سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسیٰ نے 2017 کے فیض آباد دھرنا سے متعلق قائم مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے آج دو سوال اٹھائے ہیں جن کا ملک کے سیاسی بحران اور سماجی انتشار سے بنیادی تعلق ہے۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ ملک کو آئین و قانون کے مطابق چلانا ہے یا اسے اسٹریٹ پاور کے ذریعے چلایا جائے گا۔ اسی حوالے سے معزز جج کا یہ استفسار بھی سوال کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ ملک کی اہم ترین انٹیلی جنس ایجنسی کا مینڈیٹ کیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا پہلا سوال اٹارنی جنرل انور منصور خان کی غیر موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سامنے آیا جسے عدالت نے اس مقدمہ کے حوالے سے حکومت کی غیر سنجیدگی سمجھتے ہوئے یہ سوال بھی کیا کہ کیا حکومت اس مقدمہ کی پیروی کرنا بھی چاہتی ہے یا اس بند کردیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے اس مقدمہ میں تفصیلات بتانے کے لئے آج حاضر ہونے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ خود پیش ہونے سے قاصر رہے۔ جس پر عدالت کو یہ سوال کرنا پڑا کہ کس طرح لبیک تحریک والوں نے ایک غیر قانونی دھرنے کے تحت حکومت کو جزو معطل بنا کر من مانی کی تھی۔ اور اب اس مقدمہ کو حتمی انجام تک پہنچانے سے گریز کیا جارہا ہے۔ اسی تناظر میں جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ استفسار بھی کیا کہ کیا تحریک انصاف نے 2014 کے دھرنے کی معافی مانگ لی ہے۔
یہ دھرنا 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دیا گیاتھا لیکن پارٹی عدالتی تحقیقاتی کمیشن میں اپنے اعتراضات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی تھی۔ تاہم تحریک انصاف کو صرف 2014 کے بارے میں ہی معافی نہیں مانگنی بلکہ مسلم لیگ (ن) کی دشمنی میں گزشتہ برس تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران اختیار کی گئی اپنی پوزیشن بھی واضح کرنا ہوگی۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج کا دوسرا سوال آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کے حوالے سے تھا۔ ملک کی اس اہم ترین ایجنسی نے تحریک لبیک کے لیڈروں کی ٹیکس تفصیلات فراہم کرنے سے یہ کہتے ہوئے معذوری ظاہر کی تھی کہ اسے اس کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا استفسار تھا کہ کیا ملک کا تحفظ اس قومی ایجنسی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر یہ بھی اس کے دائرہ کار میں نہیں ہے تو بتایا جائے کہ اس کا مینڈیٹ کیا ہے۔ جسٹس فائز عیسی اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے آئی ایس آئی، پیمرا اور الیکشن کمیشن کی طرف سے فراہم کردہ رپورٹس کو پانچویں بار مسترد کرتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
سپریم کورٹ کے بنچ نے قانون کی حکمرانی اور آئی ایس آئی کے مینڈیٹ کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے حکومت سے استفسار کیا ہے کیوں کہ بادی النظر میں حکومت ہی ان معاملات کی نگران اور ذمہ دار ہے۔ لیکن شاید حکومت ان سوالوں کے جواب دینے کی اہل ثابت نہ ہو۔ اور ان دونوں ججوں کو اس وقت تک اپنے سوالوں کے جواب نہ مل سکیں جب تک انہیں ان طاقتوں کے سامنے نہ رکھا جائے جو دراصل یہ صورت حال پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اور جس کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کے فاضل جج ملک میں قانون کی حکمرانی کی ناگفتہ بہ حالت کے بارے میں سوال کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
دھرنا 2017 کے بعد اس کا نئے سال کا ماڈل اسی ماہ کے دوران پیش کیا جاچکا ہے جب آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا متفقہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد اور وزیر اعظم عمران خان کی سخت وارننگ کے باوجود نظم مملکت کو تین روز کے لئے معطل کردیا گیا۔ بالآخرحکومت کو تحریک لبیک کے لیڈروں کے ساتھ پانچ نکاتی ہتک آمیز معاہدہ کرکے دھرنا اور احتجاج ختم کروانا پڑا تھا۔
اس صورت میں جسٹس فائز عیسیٰ کے اٹھائے گئے سوال کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ تحریک لبیک نے پہلے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو عاجز کیا اور ایک وزیر کے استعفیٰ کے علاوہ دیگر مراعات کے وعدہ پر دھرنا ختم کیا تھا۔ اور اب اسی گروہ نے تحریک انصاف کی حکومت کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کیا ہے اور ایک جائز عدالتی فیصلہ پر احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف نظام مملکت کو معطل کردیا، سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو تاراج کیا بلکہ اس دوران حکومت، فوج، اور سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں جو گفتگو کی وہ نہ صرف ہر قسم کے اخلاقی معیار سے گری ہوئی تھی بلکہ اس میں ملک کے متعدد قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
لیکن حکومتی وزرا کا دعویٰ ہے کہ اس گروہ کے ساتھ معاہدہ کرکے دراصل خوش اسلوبی سے ایک پیچیدہ اور مشکل تنازعہ کو حل کرلیا گیا تھا اور حکومت کو کسی قسم کا تشدد بھی استعمال نہیں کرنا پڑا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری گزشتہ ہفتہ کے دوران یہ اعلان کرچکے ہیں کہ فوج اور سپریم کورٹ کے ججوں نے تحریک لبیک کو اس کی ناجائز حرکتوں پر معاف کردیا ہے۔ اس لئے حکومت بھی اس گروہ کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
تحریک لبیک کے لیڈروں نے اس ماہ کے شروع میں ہونے والے احتجاج کے دوران فوج کو بغاوت پر اکسانے کے علاوہ آسیہ کیس میں فیصلہ کرنے والے ججوں کو قتل کرنے کا فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جو کل ہی دو اخباروں کے خلاف غلط رپورٹنگ کے الزام میں سو موٹو نوٹس لے کر سخت انتباہ دے چکے ہیں، ان فتویٰ سازوں اور دشنام طرازی کرنے والو ں کے بارے میں مسلسل خاموش ہیں۔ اس لئے جسٹس فائز عیسی کو ملک میں حکمرانی کے اصول کو طے کروانے کے لئے اٹارنی جنرل کی غیرحاضری پر برہم ہونے اور حکومت سے 2017 کے دھرنے کے بارے میں استفسار کرنے کی بجائے، پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
اگر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ 2008 کے دھرنا کے بارے میں عفو اور نظرانداز کرنے کے رویہ کا مظاہرہ درست سمجھتی ہے اور اس سے ’قانون کی حکمرانی کا اصول‘ بھی متاثر نہیں ہوتا تو جسٹس فائز عیسیٰ کو 2017 کے دھرنا کے بارے میں اٹارنی جنرل اور حکومت سے سوال کرنے پر کوئی معقول جواب موصول نہیں ہو سکتا۔
ملک میں قانون کی حکمرانی کا اصول متعین کرنے کے لئے اہم اداروں کے کردار کا تعین ضروری ہے۔ اس لئے یہ پوچھنے سے پہلے کہ ملک پر چند سو یا ہزار لوگوں کے ذریعے امن و مان کامسئلہ پیدا کرنے والوں کا اختیار چلے گا یا کروڑوں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا مناسب ہوگا کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا مینڈیٹ کیا ہے۔ یہ ایجنسی متعینہ آئینی پوزیشن کے مطابق منتخب وزیراعظم کی ہدایا ت کی پابند ہے یا وہ بدستور عسکری قیادت کے مقرر کردہ سیاسی و انتظامی اہداف کے مطابق کام کرنا ضروری خیال کرتی ہے۔ جب تک آئی ایس آئی کی جوابدہی کا معاملہ طے نہیں ہو گا اس کے دائرہ کار کے بارے میں سوال کا جواب ملنا مشکل ہے۔ آئی ایس آئی کے مینڈیٹ کے حوالے سے سوال کا تعلق ان امور سے بھی ہے جن پر آج کی سماعت کے دوران بھی گفتگو کی گئی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے پیمرا کے سربراہ سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ گزشتہ سال دھرنے کے دوران مختلف ٹی وی چینلز کی نشریات بند ہونے کی بھی شکایات ملی ہیں اور کیا مجاز حکام نے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہے جس پر پیمرا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کو جرمانے کیے گئے ہیں۔ جس پر عدالت نے جرمانوں کی رسیدیں طلب کیں۔ عدالت نے پیمرا کے چیئرمین سے پوچھا کہ کیا میڈیا کو پیمرا کے علاوہ کوئی اور بھی ہدایات دیتا ہے جس کا پیمرا کے چییرمین نے نفی میں جواب دیا۔
تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ان کے نام بتانے سے کیوں ڈرتے ہیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا کوئی خفیہ طاقت چینلز کو ہدایات دیتی ہے‘ ۔ اس سوال کا چیئرمین پیمرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جس پر جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ ’آپ کو پتہ ہی نہیں کہ نجی ٹی وی چینلز کو خفیہ ہدایات آ رہی ہیں‘ ۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے ان سوالات کا سرا بھی اسی بنیادی سوال سے جڑتا ہے کہ ملک کے مختلف اداروں کے کیا حقوق و فرائض ہیں اور وہ کس کو جوابدہ ہیں۔ یہ طے کرتے ہوئے سول ملٹری تعلقات جیسے نازک، پیچیدہ اور انتہائی مشکل سوال کا جواب تلاش کرنا اور اختیارات کو درست اتھارٹی کو تفویض کرنا ضروری ہوگا۔ یہ معاملہ طے کیے بغیر نہ جسٹس فائز عیسیٰ کے سوالوں کا جواب مل سکے گا، نہ 2017 کے دھرنا کے مقاصد و ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا اور نہ اس حوالے سے تحریک لبیک اور اس کی قیادت کے بارے میں اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات فراہم ہوسکیں گے۔
کیوں کہ یہ ادارے پیمرا ہو یا الیکشن کمیشن اور آئی ایس آئی، دراصل اسی اتھارٹی کی طرف دیکھتے ہیں جس سے حکومت بھی اقتدار قائم رکھنے کے لئے دست تعاون کی خواستگار رہتی ہے۔ اختیار کے پیچیدہ کیے گئے اس کھیل کے اصول و ضوابط واضح اور عام کیے بغیر ملک میں حکمرانی اور فیصلوں کے حوالوں سے بنیادی سوالات کے جوابات نہیں مل سکتے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے آج وزیر اعظم عمران خان کے خصوصی معاون سید ذوالفقار بخاری کی تقرری کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’وزیر اعظم کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں‘ ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اگر یہ واضح کرسکیں کہ اس ملک میں لامحدود اختیارات کا مالک کون ہے اور احتساب سے استثنیٰ کس اتھارٹی، عہدیدار یا ادارے کو حاصل ہے تو ملک میں قانون کی بالادستی کا معاملہ بھی طے ہو سکتا ہے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے سوالوں کا جواب بھی مل جائے گا۔ بصورت دیگر اٹارنی جنرل اور حکومت جیسی ’پتھر کی دیواروں‘ سے سوال کرنے پر تو جواب ملنے سے رہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ