گزشتہ شب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری کی اور یہ جنگ الزامات ، طعنوں اور دھمکیوں سے جیتنے کی کوشش کی۔ بھارت کی وزیر خارجہ کو پہلے تقریر کرنے کا موقع ملا لیکن انہوں کسی بڑے ملک کی لیڈر ہونے کا ثبوت دینے کی بجائے اپنی گفتگو کو پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی سرپرستی کے موضوع پر مرکوز رکھا۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے مذاکرات سے گریز کے لئے اس عذر کو بنیاد بنایا ہؤا ہے اور گزشتہ چار برس کے دوران کی گئی متعدد کوششیں بھی اس بھارتی رویہ کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ سشما سوراج کی تقریر برصغیر یا عالمی سطح پر قیام امن کے لئے کوئی ٹھوس تجویز یا رائے سامنے لانے کی بجائے بھارت کی انتہا پسند حکومت کی پر جوش ترجمان کی لن ترانی بن کر رہ گئی۔ جسے پاک بھارت تعلقات میں پاکستان کی کج روی کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو نظر ہی نہیں آتا۔ وہ بار بار مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتی رہیں اور اس بات کا اعتراف کرتی رہیں کہ بات چیت کے بغیر دنیا کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن ان کے ہر فقرے کی تان اس بات پر ٹوٹتی رہی کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں پاکستان کا ’غلط‘ رویہ ہی ان کی ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے نہایت مدلل طریقے سے بھارتی ہم منصب کے الزامات کا جواب دیا اور اقوام عالم کے نمائیندوں کو بتایا کہ کس طرح نئی دہلی کی حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے وزرائے خارجہ کی ملاقات پر اتفاق کر کے، اسے منسوخ کیا اور اس کے لئے پرانے واقعات کو بہانہ بنایا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے یہ اعزاز بھی حاصل کیا کہ وہ پہلے پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے قومی زبان اردو میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس تقریر کا متعدد زبانوں میں براہ راست ترجمہ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے وضاحت سے اپنا مؤقف پیش کیا اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور تخریب کاری کا ذکر کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کے اعترافات کا حوالہ بھی دیا۔ کلبھوشن یادیو کی بلوچستان میں گرفتاری کے اڑھائی برس بعد شاہ محمود قریشی پاکستان کی یہ خواہش بھی پوری کرنے میں کامیاب ہوئے کہ بھارتی جاسوس کا نام لے کر اقوام عالم کو بتایا جائے کہ بھارت کس طرح پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھا رہا ہے اور علاقے میں قیام امن کی کوششوں کو تاراج کررہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے عالمی ادارے کی ضرورت اور اہمیت پر بھی زور دیا اور اقوام متحدہ کو مستحکم اور زیادہ جمہوری بنانے کی کوششوں کا پوری طرح ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ تاہم ان کی تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ پاکستان بات چیت کے لئے تیار ہے اور مسائل کا حل مذاکرات سے ہی تلاش ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ بات چیت سے بھارت کی فراریت کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں فاصلے پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے نہایت دردمندی سے کشمیری عوام کی قربانیوں کا ذکر بھی کیا اور جنرل اسمبلی پر واضح کیا کہ ستر برس گزر جانے کے باوجود کشمیری عوام کی خواہشات پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس عالمی پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کو کمزور نہ سمجھا جائے اور وہ امن کی خواہش رکھنے اور کوشش کرنے کے باوجود اپنی سرحدوں کا تحفظ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت نے اگر لائن آف کنٹرول عبور کرکے کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی یا اپنی ’محدود جنگ‘ کی ڈاکٹرائن پر عمل کیا تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔
ایٹمی صلاحیت کے حامل ان دو ہمسایہ ملکوں کے نمائیندوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے، اس سے امن کی امید لگانا عبث ہے۔ نہ ہی اس میں ایک دوسرے کے بارے میں پالیسی کی تبدیلی کا کوئی اشارہ موجود ہے۔ یہ وہی بیانات ہیں جو دونوں ملکوں کی قیادت وقفے وقفے سے الزام تراشی یا جنگ کی دھمکیوں کے لئے جاری کرتی رہتی ہے۔ بھارت میں آئندہ برس ہونے والے انتخابات کی وجہ سے بھی ماہرین اور سفارتی حلقوں کو یقین ہے کہ انتخابات اور نئی دہلی میں نئی حکومت کے قیام سے پہلے یہ دو ہمسایہ ملک مذاکرات کی میز پر مل کر نہیں بیٹھیں گے۔ تاہم مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال اور بھارت میں پاکستان دشمن رائے کے مستحکم ہونے کی وجہ سے انتخابات کی وجہ سے بات چیت میں تعطل ایک عذر ضرور ہو سکتا ہے لیکن کسی بھی ملک میں انتخابات کے بعد بھی ایک دوسرے کے بارے میں رویہ تبدیل ہونے کا امکان موجود نہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ ماہ نئی پارٹی نے حکومت سنبھالی ہے اور عمران خان کی صورت میں ایک ایسا لیڈر وزیر اعظم منتخب ہؤا ہے جس کا پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کوئی سیاسی ماضی نہیں ہے۔ انہوں نے انتخاب جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ہی بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کو اپنی ترجیح بتایا تھا اور پھر وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں اس خواہش کو عملی تجویز کی صورت میں پیش کیا تھا تاکہ باہمی تعلقات پر جمی سرد مہری کی برف پگھل سکے۔ تاہم بھارت نے خیر سگالی کے اس اظہار کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کی طرف اپنی توپوں کا رخ کرکے سفارتی دوری پیدا کی ہے۔ بھارت کی اس عاقبت نااندیش سفارتی حرکت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید دراڑ پیدا ہوئی ہے۔ اور یہ بھی واضح ہؤا ہے کہ ان ہمسایہ ملکوں کے تعلقات میں بہتری انتخابات یا نئی قیادت سے نہیں آئے گی بلکہ انہیں ایک دوسرے کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔
کشمیری لیڈر میر واعظ فاروق نے پاکستانی اخبار ڈان کے لئے لکھے گئے ایک مضمون میں پاک بھارت تعلقات کی نوعیت پر جامع تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’ دونوں ملک بات چیت سے گریزاں ہیں۔ پاکستان کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہے۔ بھارت دہشت گردی کو موضوع بنانا چاہتا ہے۔ لیکن دونوں ملک مذاکرات پر راضی نہیں ہوتے کیونکہ تاریخ کا بوجھ دونوں ملکوں کی قیادت کے پاؤں کی زنجیر ہے۔ اس لئے صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی تقریروں کی روشنی میں میر واعظ کا مضمون ایک رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ دونوں ہمسایہ ممالک ستر برس سے اختیار کیا ہؤا رویہ تبدیل نہیں کریں گے اور کشمیر پر دعویٰ کرتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ کشمیر کے موضوع پر کوئی بات چیت کشمیری عوام کی شرکت کے بغیر نہ مکمل ہو سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب ، اس وقت تک صورت حال تبدیل نہیں ہوگی۔ بد قسمتی سے پاکستان ہو یا بھارت، ان دونوں ملکوں کے لیڈر امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہوں یا دہشت گردی سے نمٹنے کی بات کررہے ہوں وہ کشمیر کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ بھارت نہ صرف مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان تک کے علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اسے نہ اقوام متحدہ کی قراردادیں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی اس خطے میں آباد لوگوں کی امنگوں اور خواہشات کا کچھ خیال ہوتا ہے۔ اسی ہٹ دھرمی اور شدت پسندانہ پالیسی کی وجہ سے اسے مقبوضہ کشمیر میں عوامی مزاحمت کا سامنا ہے اور کشمیر یوں کی نئی نسل اپنے خطے پر بھارتی قبضہ اور اسے برقرار رکھنے کے لئے فوج کے استبداد کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
دوسری طرف پاکستان اگرچہ کشمیر میں استصواب کے بارے میں ستر برس پرانی اقوام متحدہ کی قراردوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں لیکن پاکستانی پالیسی کا بنیادی نقطہ بھی یہی ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ یعنی یہ باور کرلیا گیا ہے کہ کشمیر میں بھارت صرف اس لئے رائے شماری سے انکار کرتا ہے کیوں کہ وہاں ہونے والے کسی ریفرنڈم میں اہل کشمیر پاکستان میں شامل ہونے کا ہی فیصلہ کریں گے۔ یہ قیاس کرتے ہوئے یہ بھلا دیاجاتا ہے کہ جن لوگوں کی آزادی اور خود مختاری کی بات ہورہی ہے، وہ بھی اپنے خطے، لوگوں اور آئیندہ نسلوں کے بارے میں کچھ خواہشات اور امیدیں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 1948 میں کشمیر کے جس علاقے پر قبضہ کیا تھا، اسے خود مختار حیثیت دینے اور ’آزاد‘ ہوجانے والے کشمیریوں کو ہی اپنے محکوم بھائیوں کی آزادی کے لئے کام کرنے کا موقع دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی بھی کشمیریوں کے نزدیک وہی حیثیت ہے جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی ہے۔ یعنی ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر دونوں ہمسایہ ملکوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے اور اب ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں تاکہ دوسرے کے ’قبضہ‘ میں خطے کو واپس اپنے علاقے میں شامل کیا جاسکے۔
میر واعظ عمر فاروق کا مضمون اس اہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازعہ کے اصل پہلو کو بیان کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان دونوں ملکوں میں کوئی ایسی قیادت سامنے نہیں آئے گی جو ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہو اور کشمیریوں کا اپنے علاقے پر حق تسلیم کرتی ہو، اس وقت تک اس دیرینہ مسئلہ کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس تناظر میں شاہ محمود قریشی کا یہ مؤقف تو درست ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم نہیں ہو سکتا لیکن وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے قدیمی پالیسی تبدیل کرنے اور تاریخی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لائن آف کنٹرول ہو، ورکنگ باؤنڈری ہو یا اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم۔۔۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر گولہ باری تو کرسکتے ہیں لیکن مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت اور اہلیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ