سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان میں جس طرح استقبال کیا گیا ہے اور ان کے بیس بائیس گھنٹے کے قیام کو دو روزہ دورہ کے طور پر پراجیکٹ کرکے اپنی شان اور سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا اظہار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں یہ سمجھنا نامناسب نہیں ہو گا کہ اس سے صرف پاکستانی حکومت کی مالی مجبوری و سفارتی مشکلات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح ایک طرح سے مسائل سے نگاہیں چرانے کا اہتمام بھی مقصود ہے۔ ورنہ نہ تو کسی ولی عہد کا دورہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہے اور نہ ہی پروٹوکول کے مطابق سعودی ولی عہد کو کسی اہم ترین سربراہ مملکت کی طرح استقبال اور سیکورٹی فراہم کرنا ضروری تھی۔
شہزادہ محمد کی چند گھنٹے دارالحکومت میں موجودگی کے دوران زندگی تعطل کا شکار رہے گی اور سیکورٹی کے نام پر اسلام آباد کے علاوہ راولپنڈی کے شہری بھی متاثر ہوں گے۔ مستزاد یہ کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے شاہی طیارہ پاکستانی حدود میں داخل ہونے پر اپنے اہلاًو سہلاً ٹویٹ پیغام میں شہزادے کے لئے ’اپنے خاندان اور اپنے ملک آمد پر خوش آمدید‘ کے جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ پاکستانی قوم کے جذباتی رویہ کی عکاسی تو کرتے ہیں لیکن سفارتی مراسم اور دو ملکوں کے تعلقات میں اس قسم کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
خود مختار ملکوں کے تعلقات بھائیوں کے مراسم یا خاندان کا باہم تعلق نہیں ہوتا بلکہ دو قوموں کے باہمی مفادات اور ضرورتوں کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد سوموار کو ایوان صدر میں ظہرانے کے بعد اسلام آباد سے نئی دہلی کے لئے اڑان بھریں گے۔ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پلوامہ حملہ کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف کس قدر سنگین اور شدید سفارتی مہم چلا رکھی ہے یا بھارتی میڈیا کس طرح پاکستان سے انتقام لینے کے لئے آہ و بکا کر رہا ہے۔
بھارتی سیاست دانوں کی اشتعال انگیزی اور میڈیا کی طرف سے آگ پر تیل چھڑکنے والے رویے کی وجہ سے ایک طرف برصغیر میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو دوسری طرف کشمیری اپنے ہی گھروں میں غیر محفوظ بنا دیے گئے ہیں۔ ہندو جتھے پاکستان سے انتقام کے نعرے لگاتے ان بے گناہوں پر حملہ آور ہیں جنہیں بھارتی حکومت نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے اپنے شہری قرار دیتی ہے کیوں کہ اس کے بقول کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ لیکن وہ اس جنت نظیر خطہ کے لوگوں کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایک طرف بھارتی فوج کشمیریوں کو دن رات اپنے مظالم کا نشانہ بناتی ہے تو دوسری طرف ایک سانحہ کو بنیاد بنا کر انتہا پسند ہندو گروہ مسلمانوں کا جینا حرام کررہے ہیں۔
بھارت میں انتہا پسندوں کی نفرت اور شدت وقوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک کامیڈی ٹیلیویژن پروگرام کپل شرما شو کے پرڈیوسروں کو مشرقی پنجاب کے کانگرسی وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو ایک متوازن بیان دینے پر شو سے نکالنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ سدھو جو وزیر اعظم عمران خان کے ذاتی دوست ہیں اور کرتار پور راہداری کھولنے پر پاکستانی حکومت کے ساتھ شکر گزاری کا اظہار کر چکے ہیں، نے پلوامہ حملہ کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں یہ کہہ دیا تھا کہ ’دہشت گردی کا کوئی ملک نہیں ہوتا‘ ۔
بھارتی انتہا پسندی اور کم ظرفی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ بھارتی ٹیلی ویژن نے پاکستان سپر لیگ کے میچ دکھانے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ اداکارہ شبانہ اعظمی کراچی میں اپنے ہی والد کیفی اعظمی کی سوویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت سے انکار پر مجبور ہوگئیں۔ ادب، آرٹ اور ثقافت کے نمائندے ہونے کے باوجود شبانہ اور ان کے شاعر شوہر جاوید اختر نے اپنے ٹویٹ پیغامات میں پلوامہ حملہ کو بنیاد بنا کر بھارتی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی کرنا بھی ضروری سمجھا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے سعودی گزٹ کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے دیرینہ اور قریبی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’پاکستان کسی کو سعودی عرب پر حملہ کی اجازت نہیں دے گا‘ ۔ حیرت انگیز طور پر پاکستانی وزیر اعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب بھارت کی طرف سے انتقام لینے کا اعلان کیا جا رہا ہے اور مبصرین اس بات کے اندازے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پلوامہ سانحہ کے بعد بھارت کس قسم کی عسکری کارروائی کا اہتمام کرسکتا ہے یا متحمل ہو سکتا ہے۔
ایسے موقع پر پاکستان کی طرف سے امن کی بانسری تو سنائی دی ہے لیکن سعودی عرب پر حملہ روکنے کا دعویٰ کرنے والے پاکستانی لیڈر کو یہ جواب دینے کا وقت نہیں ملا کہ دشمن پاکستان پر حملہ کا خواب دیکھنا بند کردے، ہم اپنا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کسی بھی بھارتی حملہ کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اس قسم کا کوئی بیان ایک طرف بھارتی لیڈروں کے زہر ناک دھمکیوں کا اثر کم کرتا تو دوسری طرف پاکستانی عوام کو یہ یقین دہانی کروائی جاسکتی تھی کہ ان کی حکومت بھارت کی اشتعال انگیزی اور جارحانہ طرز عمل سے بے خبر نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی سلامتی کے علاوہ اس کے عزت و وقار کی حفاظت کرنے کے لئے تیار ہے اور اس کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ تاہم وزیر اعظم نے پلوامہ سانحہ کے بعد کوئی بیان دینا ضروری نہیں سمجھا۔
بھارت سے ملنے والی دھمکیوں اور مشرق سے ابھرتے جنگ کے بادلوں کے باوجود مسائل میں گھرے پاکستان کی حکومت بے وسیلہ اور حکمت عملی سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیتے ہیں ’جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن دہشت گردی کا استعارہ بن چکا ہے‘ ۔ اس ماحول اور مسائل کی گھٹا ٹوپ فضا میں حکومت نے سعودی شاہی دورہ کو ایسا انوکھا واقعہ بنا دیا ہے کہ پاکستان اور اس خطے کے حالات پر بات کرتے ہوئے اس دورہ کے متعلق گفتگو نہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
پلوامہ حملہ کے بعد پاکستانی عوام کو سعودی شہزادے کو خاندان کا فرد قرار دینے، ان کی آمد پر ہزاروں کبوتر رہا کرنے اور وزیر اعظم کا پروٹوکول توڑتے ہوئے خود شہزادے کی گاڑی چلا کر وزیر اعظم ہاؤس جانے کے قصے سنانے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ بھارت کی طرف سے حملہ کا خطرہ کتنا سنگین ہے اور حکومت اس سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام کررہی ہے۔ بھارت کا جارحانہ طرز عمل اور بھارتی میڈیا کی طرف سے انتقام کی صدائیں اس وقت پاکستانی حکومت اور عوام کے لئے سب سے پہلے غور طلب ہونی چاہئیں۔
جس طرح بھارت میں کشمیری عوام کی ناراضگی اور مایوسی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے اور اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف لوگوں میں نفرت بھرنے کو آسان سیاسی راستہ سمجھ لیا گیا ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی کو یک طرفہ معاملہ قرار دیتے ہوئے تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے اور اس پر بحث کرنے کا طرز عمل راسخ ہؤا ہے۔ پلوامہ میں ہونے والے حملہ میں نئی دہلی کی حکومت نے کسی تحقیق کی زحمتکیے بغیر پاکستان کے خلاف الزامات اور پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا ہے اور اس علاقے میں بھارتی منڈیوں اور ’صلاحیتوں‘ پر بھروسہ کرنے والی امریکی حکومت نے بھی یک طرفہ طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ’دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے‘ کا پیغام دیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات پاکستان کی امن پسندی، مذاکرات کی ضرورت اور کشمیریوں پر مظالم کا ذکر کرکے اپنے بیانات کو پرزور بنا رہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان بھارتی چیلنج سے نمٹنے کے لئے کیا اقدام کر رہا ہے۔ اگر بھارت کی طرف جیش محمد کے اعترافی بیان کی بنیاد پر پاکستان کو ملوث کرنے کا الزام غلط ہے تو اس تنظیم کے لیڈر کیوں پاکستانی حکام کی نگرانی میں محفوظ ہیں۔ انہیں الزامات کا جواب دینے اور اپنے جرائم کا سامنا کرنے کے لئے کیوں بھارت یا کسی عالمی ادارے کے حوالے نہیں کیا جاتا۔
یادش بخیر، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو فروری 1994 میں سری نگر میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا تھا۔ انہیں دسمبر 1999 میں ان کے بھائی عبدالرؤف اصغر نے کھٹمنڈو سے نئی دہلی جانے والے ائیر انڈیا کے ایک طیارے کو اغوا کرکے مسافروں کو رہا کرنے کے بدلے میں بھارتی قید سے آزاد کروایا تھا۔ یہ اغوا شدہ طیارہ قندھار میں اترا تھا اور مسعود اظہر کو دو دیگر قیدیوں کے ساتھ وہیں پہنچایا گیا تھا جس کے بعد وہ پاکستان آگئے تھے۔
پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ مسعود اظہر جوں ہی دستیاب ہوئے انہیں بھارت کے حوالے کردیا جائے گا لیکن اب پاکستانی حکومت چین کی مدد سے مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جبکہ بھارت کئی سال سے اس کا نام اس فہرست میں شامل کروانا چاہتا ہے۔ اس صورت میں پاکستانی عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مسعود اظہر کی حفاظت کے ذریعے پاکستان کے کون سے قومی مفاد اور سلامتی کا تحفظ کیا جا رہا ہے؟
یہ تو مانا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے ملک کے دورے پر آئے ہوئے ’برادر ایم بی ایس‘ کے بارے میں ’بدکلامی‘ کی اجازت نہیں دینا چاہتی یا وہ سمجھتی ہے کہ اس موقع پر ترکی کے ان الزامات کو نہ دہرایا جائے کہ گزشتہ سال استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں سعودی شاہی خاندان کے ناقد صحافی جمال خشوگی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث تھے۔ لیکن پاکستانی لیڈر یہ تو بتا سکتے ہیں کہ وہ اس معزز مہمان کی سفارتی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ہیجان خیزی ختم کرنے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری پر بڑے بڑے اعداد لگانے سے آنکھیں ضرور چندھیا جاتی ہیں لیکن سرمایہ کاری کے یہ وعدے یا جائزہ لینے کے معاہدے بھی صرف اسی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں جب ملک میں امن ہوگا اور سرحدوں پر کھڑی دشمن کی فوج ہر وقت حملہ کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ اسی طرح عالمی فورمز میں پاکستان کو مسلسل یہ یقین نہیں دلوانا پڑے گا کہ وہ دہشت گردوں کا دوست نہیں، دشمن ہے۔
عمران خان نے جب اسلام آباد پہنچنے پر ایم بی ایس کو گلے لگایا تو انہیں شہزادے سے یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ بلوچستان کی سرمایہ کاری کے بارے میں بلوچستان اسمبلی میں بے چینی موجود ہے۔ حکومت اس سرمایہ کاری کو اس صوبے کے عوام کے لئے سود مند بنانا چاہتی ہے لہذا اس منصوبہ کے بلو پرنٹ میں یہ جائزہ بھی پیش کیا جائے کہ اس صوبے کے عوام کو اس سرمایہ کاری سے کیا فائدہ ہوگا، جس کی 35 ہزار ایکڑ زمین پر آئل ریفائننری لگائی جا رہی ہے۔ عمران خان کو شہزادہ محمد کو ایرانی جنرل محمد علی جعفری کی یہ دھمکی بھی سنا دینی چاہیے کہ ’اگر پاکستان نے ایران کے پاسداران انقلاب پر حملوں کے ذمہ داروں کو سزا نہ دی تو ایران اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے خود پاکستان کے اندر ان پر حملہ کرے گا‘ ۔
بھارت بھی، بقول امریکہ، پلوامہ حملہ کے بعد پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو یہ اس کا ’حق دفاع‘ ہو گا۔ سعودی عرب پر حملہ روکنے والی پاکستانی حکومت کو سعودی شہزادے سے مشاورت کرنی چاہیے کہ وہ دو ہمسایہ ملکوں کے ’حق دفاع‘ کا نشانہ بننے سے کیسے بچ سکتا ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ