وزیر اعظم اور ان کے وزرا کا بیشتر وقت سیاسی مخالفین کی کرپشن کا پردہ فاش کرنے کے علاوہ یہ یقین دلانے پر صرف ہوتا ہے کہ حالات پر قابو پا لیا گیا ہے اور اب ہم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ خاص طور سے وزیر خزانہ اسد عمر نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اورمعیشت کے بارے میں نت نئی خبروں کے جلو میں تسلسل سے معیشت کو آئی سی یو سے نکال کر عام وارڈ میں داخل کرنے کی جو مثال دی ہے، وہ معنی خیز ہے۔ پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس بات کی تصدیق کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو یہ باور کروانے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ تحریک انصاف معاملات کو سمجھنے اور درست سمت میں لانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اس لئے ایک کورس کی صورت میں ایسے بیانات سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں کہ مشکلات پر قابو پا لیا گیا ہے۔
تاہم حکومت کی ان کاوشوں کا ایک سادہ سا جواب ہے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بیانیہ بھی درست نہیں کہ یہ حکومت اس سے پہلے آنے والی حکومتوں سے مختلف ہے۔ نہیں یہ حکومت بھی مختلف نہیں ہے۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ نیا پاکستان ایک ایسا خواب تھا جو ایک فرد کی حرص اقتدار سے شروع ہو کر اس کی کم نگاہی اور کم عقلی پر ختم ہو جاتا ہے۔ عمران خان کے پاس نہ کبھی حکومت کرنے کا کوئی منصوبہ تھا اور نہ ہی انہوں نے پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی، معاشی و سیاسی اور سماجی و معاشرتی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔
انہوں نے پاکستان کی زبوں حالی کے لئے ایک افسانہ تراشا اور اسے بیان کرتے کرتے وہ اس کی سچائی پر یقین کرنے لگے۔ اور اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سابقہ حکومتوں اور دو خاندانوں کی کرپشن کو ہی ملک کے گوناں گوں مسائل کی واحد وجہ قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ ملک کا بچہ بچہ اس بات پر ایمان لے آئے۔ اسی لئے وزیر اطلاعات نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک کے مسائل کی وجہ یہ ہے کہ شریف اور زرداری خاندان قومی وسائل لوٹ کر لے گئے ہیں۔ اگر یہ دونوں خاندان ملک کی دولت واپس کردیں تو ہمارے مسائل فوری طور سے ختم ہو جائیں گے۔
یہ بیانیہ اس قدر تواتر سے سنایا اور بیان کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ واقعی سوچنے لگے ہیں کہ ضرور اس میں کوئی سچائی ہوگی۔ بعض اس ایک نکتے پر کھڑی حکومت کی سیاسی، انتظامی اور اقتصادی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے سمجھنے لگے ہیں کہ حکومت ملک کے حالات سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔ جبکہ عوام کے علاوہ خواص کی اکثریت سوال کر رہی ہے کہ اب کیا ہو گا؟ یہ اب کیا ہو گا دراصل حکومت کی نا اہلی اور ڈیلیور نہ کرنے میں مکمل ناکامی پر حیرت و استعجاب کے علاوہ اس پریشانی کا اظہار بھی ہے کہ عوام نے ووٹوں اور اسٹبلشمنٹ نے بھرپور تائید کے ذریعے اپنی امیدوں کے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے تھے۔ امیدوں کی اس ٹوکری کا نام عمران خان یا تحریک انصاف تھا۔ اب اس فیصلہ پر دونوں اپنی اپنی جگہ حیران و پریشان ہیں۔
حیرت ہے کہ عمران خان ذاتی طور پر یا سربراہ حکومت کے طور پر اس حیرانی کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے بعض ساتھیوں کو اگر اس صورت حال کا اندازہ ہے تو وہ بھی زبان دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں۔ بظاہر کابینہ کے اجلاسوں کے دوران یا پارٹی کے اندر صورت حال کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ سامنے نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ عمران خان کا جمہوری سے زیادہ مطلق العنانیت پر مبنی رویہ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ نہ کسی کو خود سے بہتر اور عقل مند سمجھتے ہیں اور نہ ان کے خیال میں کوئی دوسرا کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اختیارات کے ارتکاز کے جو مباحث گزشتہ کچھ عرصہ سے سننے میں آرہے ہیں، ان کی متعدد دوسری وجوہات بھی ہوں گی لیکن ان میں ایک بنیادی وجہ یہ سچائی بھی ہے کہ عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اس قوم کے مسیحا کے طور پر روانہ کیا ہے۔ اس لئے وہ مشوروں اور اصلاح سے ماورا ہیں۔ ان کی بات کاٹنے والا ہر شخص ان کا ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کا بھی دشمن ہے۔
عمران خان کے قریب ترین لوگوں کی طرف سے ملک کے پارلیمانی نظام سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صدارتی نظام نافذ کرنے کی بحث، وزیر اعظم کی خواہش اور ضرورت سے قریب تر ہے۔ اس شدید خود پسندی نے عمران خان کو تنہا اور ناقابل اصلاح بنا دیا ہے۔ وہ جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے جمہوری طریقے سے ہی ملک کے وزیر اعظم بنے ہیں لیکن وہ اس وقت ملک کے جمہوری نظام کے لئے سب سے بڑے خطرے کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
پہلی صورت میں وہ موجودہ پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر حکمرانی کا ایسا خودمختارانہ تصور سامنے لانے کے خواہشمند ہیں جس میں کوئی بھی حکمران سے کوئی سوال نہ کر سکے۔ یہ طریقہ ملک کے سیاسی تاریخی پس منظر، ضرورتوں اور صوبوں کے درمیان اختیار کی تقسیم کے اصول سے متصادم ہو گا۔ لیکن عمران خان اٹھارویں ترمیم پر حرف زنی کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اس کی وجہ سے مرکز قلاش ہو گیا ہے اور اس کے پاس اپنے مصارف کے لئے وسائل نہیں بچتے۔
اس بیان سے ایک حساس سوال کے بارے میں وزیر اعظم کی بے حسی اور کم فہمی آشکار ہوتی ہے۔ عمران کی حکمرانی سے دوسرا خطرہ ملک میں جمہوریت کے خلاف کسی ناگہانی اقدام کی صورت میں بھی رونما ہو سکتا ہے۔ جس میں صرف عمران خان کی وزارت عظمی ہی داؤ پر نہیں لگے گی بلکہ ملک میں جمہوریت کا نظام بھی مختصر یا طویل مدت کے لئے معطل ہوسکتا ہے۔
یہ سمجھا اور مانا جاتا ہے کہ عمران خان اسٹبلشمنٹ کی تائید و حمایت اور مرضی و منشا سے اقتدار میں آئے ہیں۔ لیکن وہ ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کی بجائے انہیں اس عہدہ کا ’حقدار‘ سمجھا گیا تھا۔ دفاعی مصارف میں اضافہ اور ملکی معاملات میں عسکری اثر و نفوذ کو قبول کرنے کا رویہ، اس وسیع مقصد کے بنیادی جزو ہو سکتے ہیں۔ اصولی طور پر عمران خان کی حکومت نے ان دونوں معاملات پر صاد کیا ہے۔
دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے اور فوج کو سیاست، معیشت اور سفارت کاری تک کے معاملات میں دسترس حاصل ہے۔ بعض لوگ اسے یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ فوج کے تعاون اور دوڑ دھوپ کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت وہ معاشی بیساکھیاں حاصل کرنے کے قابل نہ ہوتی جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی طرف سے فراہم کی گئی ہیں۔
بدقسمتی سے روپے کی قدر میں کمی اور بھارت کے ساتھ تصادم کی نئی لہر کی وجہ سے دفاع کے لئے فراہم ہونے والے اضافی وسائل بھی کم پڑنے لگے ہیں۔ حکومت کوئی ایسی حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ اخراجات میں اضافہ کے ساتھ آمدنی میں بھی اضافہ ہو سکے۔ آمدنی میں اضافہ کے نام پر گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران نئے قرض لینے اور کسی طرح ملکی بجٹ میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اب بھی وزیر خزانہ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف سے معاشی پیکیج طے پا جائے تاکہ جون میں پیش ہونے والے بجٹ میں خوشگوار اعداد و شمار دکھائے جا سکیں۔
اس کے ساتھ ہی اب وزیر خزانہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آئندہ تین برس کے دوران مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے 22 ارب ڈالر تک کے قرضے لینے کی امید کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان ہی عمران خان کے اس مؤقف کی تردید کے لئے کافی ہے کہ وہ نیا پاکستان بنانے والے ہیں جہاں قومی آمدنی میں اضافہ کے ذریعے بیرونی قرضوں پر انحصار ختم کیا جائے گا۔
حکومت کی عوام دوستی کے دعوے کی قلعی تو جنوری کے دوران ساہیوال سانحہ نے ہی کھول دی تھی جس میں پولیس گردی کا شکار بننے والے خاندان شور مچا کر بالآخرخاموش ہو چکے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم سمیت ان کے نائبین بیان جاری کرنے کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر رہے۔ اب کوئٹہ میں جمعہ کے روز ہزارہ شہریوں پر حملہ نے دکھ سکھ میں عوام کے ساتھ کھڑا رہنے کے دعوؤں کا پول بھی کھول دیا۔ ہزارہ نے تین دن تک دھرنا دیا تب جاکر وزیر مملکت برائے داخلہ امور کو کوئٹہ آکر دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے پسماندگان سے ملنے کی توفیق ہوئی۔ اب پانچ روز بعد صدر مملکت دہشت گردوں کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کا اعلان کرنے کے لئے کوئٹہ وارد ہوئے ہیں۔
یہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر حکومتی ناکامیوں کی تصویر کے چند پہلو ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت نہ غلطیوں کا احساس کرتی ہے اور نہ حکمت عملی تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ سامنے آیا ہے۔ ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جناب عمران خان آپ غلط کہتے ہیں، کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ البتہ اس بحران میں قوم کسی بھی انہونی کے لئے تیار ہو رہی ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ