یوم آزادی صحافت کے موقع پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کی طرف سے ملک کے ٹیلی ویژن چینل بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ کے لائسنس منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اس طرح اس ادارے نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ ملک میں تقریر و تحریر کی آزادی اس کے نزدیک کیا معنی رکھتی ہے۔ پیمرا کے فیصلہ کے مطابق اس حکم پر فوری طور سے عملدرآمد ہوگا ۔ اس لئے ٹی وی نشریات کے ٹیکنکل معاملات دیکھنے والے ادارے پاک سیٹ کو فوری طور ان دونوں ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کی نشریات روک دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام کیبل آپریٹرز کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ وہ بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ کی نشریات کی ترسیل روک دیں۔ پیمرا کے مطابق یہ فیصلہ سندھ میں کونسل آف کمپلینٹس کے مشورہ کی روشنی میں کیا گیا۔ بول کے دونوں چینلز کی مالک کمپنی لبیک لمیٹڈ کے چار ڈائیریکٹر وزارت داخلہ سے سیکورٹی کلیئرنس حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔یہ فیصلہ ملک میں آزادی اظہار پر بدترین حملہ کے مترادف ہے۔ یہ حکم نامہ اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ اس کا اعلان ایک جمہوری حکومت کے دور میں کیا گیا ہے اور اس وقت پیمرا کے چیئرمین کے عہدہ پر فائز شخص کئی برس تک عامل صحافی کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم پاناما کیس اور ڈان لیکس کے بحران میں پھنسے ہونے کے باوجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں عوام نے ووٹ دے کر متخب کیا ہے ۔ اس لئے ان کے استعفیٰ کی بات کرنے والے جمہوری روایت کو مسترد کررہے ہیں۔ لیکن نواز شریف کو جمہوریت اور عوامی رائے کا خیال صرف اپنے عہدہ کو بچانے کے لئے آتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ آزادی اظہار جمہوری نظام کا جزو لاینفک ہے ۔ اس سے انکار کرنے والی حکومت کو جمہوری، نہیں جمہوری روایت کا دشمن کہا جائے گا۔
ملک میں فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان تنازعہ میں صرف اس لئے منتخب حکومت کا ساتھ دیا جاتا ہے کہ جمہوری روایت اس کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے ولی کوئی حکومت آمرانہ طرز عمل اختیار کرتی ہے اور ملک میں متبادل رائے کو سامنے آنے سے روکنے کے لئے انتظامی ہتھکنڈے استعمال کرے گی تو اس کے ان اقدامات کو مسترد کرنا بھی ضروری ہے۔ ملک میں آزادی اظہار کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ لیکن ایک طرف حکومت اور مقتدر حلقے میڈیا کو اپنی ہمنوائی پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف کمرشل مفادات کی وجہ سے مختلف میڈیا ہاؤسز میں نہ تو باہمی اشتراک ہے اور نہ ہی وہ لفظ کی حرمت کا خیال رکھنے پر آمادہ ہیں۔ اسی لئے الیکٹرانک میڈیا اس وقت ایک دوسرے سے برسر پیکار بھی رہتا ہے کیوں کہ ہر ادارے کو لگتا ہے کہ دوسرے کے بدنام ہونے یا میدان سے نکل جانے کی صورت میں اسے مالی لحاظ سے فائدہ ہوگا۔ یہ صورت حال صرف اس وقت ختم ہو سکتی ہے جب عامل صحافیوں اور ایڈیٹروں کو اپنی پیشہ ورانہ صوابدید کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جائے اور تاجرانہ مفادات کسی چینل کی ادارتی پالیسی پر اثر انداز نہ ہوں۔ پاکستان میں صحافی تنظیمیں ، جمہوری حکومت یا میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ادارے اس قسم کا انتظام کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ اسی لئے آزادی صحافت کے سارے دعوے کھوکھلے اور بے معنی ہیں۔ بول ٹیلی ویژن کے لائسنس منسوخ کرنے کے لئے وزارت داخلہ کے ایک انتظامی فیصلہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس طرح پیمرا جو اصولی طور پر میڈیا کا سہولت کار اور معاون ادارہ ہونا چاہئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ دراصل میڈیا پر حکومت کی مرضی کو مسلط کرنے کے کام پر مامور ہے۔ اس طرح کے فیصلوں سے ملک میں صحافت تو بے توقیر ہوگی لیکن اس کوشش میں ملک کے ادارے اس جمہوری نظام کی بنیادیں بھی کمزور کررہے ہیں جن پر موجودہ عوامی حکمرانی کا نظام استوار ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے
فیس بک کمینٹ