یہ تو سب ہی کہتے ہیں کہ آئیے وعدہ کریں۔ تجدید عہد کریں اور یہ عزم تازہ کریں کہ اس ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کی مانند سب رہنے والوں کے لئے جنت نشین بنا دیں گے۔ کیوں نہ اس دن کی تقدیس کا احترام کرتے ہوئے آج ایک سچ بولیں۔ آج یہ اعلان کریں کہ ہم سارے وعدوں سے بری ہوئے۔ آج وعدہ توڑنے کا دن ہے۔ 1940 کو اس روز جن لوگوں نے لاہور میں جمع ہو کر قرارداد پاکستان کی صورت میں ایک وعدہ اور عہد کیا تھا وہ اب سارے رخصت ہوئے۔ یا انہیں استبداد زمانہ نے ایسی ایسی تصویریں دکھا دی ہیں کہ وہ خود سوچتے ہوں گے کاش یہ زندگی تین چوتھائی صدی پیچھے دھکیل دی جائے۔ ہم اس ساعت میں موجود ہوں جب لوگوں کا ایک جم غفیر اکثریت کے استبداد سے خوفزدہ، انصاف کے حصول کے لئے ایک علیحدہ ملک کے خواب کی تشکیل کا عہد کر رہا تھا۔ بس یوں ہو کہ اس لمحہ میں ان 75 برس کے وہ سارے تجربات بھی ہمارے ساتھ ہوں جو ہم نے 1940 سے آج تک پہنچنے میں حاصل کئے ہیں۔
پھر سوچئے کیا نظارہ ہو گا۔ کیا کوئی ہاتھ اس قرارداد کی حمایت میں بلند ہو سکے گا، جس نے برصغیر میں ایک نئی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا اور پھر اس کی تکمیل کے لئے ہر قربانی کو جائز قرار دیا تھا۔ بہت آسائش ، بہت زیادہ تسکین اور بے حد آرام کے بعد محض یہ اندازہ کرنے کے لئے کہ یہ سب نہ ہوتا تو کیا ہوتا …. ذرا سی تکلیف ، کچھ بے چینی اور تھوڑی سی کمی کا تجربہ نہایت مفید ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ ہمارے وطن عزیز میں بے پناہ تکلیفوں میں مبتلا عاجز لوگوں کی اکثریت سکون کے ایک لمحہ کے لئے خواہش و تمنا کرتی ہے۔ کچھ یوں ہی وعدوں ، دعوﺅں اور اعلانات کے ایک ہجوم میں کیوں نہ یہ اقرار کر لیا جائے کہ نہ، ہم کوئی وعدہ نہیں کرتے۔ آج ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم کسی وعدے اور دعوے کے پابند نہیں ہیں۔ آج ہم وعدے توڑنے کا دن مناتے ہیں۔
یوں بھی دن تو یادگار لمحوں کے منائے جاتے ہیں۔ وہ لمحہ یادگار کیوں کر ہو سکتا ہے جو 23 مارچ کی ایک ساعت یا پھر اس کے بعد آنے والے چند برسوں کی سنہری بیتی گھڑیوں میں منجمد ہو چکا ہو۔ یادگار لمحے تو وہ ساڑھے چھ صدیاں ہیں جو ہم نے ان سات برسوں میں یاد کئے گئے سبق کو جستہ جستہ فراموش کرنے کی جدوجہد میں بتائے ہیں۔ یادگار ہمارے بزرگوں کا اعلانِ لاہور نہیں بلکہ 67 برس میں وعدے توڑنے اور جھوٹ بولنے کا وہ رویہ ہے، جس نے ایک سنہری خواب گہنا دیا۔ جس نے ایک قوم کو فرد بنا دیا اور جس نے جھوٹ کو سچائی بنا کر ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ آئیے آج ان سب بد عہدیوں ، بے قاعدگیوں ، ناانصافیوں اور دروغ گوئیوں کی یادگار منائیں جو آج ہماری قوم کا طرہ امتیاز ہے۔ آج قرار دیں کہ آج ہر عہد توڑنے کا دن ہے۔
پاکستان کی تحریک اسلام کی نشاة ثانیہ کی تحریک نہیں تھی۔ محمد علی جناح ایک عملی آدمی تھے۔ وہ صرف ایسا وعدہ کرتے تھے جو وہ پورا کر سکیں۔ انہوں نے نہ خواب دیکھے اور نہ دکھائے۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور کیا۔ ان کے حل کے لئے تمام امکانات کو پرکھنے کے بعد بالآخر ایک ایسی علیحدہ مملکت کے لئے کام کرنے کا عزم کیا جہاں سب کو انصاف اور خوشحالی میسر آ سکے۔ اس تحریک کے قائد کو اس کے ماننے والوں نے قائد اعظم کا خطاب دیا اور اس کے بعد وہ اپنے سارے فرائض سے سبکدوش ہو گئے۔ اس اصول سے بھی کہ قائد کی بات کو سننا ، اس پر غور کرنا اور عمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہ عظیم کام انسانوں کی اس جمعیت نے کیا ہے جو اس وقت پاکستان نام کے خطے میں آباد ہے۔ اور جسے قوم کہنے یا لکھنے کی ہمت کرنا یوں ہی ہے جیسے سورج کو اندھیرا اور رات کی تاریکی کو صبح نو قرار دیا جائے۔ 75 برس قبل آج کے دن مساوات و برابری ، تحمل و بردباری ، عزم و استقلال اور نظم و ضبط کا ایک عہد کیا گیا تھا۔ یہ عہد ایک رہنما کی پیروی کرنے والوں نے کیا تھا۔ ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے چھ دہائیوں میں ان وعدوں کو جھوٹا ثابت کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ آج ہماری کامیابی کا دن ہے۔ آج وعدے توڑنے کا دن ہے۔
یہ کہانی بہت لمبی ہے لیکن ایک سطر میں کہی جا سکتی ہے۔ اس کے نشان اگرچہ 67 برس کے لمحوں میں پھیلے ہیں۔ اور اس کے شواہد ہمارے سارے دن اور ساری راتیں فراہم کرتی ہیں۔ یہ دغا اور بے وفائی کی کہانی ہے۔ یہ جھوٹ اور بے ایمانی کی کہانی ہے۔ یہ دھوکہ دہی اور فریب کی داستان ہے۔ یہ ایک خواب سجنے سے پہلے اسے توڑنے اور پھر اس کے حصے بخروں میں خون بھرنے کا قصہ ہے۔ یہ ہمارا قصہ ، ہمارا اعمال نامہ اور ہمارے تجربات کا منظر نامہ ہے۔ یہ جھوٹ خود ہم نے اپنے آپ سے بولا ہے۔ اب اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے بول رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔ بس اتنا تو ہو سکتا ہے کہ مان لیں کہ یہ جھوٹ بولنے کا دن ہے۔ وعدے توڑنے کا دن ہے یعنی خود آئینہ دیکھنے کا یادگار لمحہ ہے۔ بدصورت بھی آئینہ تو دیکھتے ہی ہیں …. گو کہ کبھی کبھی۔ کیا آج ہم دیکھیں؟۔
یہ داستان خونچکاں ہے۔ اس کی تشکیل میں معصوم لوگوں کا خون اس امید پر شامل ہؤا تھا کہ وہ ایک عظیم مقصد اور جہان نو کے لئے بہایا جا رہا ہے۔ باقی کے سب برس اس معصوم خون کی نفی کرنے کے عمل کا نام ہے۔ اب خون بہایا جاتا ہے ، تو اس مقصد کو محو کرنے کے لئے جو ایک نئی مملکت کے قیام کے لئے متعین ہؤا تھا۔ اب ہر ہاتھ میں تلوار اور بندوق ہے ۔ اب نشانے پر خود ہمارا جگر ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اسی شاخ کو کاٹتے ہیں جس پر ہمارا بسیرا ہے۔ ہم دلفریب خود فریبی کا شکار قوم ہیں اور جھوٹ کو سچ کہہ کر زندگی کی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کیا سال کا ایک دن اس کہر آلود رویہ سے گریز کے طور پر منایا جا سکتا ہے۔ کیا آج یہ کہا جا سکتا ہے یہ جھوٹ بولنے کا دن ہے۔
جھوٹ کے لئے اتنا اہتمام شاید ہی کسی روز ہوتا ہے جتنا ہم لوگ آج کے دن کرتے ہیں۔ آج پوری شان و شوکت اور طمطراق سے جلسہ گاہیں سجائی جائیں گی۔ اسٹیج پر معتبر اور مفکر اپنی بلند دستاروں اور جبہ ہائے فضیلت کے ساتھ رونق افروز ہوں گے۔ پرانی باتوں میں تازہ لفظوں کا اضافہ کر کے مردہ جسم میں جان ڈالی جائے گی۔ ذاتی خواہشوں اور مفادات کے اسیر آج بے لوثی اور قربانی کی مثالیں دیں گے اور جھوٹ بولتے ہوئے اسے سو فیصد سچ کہنا ہرگز نہیں بھولیں گے۔ آج عمارتیں اور شاہراہیں سجائی جائیں گی لیکن آنکھیں ویران اور دل بنجر ہوں گے۔ آج امید کی باتیں ہوں گی لیکن سب جان رہے ہوں گے کہ امید کا گلا خود ہم نے اپنے اعمال سے گھونٹ دیا ہے۔ آج عہد رفتہ کی عظمت کو یاد کر کے آنے والے وقت میں تعمیر ہونے والے محلات کا نقشہ کھینچا جائے گا۔
بتانے والوں کے لفظ بھی مصنوعی ، نعرے بھی کھوکھلے اور طنطنہ بھی پھس پھسا ہوگا۔ سننے والوں کی سماعت بے بہر ہوگی۔ وہ جان رہے ہوں گے کہ یہ سب فریب ہے اور جھوٹ ہے۔ وہ تالیاں بجائیں گے اور نعرے لگائیں گے …. یہ سب بے صوت ہوں گے۔ عجیب منظر ہوگا۔ کہنے اور سننے والے ایک دوسرے کے جھوٹ کو سمجھ رہے ہوں گے۔
بہت لوگ سوچتے ہوں گے کہ یہ سفر ہمیں کہاں لے جائے گا۔ کچھ ہوں گے جو جھوٹ کے اس خول سے جان چھڑانے کی خواہش رکھتے ہوں گے۔ ہر کسی کے دل میں فریب کی حکمرانی کے باوصف شاید اس تجسس کی کوئی رمق باقی ہو کہ ہم اس گول دائرے کے سفرِ رائیگاں میں کیوں ہلکان ہو رہے ہیں۔ کچھ آنکھیں نم بھی ہوں گی ۔ بہت سے دل بے چین بھی۔ کیا یہ نمی وہی ہے جو بنجر مٹی کو زرخیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیا یہ درد گلستان میں گلوں کی ایک نئی فصل کاشت کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
سب ممکن ہے۔ سب ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے جھوٹ اور سچ میں فرق ضروری ہے۔ یہ مان لینا اہم ہے کہ سراب کی تلاش میں بھٹکتے لوگ پانیوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ تسلیم کر لینا ہوگا کہ ترقی کے اس سفر کو کس طرح ہم سب نے مل جل کر خسارے اور تباہی کا قصہ بنا دیا۔ اس کے لئے آج کے اس جھوٹ سے نکلنا ضروری ہے۔ اس کے لئے کسی فقرے ، کسی نعرے یا کسی وعدے پر تالی پیٹنے سے پہلے دل سے مخاطب ہونا ضروری ہے۔
یہ سب کرنے کے لئے آئیے ایک لمحہ کے لئے ہی سہی یہ اقرار کر کے تو دیکھیں کہ آج وعدہ توڑنے اور دھوکہ دینے کا دن ہے۔ شاید اس طرح ہم خود دھوکہ کھانے سے بچ جائیں۔
(یہ تبصرہ 23 مارچ 2014 کو لکھا گیا تھا۔ اسے دوبارہ پڑھ کر دیکھیں کہ 2018 تک پہنچتے پہنچتے ہمارے رویے کس حد تک تبدیل ہوئے ہیں۔ اشاعت ثانی کا مقصد صرف یہ باور کروانا ہے کہ مملکت خدادد پاکستان میں وقت منجمد ہو گیا ہے)
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )