پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے آج ایک پریس بریفنگ میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں لاپتہ کئے گئے بلاگرز کی گمشدگی میں پاک فوج کے کسی ادارے کا ہاتھ نہیں تھا۔ اس سے پہلے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہیں اس بات کی خبر نہیں ہے کہ سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کو اس ماہ کے شروع میں کس نے غائب کیا تھا۔ بلکہ چند دن قبل جب لاپتہ بلاگرز اپنے گھروں کو واپس آنا شروع ہوئے تو وزیر داخلہ نے اس بات کا کریڈٹ بھی لیا کہ ان کی کوششوں سے یہ لوگ رہا ہو سکے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے پولیس افسروں کو ان لوگوں کے پاس بھیجا تھا اور دریافت کیا تھا کہ اگر وہ کسی کے خلاف شکایت درج کروانا چاہتے ہیں تو کارروائی کی جائے گی۔ لیکن ان لوگوں نے شکایت کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بہت عجیب صورت حال ہے۔ کہ نہ تو ملک کے وزیر داخلہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے شہریوں کو اچانک کون اٹھا لیتا ہے اور کئی ہفتے تک ان کے عقائد اور حب الوطنی کے بارے میں نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور پھر اچانک یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس آنے لگتے ہیں لیکن خامو ش رہتے ہیں۔ نہ کوئی بیان جاری ہوتا ہے، نہ اچانک رہا ہو کر واپس آنے والے بلاگرز اپنی اچانک گمشدگی کے بارے میں بات کرنے کا حوصلہ جمع کر پاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کے رشتہ دار بھی بس اس بات پر مطمئن اور خوش ہیں کہ یہ لوگ واپس آگئے ہیں ۔ وہ بھی مزید کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب پاک فوج کے ترجمان نے بھی اس سلسلہ میں ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ عام تفہیم کے مطابق ملک میں دو ہی طاقتیں قانونی جواز رکھتی ہیں۔ سول حکومت اور اس کے تحت کام کرنے والے ادارے یا فوج اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والے مختلف ادارے اور ایجنسیاں۔ اگر سول حکومت اور فوج ، دونوں کو یہ علم نہیں ہے کہ لاپتہ ہونے والے بلاگرز کو کن لوگوں نے اچانک غائب کردیا تھا اور اس حرکت میں نہ فوج ملوث تھی اور نہ ہی سول حکومت کے اداروں نے یہ کام کیا تھا تو پھر ان لوگوں کو اٹھانے والے فرشتے کون تھے۔
ان حالات میں فوج اور سول حکومت پر یکساں طور سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان عناصر کا سراغ لگائیں جو شہریوں کو اٹھا بھی لیتے ہیں اور بظاہر کوئی مطالبہ پورا کروائے بغیر رہا بھی کردیتے ہیں۔ اور رہا ہونے والے ان لوگوں کے بارے میں بات کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں جو انہیں اچانک اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان لوگوں کا کیا مقصد تھا اور انہیں کس حالت میں کہاں رکھا گیا اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ کی یہ پیشکش خوش آئند ہے کہ وہ واپس آنے والے بلاگرز کی شکایت پر اغوا کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اس مقصد سے خاص طور سے درخواست کرنا کیوں ضروری ہے۔ ان لوگوں کے اہل خانہ نے گمشدگی کے بعد ایف آئی آر درج کروائی تھیں ۔ وزارت داخلہ کی نگرانی میں پولیس کو ان شکایتوں پر کارروائی کرتے ہوئے ان عناصر کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے جو شہریوں کو اچانک لاپتہ کر دیتے ہیں لیکن نہ سول حکومت کو خبر ہوتی اور نہ ہی فوج اس کے متعلق آگاہ ہوتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کے بیان کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ فوج کا کوئی ادارہ اس حرکت میں ملوث نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں بلکہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ یوں شہریوں کو غائب کرنے کے طریقہ کار کے خلاف ہیں۔ اب یہ ذمہ داری وزیر داخلہ پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملہ کی تہہ تک پہنچیں اور ان ’کالی بھیڑوں‘ کا پتہ لگائیں جو اسی نظام میں کسی نہ کسی جگہ موجود ہیں لیکن فوج اور سول حکومت کی قیادت ان کی حرکتوں سے آگاہ نہیں ہے۔ یہ تحقیق و تفتیش تمام سول اور فوجی اداروں کی نیک نامی بحال کرنے کے لئے انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ کیوں کہ جب بھی کوئی شہری یوں اچانک لاپتہ ہوتا ہے تو عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ اسے کسی فوجی ادارے نے قومی مفاد کے خلاف کام کرنے کے شبہ میں اٹھایا ہے۔ قوم کے علاوہ حکام کو بھی خبر ہونی چاہئے کہ کون سے عناصر خود کو نظام اور اعلیٰ و مجاز افسروں سے بھی بالا سمجھتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان)
فیس بک کمینٹ