری باشندے اپنے گھروں میں قیدی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج نے وادی میں دہشت طاری کی ہوئی ہے۔ مغرب ایک طرف ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر ٹسوے بہاتا ہے لیکن دوسری طرف مقبوضہ کشمیر پر خاموشی اختیار کی گئی ہے جو ہمارے لئے تشویش کا سبب ہے‘۔
وزیر اعظم نے مغربی ممالک کو اپنے دوہرے معیار پر شرمندہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ چینی حکومت کی ایغور پالیسی کی تائد بھی کی اور چن جیانگ کے ایغور مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے ساتھ برتے جانے والے ظالمانہ اور وحشیانہ سلوک کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ شہادت فراہم کی کہ اس صوبے میں چینی حکام ایغور مسلمانوں کے ساتھ مغربی تنقید کے برعکس مناسب اور بہتر سلوک کررہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’دنیا ضرور چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں نکتہ چینی کرتی ہے لیکن چین میں پاکستانی سفیر نے چن جیانگ کا دورہ کیا ہے اور ان کی اطلاع کے مطابق زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں‘۔ عمران خان نے اس بیان کی وضاحت نہیں کی کہ چن جیانگ میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کے الزامات اور انہیں ثقافتی و مذہبی طور سے تباہ کرنے کے دعوؤں کے برعکس پاکستانی سفیر نے ایسے کون سے شواہد دیکھے تھے جن کی روشنی میں پاکستان کا وزیر اعظم چین کو کلین چٹ دینے پر مجبور ہؤا ہے۔
مغربی ممالک اور اقوام متحدہ چین پر ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتی ہے۔ ان اطلاعات کے مطابق چین نے 2017 سے چن جیانگ میں حراستی مراکز قائم کئے ہیں جن میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ ایک آسٹریلین رپورٹ کے مطابق ان کیمپوں کی تعداد میں صرف 2020 کے دوران چالیس فیصد اضافہ ہؤا۔ اطلاعات کے مطابق اس کیمپوں میں 10 سے 20 لاکھ ایغور مسلمانوں کو نظربند کیا گیا ہے۔ چینی حکومت اگرچہ ان کیمپوں کو تربیتی مراکز کہتی ہے تاکہ ایغور مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تربیت دی جاسکے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ کیمپ درحقیقت جیل خانے ہیں جہاں نظربند کئے جانے والے لوگوں کو ذہنی اذیت اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کیمپوں سے فرار ہونے والے لوگوں نے بتایا ہے کہ وہاں تشدد کے علاوہ خاص طور سے خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اپریل 2021 میں چین کو چن جیانگ میں ایغور کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب کا کہنا تھا ’ایغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے‘۔
امریکی کانگرس کی مسلمان رکن الہان عمر نے اس بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’چین میں رونما ہونے والے واقعات ظالمانہ ہیں۔ ایغور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں تاریخ میں انسانوں کے خلاف بدترین جرائم میں سے ایک ہے۔ امریکہ کو اس ظلم پر چین کو ذمہ دار ٹھہراناچاہئے‘۔ امریکہ کی قیادت میں متعدد مغربی ممالک چین کی ایغور پالیسی کو مسترد کرتے ہیں اور انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جب کینیڈا کے مسلمانوں کے خلاف تعصبات کو مسترد کیا ہے اور اسلاموفوبیا کی روک تھام و نگرانی کے لئے نمائیندہ خصوصی مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے تو انہوں نے اپنے ملک میں وہی انتظام کرنے کی ضمانت فراہم کی ہے جس کا مطالبہ چین سے کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں آباد مذہبی و ثقافتی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دے۔
کینیڈین حکومت نے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے ٹوئٹ کے بعد ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ ’کینیڈا کے مسلمان روزانہ کی بنیاد پر اسلاموفوبیا کاسامنا کرتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے تاکہ کینیڈا کو ہر طرح کے لوگوں کے رہنے کے قابل بنایا جاسکے‘۔ ہر مہذب جمہوری ملک اپنے تمام لوگوں کے حقوق کی ضمانت دینا بنیادی طور سے ضروری سمجھتا ہے۔ جسٹن ٹروڈو نے اسی طرف اشارہ کیا ہے تاہم جب پاکستانی وزیر اعظم مذہبی تعصب کے خلاف کینیڈا سے سامنے آنے والے ایک بیان کی تائد میں پر زور ٹوئٹ جاری کرتے ہیں اور مل کر اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو ان کی یہ بات اسی وقت قابل غور ہوگی جب وہ یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف ہرقسم کے تعصب کا خاتمہ ہو اور حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف برتے جانے والے ناروا سلوک کی اسی طرح نگرانی کرے جیسی نگرانی کا اہتمام کینیڈا کے وزیر اعظم اپنے ملک میں کررہے ہیں۔
پاکستان میں اس کے برعکس مذہبی اقلیتوں کے لئے زندگی دن بہ دن مشکل ہوتی جارہی ہے۔ جس روز عمران خان اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے پر جسٹن ٹروڈو کی کمر تھپتھپا رہے تھے، اسی دن پشاور میں ایک پادری کو دن دہاڑے گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور ایک عیسائی شخص کو زخمی کیا گیا۔ سوچنا چاہئے اگر خدانخواستہ ایسا ہی کوئی واقعہ کینیڈا یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کسی مسلمان کے خلاف ہوتا تو کیا وہاں کا وزیر اعظم اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے بعد خاموش رہتا یا فوری طور اس اندوہناک واقعہ کا نوٹس لیا جاتا اور ان عوامل کو دور کرنے کے لئے ہر سطح پر کام دیکھنے میں آتا جن کی وجہ سے مذہبی تعصب کی وجہ سے لوگوں کو ہلاک کرنے کا رویہ فروغ پاتا ہے یا ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی بدسلوکی کی اطلاعات روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتی ہیں اور حکومت دوسرے ملکوں میں اصلاح احوال کے اعلانات کے ذریعے اس افسوسناک صورت حال کو نظر انداز کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔
عمران خان ایک طرف کشمیر کے سوال پر مغرب کے دوہرے معیار کی شکایت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف چین میں اتنی ہی تعداد میں آباد ایغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے جابرانہ، متعصبانہ اور غیر انسانی سلوک پر نہ صرف خاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ سیاسی و سفارتی مجبوری کی وجہ سے چین کے ظلم کو اپنے سفیر کے دورہ کا حوالہ دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر پاکستان نے چن جیانگ سے ایسے شواہد حاصل کئے ہیں جن میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو ثابت کیا جاسکتا ہے تو ان اعداد و شمار اور دستاویزات کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر سامنے لاکر چین کی دوستی کا حق ادا کرنا چاہئے اور وزیر اعظم کو دورہ چین سے پہلے سفارتی شعبدہ بازی کے لئے میڈیا بیان تک محدود نہیں رہنا چاہئے تھا۔ تب ہی پاکستانی وزیر اعظم کی گفتگو میں توازن تلاش کیا جا سکتا تھا۔ موجودہ حالات میں تو یہی کہا جائے گا کہ عمران خان دوہرے معیار کے حوالے جو الزام مغربی ممالک پر عائد کررہے ہیں ، درحقیقت وہ خود اسی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین میں ہونے والے مظالم کو جائز اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو سب سے بڑا انسانی مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کے سوال پر پاکستانی مؤقف کی حامی نہیں ہے اور بھارت پر مناسب دباؤ نہیں ڈالا جاتا لیکن یہ بیان کرنا بھی حقائق سے روگردانی ہوگی کہ عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن اس سلسلہ میں متعدد رپورٹس جاری کرچکا ہے۔ مغربی میڈیا تسلسل سے کشمیر میں روا رکھے جانے والی ظالمانہ اور انسانیت سوز بھارتی پالیسی کے خلاف رپورٹس اور تبصرے شائع کرتا رہتا ہے یا ڈاکومنٹری بنائی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے بیشتر ادارے بھی اس حوالے سے آواز بلند کرتے رہتے ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے گزشتہ سال کے دوران مقبوضہ کشمیر کے بارے میں ’حقائق‘ پر مبنی جو ڈوسئیر تیار کیا تھا ، وہ بھی مغربی میڈیا رپورٹس اور عالمی اداروں کی فراہم کردہ معلومات پر ہی مبنی تھا۔ اس لئے عمران خان کا یہ دعویٰ کہ دنیا نے کشمیری عوام کی حالت زار پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، مکمل طور سے درست نہیں ہے۔
یوں بھی دنیا بھر میں کئی لاکھ کشمیر آباد ہیں جو اپنے طور پر کشمیر کی صورت حال کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ تاہم جہاں تک پاکستان اور بھارت کے درمیان اس معاملہ پر اختلافات کا معاملہ ہے تو اس میں دونوں ممالک اپنی ماضی کی سیاست اور تنگ نظری کا شکار ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی طرف سے وسیع القبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو کشمیری عوام کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور کوئی ایسا حل تلاش کرنے کی طرف پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی جس میں کسی ایک ملک کی برتری کی بجائے خطے میں آباد انسانوں کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ایغور مسلمانوں کے حوالے سے چین پر ٹھوس الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق جن چیانگ میں حراستی مراکز میں ایغور مسلمانوں پر تشدد کیا جاتا ہے، ایغور عورتوں کو بانجھ بنایا جاتا ہے، بچوں کو ان کے خاندان سے چھین لیا جاتا ہے، مسلمان لیڈروں کو ہلاک کیا جاتا ہے اور ایغور مسلمانوں کو اپنے عقیدہ اور ثقافتی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے سے محروم کیا گیا ہے۔ چن جیا نگ میں روزے رکھنے یا قرآن پڑھنے پر پابندی، مساجد بند کرنے کے اقدامات، مذہبی علامات مثلاً ٹوپی یاحجاب کے استعمال کی ممانعت جیسے سنگین اقدامات شامل ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی مسلمانوں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے چین میں ایغور یا میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ