یہ 25 ستمبر 2018ءکی رات ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہے۔ مَیں دن بھر کی مسافت کے بعد گھر میں ابھی قدم رکھتا ہوں تو میرے فون پر افسر تعلقاتِ عامہ وسیم یوسف کا نام ابھرتا ہے۔ رات گئے وسیم یوسف کے فون آنے کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ صبح کوئی تقریب ہے یا پھر اس نے کسی سرکاری اجلاس کی اطلاع کرنی ہے۔ مَیں نے وسیم یوسف کا فون ریسیو کیا تو پہلی مرتبہ وسیم یوسف کی فون پر گھبرائی ہوئی آواز سن کر پریشان ہو گیا۔ اس نے بغیر کسی وقفہ کے پوچھا کہ کیا زاہد سلیم گوندل کے بیٹے احمد شجعان کے بارے میں جو افسوسناک خبر ہم تک آئی ہے کیا آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں، تب تک مَیں اس دلخراش خبر کے بارے میں بے خبر تھا۔ مَیں نے وسیم یوسف سے کہا آپ فون بند کریں مَیں ابھی خبر کے سچی یا جھوٹی ہونے کے بارے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ وسیم یوسف کا فون بند ہوا تو مَیں سوچ میں پڑ گیا کہ زاہد سلیم گوندل کے بیٹے کے بارے میں خبر کس سے دریافت کی جائے۔ خالد مسعود خان کا مجھے علم تھا کہ وہ اپنے گھریلو فنکشن کی وجہ سے ملتان سے باہر تھے۔ محمد افضل شیخ کا فون مصروف تھا۔ آخرکار قرعہ آغا ظہیر عباس شیرازی کے نام کا نکلا اور پھر شیرازی صاحب سے فون پر رابطہ ہوا۔ تو وہ اتنے دل گرفتہ تھے کہ بات بھی بڑی مشکل سے کی۔ لیکن انہوں نے احمد شجعان کے اچانک انتقال کی تصدیق کی۔ اسی دوران برادرم محمد افضل شیخ کا فون آ گیا تو وہ بھی اُسی کیفیت میں گم تھے جس میں آغا ظہیر عباس شیرازی کو محسوس کیا۔ اب آہستہ آہستہ ڈی جی آثارِ قدیمہ پنجاب زاہد سلیم گوندل کے ہونہار بیٹے احمد شجعان گوندل کی ناگہانی موت کی تفصیلات آنی شروع ہو گئیں۔ تو مجھے سمجھ نہ آئے کہ مَیں زاہد سلیم گوندل سے کس طرح رابطہ کروں۔ جوان بیٹے کی موت کی تعزیت کیسے کروں؟
رات گئے اطلاع ملی کہ جنازہ صبح چھ بجے لاہور میں ہے۔ اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا۔مَیں نے معمول کی ادویات لیں اور بستر پر نیم دراز ہو گیا۔ وقت کا چکر معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ مَیں تھوڑی دیر کبھی وال کلاک پر نظر ڈالتا تو کبھی یہ سوچتا کہ آج کی رات زاہد سلیم گوندل کے لیے کتنی بڑی قیامت لے کر آئی ہے۔ وہ زاہد سلیم گوندل جنہیں مَیں نے ہمیشہ ہر خاص و عام کے ساتھ مسکراتے اور ہنستے دیکھا دوست احباب کس طرح انہیں صبر کی تلقین کر رہے ہوں گے…….. رات بیت رہی تھی اور احمد شجعا ن کا پیارا چہرہ بار بار نظروں کے سامنے آ رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب زاہد سلیم گوندل ملتان ڈپٹی کمشنر تعینات تھے تو ان کا ہونہار بیٹا ملتان آیا تو زاہد سلیم صاحب نے اپنے چنیدہ دوستوں سے ملاقات کرائی اور بڑی خوشی سے بتایا کہ یہ ہا ورڈ یونیورسٹی جا رہا ہے۔ پھر احمد کے بارے خبر آئی کہ اس نے سکالر شپ حاصل کر لیا ہے۔ اسی دوران زاہد سلیم گوندل سے ملتان کے مختلف منصوبوں کے متعلق بات ہوتی رہی کہ زاہد سلیم گوندل ملتان کے اہلِ قلم کے لیے ٹی ہاؤ س کی صورت میں تحفہ دینا چاہتے تھے۔ خالد مسعود خان، محمد افضل شیخ، سجاد جہانیہ اور رضی الدین رضی گاہے گاہے ملتان ٹی ہاؤ س کی تعمیر اور اس کے قواعد و ضوابط کے سلسلہ میں گوندل صاحب سے ملتے رہے۔ پھر انہی کے دور میں شہر کے لکھنے والوں کو ملتان ٹی ہاؤ س کی صورت ایک ایسا تحفہ ملا جس کو دیکھ کر ادیب، شاعر، دانشور آج بھی ان کے لیے ممنونیت کے جذبات رکھتے ہیں۔
زاہد سلیم گوندل نے بطور ڈی سی ملتان بے شمار ترقیاتی کام کرائے۔ دفتر کے دروازے وا رکھتے تھے۔ ان کے مزاج میں تحمل، بردباری اور متانت پائی جاتی ہے۔ مَیں نے ان کے تین سالہ دور میں شاید ہی کبھی ان کو غصہ میں دیکھا ہو۔ سرکاری معاملات میں ان کے فیصلے آج بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
زاہد سلیم گوندل کی ملتان تعیناتی کے دوران ہمیں یہ علم ہوا کہ ان کی اہلیہ نگہت ناہید ظفر نے پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ان کو ”انگریزی رومانوی شعرا کے اُردو شاعری پر اثرات“ کے موضوع پر ملی۔ جب زاہد سلیم گوندل نے اپنی شریکِ حیات کا وہ مقالہ ہمیں کتابی صورت میں دیا تو ہم دوستوں نے اس بات پر فخر محسوس کیا کہ زاہد سلیم گوندل اور ان کی اہلیہ نے نوکری کے ساتھ اپنے علمی ادبی شوق کو بھی ساتھ رکھا ہوا ہے۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری زیادہ تر ماں کے حصہ میں آئی کیونکہ گوندل صاحب تو لاہور کم ہی ہوتے تھے۔ ملتان میں بطور ڈی سی تقریباً تین سال گزارنے کے بعد جب ان کا لاہور تبادلہ ہوا تو یقینی طور پر گھر والوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو گا لیکن گھر میں ان کا بڑا بیٹا احمد امریکہ میں پڑھ رہا تھا۔
ملتان سے جانے کے بعد گوندل صاحب سے گاہے گاہے رابطہ رہنے لگا۔ لاہور جا کر انہیں دل کی تکلیف ہوئی۔ ڈاکٹروں نے انجیوپلاسٹی کر کے علاج مکمل کیا۔ نگران حکومت نے انہیں ڈی جی آثار قدیمہ لگا دیا۔مَیں نے یہ خبر سنتے ہی انہیں فون کیا کہ گوندل صاحب ابھی آپ اتنے پرانے تو نہیں ہوئے کہ آپ کو آثارِ قدیمہ میں لگایا جاتا۔ وہ ہنس دیئے اور کہنے لگے مَیں بظاہر آپ کو جوان لگتا ہوں لیکن میرے اندر ایک روح ہے جو مجھے نئے کام کرنے پر اُکساتی رہتی ہے۔
24 اگست 2018ءکو وہ ملتان آئے تو عید کا تیسرا دن تھا۔ ہوٹل میں خواجہ جلال الدین رومی، خالد مسعود خان، محمد افضل شیخ، قیوم خوگانی اور مَیں نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھایا۔ تین گھنٹے بیٹھے رہے۔ ملتان کے دوستوں اور حالاتِ حاضرہ پر گپ شپ کی اور رخصت ہونے سے پہلے ایک نعرہء مستانہ بلند کیا کہ جلد ملاقات ہو گی اور مجھے افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے اب مجھ سے زاہد سلیم گوندل سے ملاقات کی ہمت نہ ہے مَیں جو لفظوں سے کھیلتا ہوں کبھی قلم اور کبھی گفتگو کے ذریعے۔ 25 ستمبر کی شب زاہد سلیم گوندل نے جو ستم ڈھایا ہے میرے پاس کوئی سلیقہ یا ایسا کوئی ہنر نہیں کہ ان سے احمد بیٹے کی موت کی تعزیت کروں۔ اگر مَیں ان کو صبر کی تلقین کروں گا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی اور اگر مَیں ان سے تعزیت نہ کروں مَیں گھل گھل کر نفسیاتی مریض بن جاؤ ں گا۔ گوندل صاحب یہ ٹوٹے چھوٹے الفاظ حاضر ہیں۔ انہیں میں میرے آنسو ہیں یہ آنسو مَیں لے کر احمد کی تازہ قبر پر جاؤ ں گا اور وہاں جا کر کہوں گا کہ اگر دنیا سے جانے کی اتنی جلدی تھی تو اتنا تو سوچ لیا ہوتا کہ ماں باپ پر تمہارے بغیر کیا گزرے گی۔ بہن اور بھائی اب کس سے پیار و جھگڑا کریں گے اور احمد بیٹا آپ نے جاتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ ابھی چند سال پہلے آپ کے پرانے گھریلو ملازم کا انتقال ہوا تھا تو تب تمہارے ابو کتنے دُکھی ہوئے تھے کہ ان کے ملتان کے سب دوستوں نے ان کے لیے فاتحہ خوانی کی تھی۔ احمد بیٹا جاتے ہوئے ماں کا ہی سوچ لیا ہوتا جو اب تمہارے ماتھے پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہی تھی اور زاہد سلیم گوندل تو تم میں اپنا آپ دیکھ رہے تھے۔ کاش بیٹا تم نے اتنی جلدی نہ کی ہوتی۔ ہم نے لاہور تمہارے گھر تمہاری شادی پر آنا تھا لیکن اب فاتحہ خوانی کے لیے آئے ہیں۔ احمد تم نے جانے میں جلدی کر دی……..
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ