نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایک کالم نگار کو طویل انٹرویو کے بعد گزشتہ اتوار کو پریس کانفرنس منعقد کرکے اپنے ادارے کے مشتبہ کردار کے بارے میں متعدد نئے سوالات کو جنم دیا تھا۔ تاہم اب انہوں نے ایک خاتون کی طرف سے مبینہ جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد نیب کو اس میں ملوث کرتے ہوئے، خاتون اور اس کے شوہر کے خلاف ریفرنس دائر کرکے اپنی پوزیشن کے علاوہ قومی احتساب بیورو کی شہرت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورت حال میں بنیادی اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ وہ فوری طور سے نہ صرف نیب کی سربراہی سے مستعفی ہوجائیں بلکہ گمشدہ افراد کے کمیشن کی سربراہی سے بھی دست بردار ہوں۔
ایک ٹیلی ویژن چینل پر خاتون کے الزامات پر مبنی آڈیو چلنے کے بعد اگرچہ اسے واپس لے لیا گیا تھا اور نیوز چینل نے اس پر معافی بھی مانگ لی ہے لیکن اس معاملہ پر نیب کی طرف سے وضاحتی پریس ریلیز چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق دراصل بعض درپردہ معاملات کو چھاپنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ خاتون کے الزامات اگر بے بنیاد اور غلط بھی ہیں تو بھی ان کا تعلق صرف جاوید اقبال کے ذاتی کردار سے ہے۔ ان الزامات میں نیب کو بطور ادارہ ملوث نہیں کیا گیا۔
لیکن فوری طور سے نیب کی طرف سے پریس ریلیز جاری کرنے کے علاوہ متعلقہ خاتون اور اس کے شوہر کے خلاف سے ریفرنس دائر کرنے کی کارروائی سے تو صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ نیب کے چئیر مین بدحواس ہو کر اپنی بعض بداعمالیوں کو نیب کے عہدے اور پوزیشن میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ ان حرکتوں سے وہ نیب کی رہی سہی ساکھ اور شہرت کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔
نیب پر سیاسی انتقامی کارروائیوں میں حصہ دار بننے اور حکومت کے علاوہ درپردہ قوتوں کا آلہ کار ہونے کے الزامات عائدکیے جاتے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں نیب نے اپوزیشن سیاسی لیڈروں کے خلاف جس طرح تندہی سے مقدمات قائم کیے ہیں اور انہیں یکے بعد دیگرے گرفتار کرنے اور ہراساں کرنے کا جو ماحول پیدا کیا ہے، اس سے نیب کی غیر جانبداری کی بجائے اس کا سیاسی ایجنڈا افشا ہوتا ہے۔ دھڑادھڑ گرفتاریوں اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود جب عدالتوں میں نیب کی طرف سے مناسب ثبوت سامنے نہیں آتے تو صرف متاثرہ سیاست دان ہی نیب کی نیت اور کام کے طریقہ پر نکتہ چینی نہیں کرتے بلکہ بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی یہ صورت حال تشویش اور پریشانی کا سبب ہوتی ہے۔
نیب کے چئیرمین نے ایک طویل انٹرویو دینے اور پھر اس کی وضاحت کے لئے طویل پریس کانفرنس منعقد کرکے خود ہی اپنی ذات پر بھروسہ اور اعتبار داؤ پر لگایا ہے۔ وہ ساری زندگی سرکاری وکیل اور پھر جج کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ مارچ 2007 میں انہوں نے تین ہفتے کے لئے سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ بھی سنبھالاتھا۔ انہیں طویل عدالتی کیرئیر کے باعث اپنے عہدے کی نزاکت، ذمہ داریوں اور حدود کا علم ہونا چاہیے۔
قومی احتساب بیورو ملک کے اعلیٰ سیاسی لیڈروں کے خلاف درجنوں مقدمات تیا رکررہا ہے یا ان کے خلاف ریفرنسز کی پیروی کررہا ہے۔ نیب کے چئیر مین کا عہدہ ایک آئینی ادارے کے انتظام اور کارکردگی کو فعال بنانے کا تقاضہ کرتا ہے۔ وہ کسی حکومت کے ترجمان یا سیاسی سلوگن پر عمل درآمد کرنے کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح وہ نیب کے سربراہ کے طور پر پریس کانفرنس منعقد کرکے سیاسی معاملات پر رائے دینے کے بھی مجاز نہیں ہیں۔
کجا کہ وہ اپنی پریس کانفرنس میں یہ قرار دیں کہ نیب حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی سے گریز کررہی ہے ورنہ حکومت گرتے دیر نہ لگے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ’ہم اگر آج حکومت کے اتحادیوں کو گرفتار کر لیں تو یہ حکومت دس منٹ میں گر جائے گی۔ لیکن خدا گواہ ہے ہم یہ حکومت کے لئے نہیں کر رہے، ہم یہ ملک کے لئے کر رہے ہیں، ہمارے ایک قدم سے ملک میں خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا، ملک کو نقصان ہو گا اور ہم یہ نہیں چاہتے‘ ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ نیب کے چئیرمین کا کام ملک کی سیاسی صورت حال کے مطابق فیصلہ کرنا ہے یا اس ادارے کو مالی کرپشن کے حوالے سے جب معلومات ملتی ہیں تو ان کی تحقیقات کرکے متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرنا اس کے فرائض کا حصہ ہے۔ اگر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی بات درست مان لی جائے کہ وہ ملک کی دگرگوں سیاسی صورت حال کی وجہ سے موجودہ حکومت کے اہم لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کررہے ہیں ورنہ نیب کے اقدام سے ملک کی موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔
اس دعویٰ کی سچائی تک پہنچنے کی کوشش کیے بغیر یہ استفسار تو کیا جاسکتا ہے کہ اگر نیب اور اس کا چئیر مین بہتر قومی مفاد میں حکومت کو کام کرنے کا ’موقع‘ فراہم کررہا ہے تو وہ ایسے ہی کسی وسیع تر قومی مفاد میں بعض سیاست دانوں کے خلاف کارروائی بھی کرسکتا ہے۔ کیوں کہ ان کے علم میں آچکا ہے کہ اگر بعض سیاست دانوں کے پر نہ کاٹے گئے تو وہ اس قومی مفاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جس کی حفاظت کے لئے جاوید اقبال جیسے کارندے متعین ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ جج کے طور پر انہیں خود ہی پریس کانفرنس کے دورانکیے ہوئے دعوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ اور اپنے رتبے اور عہدے کے منافی گفتگو کرنے پر فوری طور سے استعفی دے دینا چاہیے۔
نیب چئیر مین کی گزشتہ اتوار کو منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد طیبہ گل کے انکشافات ایک ایسے ٹیلی ویژن چینل پر نشر ہوئے جس کا مالک وزیر اعظم عمران خان کا مشیر اور دوست بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ چینل نے آڈیو نشر کرنے کے بعد ان کی تشہیر یہ کہتے ہوئے روک لی تھی کہ ان معلومات کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت تک اس حوالے سے سنسنی پھیل چکی تھی اور یہ بات بھی واضح ہو چکی تھی کہ حکومت اور نیب کے درمیان بعض معاملات پر کھینچا تانی چل رہی ہے۔
جس کی وجہ سے پہلے جسٹس (ر) جاوید اقبال نے انٹرویو اور پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی پوزیشن ’مستحکم‘ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی درپردہ اعانت سے چئیرمین نیب کے ذرا مختلف چہرے سے نقاب سرکانے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنی ذات اور کردار پر ہونے والے اس حملہ کا جواب دینے کے لئے نیب کو استعمال کرکے خود اپنی ہی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ حکومت نے ابھی تک اس معاملہ پر خاموشی اختیار کی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) نے طیبہ گل کے الزامات سامنے لانے میں حکومت کے کردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے متحرک حامیوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ان کی حکومت چئیر مین سے گلوخلاصی چاہتی ہے یا ان کے ذریعے ملک کے سابقہ حکمرانوں سے ناجائز دولت اگلوانے کا مقدس کام پورا کرنے کا قصد رکھتی ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کے حامی یہ جانے بغیر کہ نیب کے چئیر مین کو ہٹانا، وزیر اعظم کے اختیار میں ہے بھی یا نہیں عمران خان سے یہ اپیل کررہے ہیں کہ اپوزیشن کی طرف سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو بدنام کرنے کی کوششوں کی وجہ سے انہیں اس عہدے سے نہ ہٹایا جائے کیونکہ وہ ملک کے لٹیروں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔
یہ بحث مطلوب نہیں ہے کہ اس سارے ڈرامے میں کس کا کیا کردار ہے اور کون سا مفاد وابستہ ہے۔ تاہم چئیر مین نیب کے حوالے سے گزشتہ دو ہفتے کے دوران سامنے آنے والی معلومات اور نیب کے ہتھکنڈے پریشان کن صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ طیبہ گل کے ذاتی الزامات کے جواب میں نیب کی پریس ریلیز میں انہیں ’بلیک میلرز کے گروہ کی سازش‘ قرار دیا گیا ہے۔ آج نیب نے لاہور کی ایک احتساب عدالت میں اس خاتون اور اس کے مقید شوہر کے خلاف 630 صفحات پر مبنی ریفرنس دائر کیا ہے۔
اگر بدعنوانی سے لے کر بلیک میلنگ تک کے سب معاملات احتساب بیورو نے ہی سرانجام دینے ہیں تو ملک میں ایف آئی اے اور پولیس کس مرض کی دوا ہیں؟ اگر واقعی کوئی گروہ چئیر مین نیب کو بلیک میل کررہا تھا تو کیا انہوں نے اس جرم کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کروائی یا یہی کافی سمجھ لیا گیا کہ نیب ہی شکایات وصول کرکے، ان پر تحقیقات کرلے گا اور مقدمہ چلاکر احتساب عدالت سے ہی ملزموں کو سزا دلوا دی جائے گی؟
ان حالات میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کے پاس باعزت طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر ریٹائر زندگی گزاریں۔ یا پھر اپنے سابقہ باس جسٹس (ر) افتخار چوہدری کی طرح کوئی سیاسی پارٹی بنا کر قوم کی خدمت کا شوق پورا کرلیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ