اصغر خان کیس کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی کو 1990 کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے سیاست دانوں میں رقوم بانٹنے کے بارے میں شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق جنرل بیگ اس معاملہ کی ذمہ داری جنرل درانی پر ڈالتے ہیں اور جنرل درانی کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں ریکارڈ شاید جی ایچ کیو میں موجود ہو گا۔ اب ایف آئی اے جی ایچ کیو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کیس کی تحقیقات خواہ کسی انجام کو پہنچیں اور 1990 میں پیپلز پارٹی کوشکست دلوانے کے لئے ہونے والی سازش میں رقوم وصول کرنے والوں کے بارے میں چاہے ثبوت اور معلومات سامنے نہ آسکیں لیکن 2012 میں اصغر خان کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اعلیٰ فوجی افسروں کی طرف سے ملک کے سیاسی جمہوری عمل میں مداخلت تسلیم کرتے ہوئے آئین شکنی کو مان لیا تھا۔ گزشتہ دنوں اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کی جا چکی ہے اس لئے اب یہ طے شدہ معاملہ ہے کہ فوج ماضی میں سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے اور اپنی پسند کی پارٹیوں یا گروہوں کو جتوانے اور مخالف کو ہرانے کے لئے کسی نہ کسی طرح اثر و رسوخ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہی اصولی بات اس وقت ملک میں جاری سیاسی مباحث کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ صرف یہ طے ہونا ہے کہ اب فوج اس قسم کے کردار سے اجتناب کرتی ہے یا وہ بدستور سیاسی معاملات کو اپنی مرضی سے چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں یا مخالفت میں مہم جوئی کرتی ہے۔
فوج کا یہ کردار چونکہ ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے اس لئے کوئی بھی فوجی سربراہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ فوج ملک کے سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے۔ وہ اس کے برعکس جمہوریت کے تسلسل اور آئین کی بالادستی کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ماضی ہی کے طریقہ کار کے مطابق ایک مخصوص پارٹی کے خلاف اور دوسری کی حمایت میں ماحول سازی کی صورت حال بھی موجود ہے اور یہ خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ فوج کے لئے کون سے سیاست دان قابل قبول ہیں اور کون سے ناقابل قبول۔۔۔ اس لئے ملک میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ملک کی فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے بارے میں بے خبر ہو یا یہ کہتا ہو کہ فوج آئین کے مطابق صرف سرحدوں کی حفاظت یا حکومت وقت کے احکامات کی پابندی کرتی ہے۔
گزشتہ ستر برس کے دوران فوج نے ملک کی معیشت اور سیاست میں جو مقام حاصل کیا ہے اس کی وجہ سے یہ سچائی جاننے کے باوجود کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور منتخب حکومتیں اس کی رائے ماننے پر مجبور ہوتی ہیں، یہ سوال اب فوج کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی سے زیادہ ملٹری سول تعلقات اور ان میں توازن قائم کرنے سے متعلق ہو کر رہ گیا ہے۔ یعنی اس ملک کو اگرچہ مروجہ آئین کے مطابق چلانے کی بات کی جاتی ہے لیکن ’زمینی حقائق‘ یا ضرورتوں کا نام لے کر یہ بھی اس بحث کا لازمہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ فوج کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ اور جو بھی یہ انگلی اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اس پر ملک سے دشمنی اور قومی مفاد کے برعکس کام کرنے کا الزام عائد ہونا معمول کی بات بن چکا ہے۔ اسی لئے نواز شریف اس وقت تنقید کی زد پر ہیں اور بعض عناصر ان کے بعض بیانات کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس قسم کی ایک درخواست اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت بھی ہے۔
آئین کی بالادستی پر اتفاق رائے کرتے ہوئے چونکہ ملک کی فوج کے کردار کے بارے میں ابہام اور مختلف آرا پائی جاتی ہیں ،اس لئے اسی بحث میں کچھ ایسے جمہوریت پسند عناصر بھی موجود ہیں جو ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی صاف گوئی کی وجہ سے یہ امید لگا رہے ہیں کہ اس طرح بالآخر ملک میں ایسی بحث سامنے آسکتی ہے جس میں آئین کا کردار واضح ہوگا اور اس کے تحت مختلف اداروں کو جو اختیار تفویض کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کے اصول طے ہو سکیں۔ جس طرح ملکی خارجہ و سیکورٹی پالیسی کے حوالے سے ایک بیان پر نواز شریف کے خلاف ملک دشمنی کا ہنگامہ کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح شاید یہ امید لگا لینا بھی قبل از وقت ہے کہ نواز شریف کی طرف سے ماضی میں کی گئی بے قاعدگیوں کے ذکر سے فوج سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ دے گی یا سول ملٹری تعلقات میں توازن قائم کیا جاسکے گا۔ کیوں کہ اس بارے میں رائے منقسم ہے اور لوگوں کو مختلف النوع خبریں فراہم کا سلسلہ دراز ہے۔ اس طرح فضا صاف ہونے کی بجائے زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ جو غلطیاں کرتے ہوئے ماضی میں نواز شریف تین بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے، اب دوسرے سیاسی لیڈر بھی اس طریقہ کے مطابق قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کی اڑان سے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہو تا کہ ایسے سیاست دانوں کی امیدیں غلط نہیں ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے ملک پر حکومت کرنے کے یہ نئے امید وار اس حقیقت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف اگر تین بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تو اتنی ہی بار وہ اس عہدہ سے نکالے بھی گئے۔ آخری بار تو وہ کوئی سیاسی عہدہ لینے کے لئے بھی تاحیات نااہل قرار دئیے جا چکے ہیں۔ قسمت آزمائی کے جوش میں یہ انجام اکثر لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے سیاست میں جمہوری انتخاب اور فوجی اختیار کا کھیل پوری توانائی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
اس مرتبہ البتہ یہ خوشگوار یا تکلیف دہ صورت حال ضرور موجود ہے کہ سیاست میں فوج کے کردار کو کمزور کرنے کے لئے اگرچہ کوئی سیاسی قوت موجود نہیں ہے لیکن اس بارے میں نشاندہی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سب اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کردار ہے اور اسی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اسے ملکی حالات کی ضرورت قرار دے کر قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ اس معاملہ کو فوج اور سیاست دان مل جل کر طے کرلیں اور اس معاملہ پر تنازعہ کھڑا نہ کیا جائے کیوں کہ تنازعہ کی صورت میں فوج پر حرف زنی ہوگی اور اس کا فائدہ دشمن کو ہو گا۔ اسی لئے نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ممبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے بیان کو متنازعہ اور خطرناک بھی قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں آئین کی بالادستی کے حوالے سے خالص جمہوری عمل کے اصول کو مانتے ہوئے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کی اجازت دی جائے یا بعض معاملات کو اتنا حساس قرار دیا جائے کہ ان پر بات کرنا ہی ملک دشمنی قرار پائے۔
ایک تو یہ رویہ جمہوریت کی اساس یعنی اظہار رائے کے اصول کے منافی ہے۔ دوسرے جب ملک کا آئین منتخب پارلیمنٹ کو فیصلے کرنے کا اختیار دیتا ہے تو یہ بات کیسے تسلیم کی جائے کہ سیاسی جماعتیں اور فوج مل کر سیاسی فیصلوں میں فوجی مداخلت کے معاملہ پر کوئی لائحہ عمل تیار کرلیں تاکہ روز روز کا فساد ختم ہو اور فوج اور منتخب حکومت خوش اسلوبی سے مل جل کر قوم کے بہترین مفاد میں کام کرسکیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کا انتظام کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی ناگزیر ہوگی اور سیاسی پارٹیوں کو اس اصول پر انتخاب میں شریک ہونا بڑے گا کہ وہ فوج کی سیاست میں شراکت کی حمایت کرتی ہیں اور اس بارے میں آئینی ترامیم کی جائیں گی۔ ملک کی کوئی سیاسی پارٹی ایسا سیاسی منشور سامنے لانے کا حوصلہ نہیں کرسکتی حالانکہ عملی طور پر ہر پارٹی فوج کی سیاسی اعانت کو برسر اقتدار آنے کے لئے محفوظ ترین اور ضروری زینہ سمجھتی ہے۔
نواز شریف کے انکشافات اور بیانیہ سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اگر وہ فوج کے اختیار کو سرحدوں کی حفاظت تک محدود کرنے اور اس کی قیادت کو ملک کے منتخب وزیر اعظم کی صوابدید اور مرضی کا پابند کرنے کے اصول پر کھڑے رہے تو مسلم لیگ (ن) کو شدید سیاسی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یعنی بیشتر ایسے سیاست دان جو قوم پرستی اور اقتدار یا فوج کی ضرورت اور اس کی سیاسی بدعملیوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا ضروری نہیں سمجھتے، وہ پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں پناہ لیں گے۔ ایسے میں بظاہر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی یا قابل قبول تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے امکانات بھی معدوم ہو جائیں گے۔ شہباز شریف کو تو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اس ہاتھا پائی میں پنجاب کا اقتدار بھی مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اسی لئے نواز شریف کے رویہ کے حوالے سے دو بنیادی سوال سامنے آتے ہیں : 1) کیا وہ واقعی اتنے نظریاتی ہو چکے ہیں کہ اب عواقب کی پرواہ کئے بغیر اپنے بیان کردہ اصولوں پر کھڑے رہیں گے اور اس سفر میں کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار ہوں گے۔ 2) جب وہ نظام کی غلطیوں سے آگاہ تھے تو اقتدار میں ہوتے ہوئے ان سے نمٹنے اور اداروں کو مضبوط کرنے اور فوج کے اختیار کو محدود کرنے کے لئے عملی اقدامات کیوں نہ کرسکے۔
دوسرے سوال کا جواب تو سادہ ہے کہ فوج معاملات پر اس قدر دسترس حاصل کرچکی ہے کہ کوئی بھی منتخب وزیر اعظم فوج کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو سیاست اور اداروں پر فوج کے کنٹرول کے نتیجہ میں اسے اقتدار سے محروم کرنا بہت آسان ہے۔ ملک کا آئین اور نظام منتخب وزیر اعظم کے اختیار اور اقتدار کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ اس کی زندہ مثال نواز شریف کا انجام ہے۔ پہلے سوال کا جواب نواز شریف کو خود دینا ہے۔ اگر وہ واقعی ماضی کے تجربات سے تنگ آکر اب ملک میں جمہوریت کا راستہ ہموار اور فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو تجزیہ نگار کچھ بھی کہتے رہیں عوام کی اکثریت ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ تاہم نواز شریف ابھی تک یہ آخری جست لینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لئے مل جل کر کام کرنے کا شہباز شریف کا مؤقف سننے میں آتا ہے اور اس کے لئے مصالحت کے امکانات بھی تلاش کئے جارہے ہیں۔ حتمی اور دوٹوک مؤقف اختیار کئے بغیر نواز شریف کی جارحیت سے نہ ملک کو فائدہ ہوگا نہ ان کے لئے سیاسی اقتدار کا راستہ ہموار ہو سکے گا۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ