ملک کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حیران کن طور سے ملک میں اختلاف رائے کے احترام، سیاسی مخالفت کی گنجائش اورآزادی رائے کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کی آواز کو دبانے سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کی ان باتوں سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے یہ سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ ایک چوکنی اور ہوشیار اور بزعم خویش خود مختار عدلیہ کے ہوتے ہوئے ملک میں اختلاف کو مسترد کرنے کا رویہ کیوں پروان چڑھنے لگا ہے۔ اور سنسر شپ کی باتیں کیوں زبان زد عام ہیں؟ عدالت عظمی سے ’صادق و امین‘ کی سند حاصل کرنے والے ملک کے بیباک اور منہ پھٹ وزیر اعظم تو ملک کے اندر اور باہر ببانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان کا میڈیا تو امریکہ اور برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد اور خود مختار ہے۔
البتہ بعض سرپھروں کو لگام دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ملک کے چیف جسٹس نے اپنے سالانہ خطاب میں سنسر شپ اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوری احیا کے لئے خطرناک رجحان قرار دیا تو کیا وہ اس حوالے سے وزیر اعظم کی باتوں کو مسترد کررہے ہیں؟ اور آخر اسی وقت اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے؟
قابل احترام جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ بد اعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے جبکہ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں مالی بدعنوانی کے حوالے سے معاملات کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لوٹی ہوئی دولت کو وصول کرنا ایک نیک مقصد ہے تاہم اگر اس عمل میں معاشرے کی آئینی و قانونی اخلاقیات اور انصاف اور غیر جانبداری کے مسلمہ معیار نظر انداز ہوتے ہیں تو گمشدہ آئینی و قانونی اخلاقیات کی بازیافت زیادہ بڑا چیلنج ثابت ہوگا‘ ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے پہلے ملکی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے مستقبل کو جمہوریت سے وابستہ قرار دے چکے ہیں۔ یہ فرمودات ایک ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب ملک میں ایک ایسی منتخب حکومت کام کررہی ہے جو پورے جوش و خروش سے نیا پاکستان بنانے کی طرف گامزن ہے جس میں بظاہر قانونی اخلاقیات اور آزادی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ملک کی نام نہاد جمہوری اور منتخب حکومت تو جمہوریت یا اس کی کسی قدر کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتی لیکن ایسے دو اداروں کے سربراہان جمہوریت کے حوالے سے تشویش اور پریشانی کا اظہار کررہے ہیں، جن پر ماضی میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور آئین کو بازیچہ اطفال بنانے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔
آخر ایسی کیا انہونی ہوگئی کہ جمہوری راستہ اختیار کرکے اقتدار تک پہنچنے والے عمران خان اور تحریک انصاف کو تو بدعنوانی کے سوا جمہوریت کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے وہ کشمیر یوں کو آزادی دلوانے کے مشن کا آغاز کرنے سے پہلے کرپشن کے خاتمے اور ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ اس دوران انہیں ہر مسئلہ کا ایک ہی حل سجھائی دے رہا تھا کہ سابقہ حکمرانوں کو جیلوں میں بند کردیا جائے۔ البتہ پاک فوج کے سربراہ کے بعد اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جمہوریت کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ڈیل کی سرگوشیاں بند کمروں اور ایوانوں سے نکل کر کوچہ و بازار میں ایک گونج کی صورت سنائی دینے لگی ہیں تو ملک کے دو مقتدر اداروں کے سربراہ جمہویت کی اہمیت، اس کی آئینی ضرورت اور اسے لاحق خطروں کے بارے میں زبان کھولنے اور اپنے خدشات کا اظہار کرنے میں مصروف ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ محض دو سال پہلے پانامہ کیس کی آڑ میں منتخب وزیر اعظم کو معزول کرنے والے بنچ کا سربراہ اب کیوں کر جمہوریت کے اندیشے میں ہلکان ہورہا ہے؟ کیا یہ پریشانی اس وقت لاحق نہیں تھی جب ایک منتخب وزیر اعظم کو مافیا سے تشبیہ دیتے ہوئے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا جارہا تھا۔
ابھی دو اڑھائی ہفتے قبل جج ارشد ملک کو ملک کے ہزاروں ججوں کے لئے باعث شرم قرار دینے کے باوجود چیف جسٹس ہی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے ایسے بدقماش جج کے دیے گئے فیصلہ کو منسوخ کرنے اور احتساب کو تماشہ بنانے کے عمل کا سدباب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص ایک ایسے الزام میں سال بھر سے جیل میں بند ہے جس کا فیصلہ ایک ایسے جج نے لکھا ہے جس کی بدکرداری پر سپریم کورٹ بھی ناپسندیدگی اور گھن کا اظہار کرچکی ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اب اسلام آباد ہائی کورٹ اگر ہفتہ بھر بعد نواز شریف کی اپیل پر غور کرتے ہوئے ویڈیو اسکینڈل کی بنیاد پر جج ارشد ملک کے فیصلہ کو مشکوک اور ناقابل قبول قرار بھی دیتی ہے تو ان دس گیارہ ماہ کا حساب کون دے گا جس دوران ایک ’بے گناہ شخص‘ کو جیل میں بند رکھا گیا تھا کیوں کہ ایک جج اپنا فرض انجام دینے اور غیر جانبداری قائم رکھنے کے قابل نہیں تھا۔ جمہوریت کے آئینی و اخلاقی تقاضوں کی بات کرتے ہوئے کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی کی وہ انتظامی مصلحتوں اور قانونی موشگافیوں کا سہارا لینے کی بجائے ڈنکے کی چوٹ پر فیصلہ دیتے کہ ایک مشکوک جج کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس، جمہوریت کو لاحق اندیشوں کی بات کرنے اور یہ واضح کرتے ہوئے کہ آئینی و قانونی اخلاقیات کو روند کر احتساب نہیں کیا جاسکتا، یہ بھی بتادیتے کہ پاناما اور ویڈیو اسکینڈل کیسز میں کون سی قانونی اخلاقیات کو سربلند کیا گیا تھا؟
ملک کی موجودہ صورت حال صرف عمران خان یا ان کی مقبول تحریک کی وجہ سے خراب نہیں ہورہی۔ بلکہ ایک شخص کو ملک کا مسیحا سمجھتے ہوئے مسلمہ روایات ا ور اصولوں کو نظرانداز اور مسترد کرنے والے تمام اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو اس کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ عمران خان کو نامزد قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کے منہ سوکھ چکے ہیں لیکن ملک کی سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند کرنے کا سلسلہ پوری شدت سے جاری ہے۔ نیب نے اپوزیشن کے متعدد لیڈروں کو محض پوچھ گچھ کے لئے کئی کئی ماہ سے ریمانڈ پر زیر حراست رکھا ہؤا ہے لیکن کوئی جج ان لیڈروں کی ضمانت لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
رانا ثنا اللہ جیسے لیڈر کو منشیات کے ایک مضحکہ خیز الزام میں قید کیا گیا ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دوران واٹس ایپ احکامات کے ذریعے ججوں کے تبادلہ سے کون سی قانونی اخلاقی روایت کی پاسداری مطلوب ہو سکتی ہے۔ اگر سپریم کورٹ ان سب اقدامات اور نا انصافیوں کے سامنے خود کو بے بس و مجبور پاتی ہے تو ایک تقریر سے چیف جسٹس کون سے قانون کو سربلند کرنے کے مشن پر روانہ ہونا چاہتے ہیں؟
ملک میں جمہوریت کو سیاست دانوں نے ناکام نہیں بنایا لیکن اس کا سارا الزام سیاسی جماعتوں اور لیڈروں پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔ جو عناصر اس تباہی کے سبب بنتے رہے ہیں اور جن کی وجہ سے ملک میں کبھی جمہوریت کا پودا پنپ نہیں سکا، اب انہی کی طرف سے جمہوریت کی دہائی دی جارہی ہے۔ کیا اس پریشانی کا سبب یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ جمہوریت کے نام پر عوام پر مسلط کی گئی حکومت عوام کی امنگوں پر پورا اترنے میں ہی ناکام نہیں ہے بلکہ وہ درپردہ قوتوں کے مجوزہ ایجنڈا کی تکمیل میں بھی سرخرو نہیں ہوسکی۔ اب اس سے نجات پانے کے لئے کبھی ڈیل کی پیشکش کا شور و غوغا سننے میں آتا ہے اور کبھی جمہوریت کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لیکن حالات کا دھارا اس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ صر ف خطرے کی گھنٹی بجاکر اس سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس اگر احتساب کے نام پر ہونے والی لاقانونیت کو محسوس کرتے ہیں تو ملک میں انصاف کا کسٹوڈین ہونے کے ناتے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون شکن اور آئین مخالف طریقہ کار کو ختم کروائیں۔ اگر انہیں سنسر شپ اور میڈیا پر پابندیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہیں تو آئین کے محافظ کے طور پر چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فوری طور سے اس کا تدارک کرنے کے لئے اقدامات کریں۔
جمہوریت یا آزادیوں کا تحفظ کرنے کے لئے تقریروں سے زیادہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حبس کی ذمہ دار اگر حکومت اور پارلیمنٹ بنی ہوئی ہو تو عام لوگوں کی تمام امیدوں کا مرکز سپریم کورٹ کے جج ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ معاملات کا شعور رکھنے کے باوجود اگر صورت حال کو تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہے تو اس کا ایک ہی مطلب لیا جائے گا کہ آئین و قانون کے محافظ بھی بے بس ہیں۔ ایسے میں جمہوریت، قانون کی پاسداری اور آئین کے احترام کی داد فریاد کون سنے گا؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)