یہ ستم ظریفی اور جمہوری نظام کی کمزوری ہے کہ پاکستان میں نئے آرمی چیف کا تقرر ہو یا نیا چیف جسٹس عہدہ سنبھالے، امور مملکت زیر بحث آتے ہیں اور ملک کی حکومت اور نظام کے بارے میں طرح طرح کے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ آج ایک ایسے جج نے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف اٹھایا ہے جن کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور دیانت کے بارے میں دو رائے نہیں ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی متحرک اور بے چین قیادت کے بعد سپریم کورٹ کو ایک ایسا سربراہ میسر آیا ہے جس سے ان خرابیوں کو دور کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو سابق ہوجانے والے چیف جسٹس کے دور میں عدالتی نظام میں در آئی تھیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بلاشبہ اس کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں۔ گو کہ ان کے پاس ایک برس سے بھی کم مدت ہے اور وہ ملک کے نظام عدل کی خرابیوں کو جاننے کے باوجود، ان کی اصلاح کے لئے کوئی ڈرامائی اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے گزشتہ روز جسٹس (ر) ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقد ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں ان مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے جو ملک کے عدالتی نظام کو درپیش ہیں اور ان مسائل کی طرف اشارہ بھی کیا ہے جن کی وجہ سے عدالتوں میں زیر سماعت 19 لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ انہوں نے باور کروایا تھا کہ اگر ملک کے تین ہزار کے لگ بھگ جج اور مجسٹریٹ دن میں چوبیس کی بجائے چھتیس گھنٹے بھی کام کریں تو بھی وہ اتنی کثیر تعداد میں مقدمات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
یہ صورت حال ملکی عدلیہ کے سربراہ کے علاوہ حکومت اور پارلیمنٹ کے لئے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے ٹھوس اقدامات کے بغیر نئے ججوں کی تعیناتی اور اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعداد میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ ملک کے چیف جسٹس نے اس طرف توجہ دلا کر ایک مناسب اور بروقت کام کیا ہے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ عدلیہ کی اصلاح کرنے اور اسے فعال بنانے کے لئے چیف جسٹس کی طرف سے سامنے آنے والی عملی اور جائز مشکلات کو دور کرنے میں تعاون کرے۔
نئے چیف جسٹس نے کل جو تقریر کی ہے اسے سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر ان کی پالیسی تقریر کہا جاسکتا ہے۔ اسی تقریر میں ایک طرف انہوں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کے جوڈیشل ایکٹو ازم سے گریز کرنے کا اشارہ دیا تو اس کے ساتھ ہی ان علتّوں کی طرف بھی اشارہ کیا جو اس وقت ملکی عدلیہ کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ التوا میں پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات کے علاوہ، ناجائز مقدمے بازی، جھوٹے گواہوں اور شہادتوں کا سلسلہ بھی ان مسائل میں شامل ہیں جو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بیان کیے ہیں۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ نئے چیف جسٹس نے آئین کی شق 184 ( 3 ) کے تحت ازخود نوٹس لینے کے اختیار کے استعمال کو محدود کرنے کی بات اپنی پہلی ہی تقریر میں کہہ دی ہے۔ اسی طرح انہوں نے جسٹس ثاقب نثار کے ’منشور‘ کے برعکس عدالتی اصلاحات کو ڈیم بنانے اور قرض اتارنے کو اپنا ڈیم اور قرض اتارو منصوبہ بتا کر یہ واضح کیا ہے کہ ایک سچے جج سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اور سابق چیف جسٹس کن وجوہات کی بنا پر متنازع ہو چکے تھے۔
جمعرات کو منعقد ہونے والے عدالتی ریفرنس میں عدلیہ کو درپیش مشکلات اور تنازعات کے حوالے سے کچھ کام کی باتیں پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے بھی کی ہیں۔ ان دونوں نے سوموٹو کے کثرت سے استعمال کے علاوہ ججوں اور وکیلوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناﺅ کی طرف اشارہ کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ نئے چیف جسٹس اپنے طرز عمل اور پیشہ وارانہ رویہ کی وجہ سے ان مسائل کو فوری طور سے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اگر میڈیا پر آنے والی خبروں اور بنائی جانے والی تصویر کے بارے میں شعوری احساس پیدا ہوجائے تو ریمارکس اور تبصروں میں قانونی نکات کی بجائے ایسے پہلو اجاگر ہونے لگتے ہیں جنہیں الیکٹرانک میڈیا میں ٹکر کے طور پر چلایا جاتا ہے اور پھر مباحث کا حصہ بنا کر عدالتوں اور قانون کے بارے میں یک طرفہ اور مسخ شدہ تصویر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالتوں کے جج اگر شہرت سے بے غرض اور مقدمات کے سماجی اور سیاسی پہلوو?ں میں دلچسپی لینے کی بجائے قانونی بنیاد پر غور کرنے، سوال کرنے اور فیصلے کرنے کی شعوری کوشش کریں گے تو ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات میں بڑی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے سے عام تجسس اور دلچسپی کی ایک بڑی وجہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران عدالت عظمیٰ کے سیاسی فیصلے اور تبصرے بھی ہیں۔ عام رائے میں یہ تاثر موجود ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے فیصلے صرف ’قانونی میرٹ‘ کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ ان پر ملک کے منتخب اور غیر منتخب اداروں کے درمیان جاری اقتدار و اختیار کی کشمکش کا اثر بھی ہوتا ہے۔ نئے چیف جسٹس ایک مستند قانون دان کی شہرت رکھنے کے باوجود گزشتہ پانچ برس کے دوران دو وزرائے اعظم کو برطرف کرنے کے فیصلہ کا حصہ رہے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی ایک مشکوک تشریح کرتے ہوئے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا جبکہ میاں نواز شریف کو وصول نہ کی جانے والی تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر ’امانت اور دیانت‘ کے منصب سے کم تر قرار دیتے ہوئے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ دونوں فیصلے قانونی لحاظ سے متنازعہ بھی ہیں اور کمزور بنیاد پر استوار ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی دفعہ نافذ کرتے ہوئے ایک منتخب وزیر اعظم کو برطرف کیا تھا جبکہ نواز شریف کو سو موٹو اختیار کے تحت قائم مقدمہ میں ایک حکم کے ذریعے معزول کیاگیا تھا۔ یعنی ان دونوں معاملات میں عدالت مدعی بھی تھی اور منصف بھی اور اس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی حق بھی موجود نہیں تھا۔ ملک کی سپریم کورٹ جب بھی ایسے فیصلے کرے گی، اس کی شہرت اور دیانت پر سوال اٹھیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ چونکہ ان دونوں مقدموں میں بینچ کا حصہ رہے ہیں لہذا اب سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر ان پر یہ خصوصی ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ کسی ایسے معاملہ کا حصہ نہ بنیں جس میں ایک منتخب لیڈر کو اپیل کا حق دیے بغیر عہدے سے فارغ کیا جا سکے۔ ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اس بنیادی جمہوری روایت کو فروغ دیا جا سکے کہ منتخب وزیر اعظم کو ’برطرف‘ کرنے کا اختیار بھی اسی ادارے کو حاصل ہو جو اسے منتخب کرنے کا مجاز ہے۔ اسی طرح ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں شبہات ختم ہو سکیں گے۔ اگر سپریم کورٹ کو کسی شخص کو وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اسے ایک منتخب لیڈر کو برطرف کرنے کی بری روایت کو استوار کرنے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے آئین کی شق 62 اور 63 کی تشریح اور نفاذ کو ملک کے منتخب لیڈروں کے سر ایک لٹکتی تلوار بنا دیا ہے۔ یہ شقات ایک آمرانہ دور میں، جمہوری فیصلوں کو مسترد کرنے کے لئے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو آئین کی ان شقات کو موثر اور متحرک کرنے کی بجائے، انہیں غیر موثر اور غیر متعلق کرنے کی ضرورت ہے تاآنکہ ملک میں جمہوریت طاقت پکڑ لے اور پارلیمنٹ کے ارکان یہ حوصلہ کرسکیں کہ آئین کی ان جمہوریت دشمن شقات کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیں۔
چیف جسٹس کھوسہ نے گزشتہ روز ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے، سویلین قیادت کے اختیار کو سپریم ماننے اور فوج و انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے خوبصورت باتیں کہی ہیں۔ اب وہ بعض مشکوک و مشتبہ شقات کو عوامی حکمت پر بھاری قرار دینے کا رویہ ترک کرکے اپنی قانون فہمی اور جمہور دوستی کا ثبوت دینے کے علاوہ سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
کچھ عرصہ سے یہ تاثر قوی کیا گیا ہے کہ اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ملک میں منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کا نمبر فوج اور سپریم کورٹ کے بعد آتا ہے۔ اسی لئے نیا چیف جسٹس آئے یا نئے آرمی چیف کا تقرر مطلوب ہو، مباحث بھی شروع ہوتے ہیں اور نئے سربراہ کے حوالے سے حکومت کی تقدیر پڑھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ اگر اس تاثر کو زائل کرنے اور پارلیمنٹ کو اختیار کا منبع قرار دینے کے اصول کو مروج کرنے کا سبب بن سکیں تو گیارہ ماہ کی مختصر مدت کے باوجود ان کا نام ملک کی عدالتی تاریخ میں نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔
چیف جسٹس اس مختصر مدت میں ہی واضح کرسکتے ہیں کہ سپریم کورٹ اختیار کا مرکز نہیں، انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ یہاں فیصلے مصلحت اور ضرورت کے تحت نہیں قانون کی درست تفہیم کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس سال دسمبر آتے آتے قوم جان جائے گی کہ چیف جسٹس یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ