مولانا فضل الرحمان اور حکومت کے درمیان مفاہمت یا مذاکرات کی کوششیں فی الوقت ناکام ہیں۔ گزشتہ روز چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے جو اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے بنائے گئے 7 رکنی سرکاری وفد میں بھی شامل ہیں، جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر عبدالغفور حیدری کو اتوار کے روز اپنے گھر ملنے کی دعوت دی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان برف پگھلنے کا یہ امکان پیدا ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ختم ہوگیا۔ ملاقات منسوخ کردی گئی۔ اب اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ حکومتی وفد کے ساتھ کب اور کن شرائط پر بات چیت کی جائے۔
اگر چہ 31 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کے حوالے سے اب بھی اصل قیادت مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہی ہے اور جمیعت علمائے اسلام کے ہی کارکن اس احتجاج کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن دو روز پہلے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں اب اس احتجاج میں اگر مولانا فضل الرحمان کے شانہ بہ شانہ نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کے پیچھے ضرور ہیں۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں ہی مولانا کے احتجاج کا ساتھ بھی دے رہے ہیں لیکن کسی نہ کسی حد تک اس سے فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی یہی بے یقینی حکومت کے ترجمانوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع دیتی ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور مولانا فضل الرحمان دراصل اس معاملہ میں تنہا ہیں۔ اپوزیشن نے حکومت سے بات چیت کا معاملہ رہبر کمیٹی کے حوالے کرکے اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
27 اکتوبر سے کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے منائے جانے والے یوم سیاہ کے ساتھ ہی ملک بھر سے قافلوں کی شکل میں احتجاجی گروہ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیں گے۔ تاہم حکومت کی طرف سے یہ اشارے دیے جارہے ہیں کہ وہ 2014 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت والی غلطی نہیں دہرائے گی اور احتجاج سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ اس حوالے سے راستے بند کرنے، اسلام آباد کو سیل کرنے اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے علاوہ اعلیٰ قیادت کو نظر بند یا گرفتار کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔
اشارے دیے جارہے ہیں کہ مناسب وقت آنے پر مولانا فضل الرحمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ اگرچہ سینیٹ میں قائد ایوان اور تحریک انصاف کے لیڈر شبلی فراز نے واضح کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان خود گرفتار ہونے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ عوام کی نظر میں ہیرو بن سکیں لیکن حکومت انہیں ایسا موقع نہیں دے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو آگاہ ہونا چاہیے کہ احتجاج یا اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش میں وہ اپنی سیاسی پوزیشن کو داؤ پر لگارہے ہیں۔
ایک حکومتی ترجمان جب مولانا فضل الرحمان کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا دیکھ کف افسوس ملتا ہے تو ایک عام شہری یا سامع کو اس پر حیرت ہوتی ہے کیوں کہ حکومت کے لئے یہ مرحلہ افسوس کی بجائے خوشی و مسرت کا ہونا چاہیے کہ اس کے شدید ناقد اور وزیر اعظم کے استعفیٰ سے کم پر بات نہ کرنے والے لیڈر کی سیاست آئیندہ دس روز میں زوال پذیر ہوجائے گی۔ حکومت کو اس پر پریشان ہونے یا متنبہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے؟
اسی کے ساتھ جب شبلی فراز یہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان گرفتار ہو کر ہیرو بننا چاہتے ہیں تو اس بیان سے کیا یہ مراد لی جائے کہ حکومت کے ساتھیوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ موجودہ انتظام پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہورہا ہے اور متعدد سرکاری پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں بے چینی موجود ہے۔ اس لئے جو بھی اس بے چینی کے خلاف احتجاج کرے گا وہ ہیرو کا مرتبہ پائے گا؟ اگر حکومت کو اپنی اس کمزوری کا احساس ہوگیا ہے تو اسے طاقت کے گھمنڈ سے باہر نکل کر انکساری کے ساتھ اپوزیشن کو کسی درمیانی راستے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حکومت نے مولانا فضل الرحمان کی آواز دبانے، ان کی خبریں رکوانے، اپوزیشن پارٹیوں کے اختلاف کو باہمی انتشار کہنے اور آزادی مارچ کو مذہبی استحصال قرار دینے کی کوششیں کرنے کے بعد جب یہ محسوس کیا کہ مولانا کا سیاسی مؤقف قوت پکڑ رہا ہے اور عوامی اور سیاسی سطح پر اسے پذیرائی نصیب ہورہی ہے تو وزیر اعظم نے مذاکرات کے لئے ایک 7 رکنی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ کمیٹی کی قیادت وزیر دفاع پرویز خٹک کررہے ہیں۔ تاہم اس اعلان کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے فرمایا کہ ’موجودہ قومی اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے‘ ۔ یہ فقرہ مولانا فضل الرحمان پر براہ راست حملہ تھا۔ اس کے بعد فوری طور سے مذاکرات ممکن نہیں تھے۔
مولانا فضل الرحمان کا متوقع جواب سامنے آنے پر گزشتہ روز پرویز خٹک نے ایک پریس کانفرنس میں مولانا کے آزادی مارچ کو کشمیر دشمن ایجنڈا قرار دیا۔ اس طرح حکومت کے اعلیٰ ترین نمائیندوں نے خیر سگالی کی فضا پیدا کرنے کی بجائے مسلسل اشتعال قائم رکھنے اور اپوزیشن کو چیلنج کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ طرز عمل دانستہ اختیار کیا جارہا ہے یا تحریک انصاف کے نمائیندوں سے یہ سیاسی غلطیاں ’نیک نیتی‘ سے سرزد ہورہی ہیں۔ لیکن ان کا نتیجہ بہر حال یہ نکلا ہے کہ اپوزیشن ابھی تک مذاکرات پر آمادہ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے مذاکرات کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار رہبر کمیٹی کے حوالے کرکے البتہ حکومت کے علاوہ بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ یہ بہر حال مولانا کی سیاسی ذہانت کا ثبوت ہے۔
سیاسی ہتھکنڈوں سے قطع نظر اگر جمیعت علمائے اسلام کے آزادی مارچ کے منصوبہ اور حکومت کی بدحواسی کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمان نہ اپنے سیاسی بقا کے لئے برسر پیکار ہیں اور نہ ہی اس میں سے ملک کی بھلائی کا کوئی منصوبہ برآمد ہونے کا امکان ہے۔ بدنصیبی سے ان دونوں لیڈروں کی حیثیت میدان کارزارکے ان جاں بازوں کی سی ہے جنہیں عادی مرغ باز میدان میں اتارتے ہیں۔
ایک دوسرے سے چونچے لڑاتے یہ مرغ ایک دوسرے کو زخمی و بے حال کرتے ہیں لیکن اس لڑائی کا اصل فائدہ کوئی دوسرا اٹھا رہا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مرغوں کی لڑائی میں کسی نواب یا دوسرے شوقین کی عزت داؤ پر لگی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جس سیاسی تصادم کی پیشین گوئی کی جارہی ہے اس میں ملک کا نظام، جمہوریت یا عوام کی بہبود نشانے پر ہوگی۔ بدنصیبی سے اسے کسی ایک سیاسی لیڈر یا قوت کی فتح یا شکست کا نام دیا جائے گا لیکن دراصل اس میں پاکستان اور پاکستانی ناکام ہوں گے۔
اس بات میں بھی کلام نہیں ہونا چاہیے کہ کسی بھی منتخب حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ اگر اس کی پالیسیاں عوام دشمن ہیں یا ملک کی معیشت کو ان سے نقصان ہورہا ہے تو اس کی گرفت یا تو پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے یا انتخابات کے ذریعے عوام کو حکمرانوں کی پالیسیوں کو مسترد کرنے کا حق و موقع ملنا چاہیے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت جعلی مینڈیٹ کے ذریعے برسر اقتدار آئی ہے، اس لئے اسے جانا چاہیے اور نئے انتخابات کے ذریعے عوام کی حقیقی نمائیندہ حکومت قائم ہونی چاہیے۔
یہ دعوے سننے میں خواہ کتنے ہی سہانے کیوں نہ ہوں لیکن اس کا مفہوم یہی ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو تیز کرکے ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ موجودہ حکومت مستعفی ہوجائے اور کوئی ایسا انتظام کیا جاسکے جس میں اپوزیشن کو بھی اقتدار یا مفاد کا کچھ حصہ مل سکے۔ یا نئے انتخابات کے ذریعے ایسے لوگ منتخب کروائے جاسکیں جو احتجاج کرنے والوں کے نزدیک ’جائز عوامی نمائیندے‘ ہوں۔ سوچنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کے باہر جلسو ں یا مظاہروں کے ذریعے ایسا دباؤ قائم کرنے سے کون سی قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ یا کن قوتوں کی سرپرستی میں سیاسی لڑائی کو قومی اسمبلی کی بجائے جلسوں اور نعروں کی گونج میں کسی نتیجے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تجربے اس ملک میں بہت بار ہو چکے ہیں۔ اس لئے کوئی بھی ان کے ثمرات اور عواقب سے ناآشنا نہیں ہے۔
معاملہ کو اگر اتنا سادہ بھی سمجھ لیا جائے کہ سیاسی دباؤ بڑھانے سے حکومت نئے انتخابات کروانے پر مجبور ہوجائے گی تو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر نئے انتخابات میں بھی تحریک انصاف ہی جیت گئی تو کیا موجودہ اپوزیشن اسے جائز قرار دے گی؟ یا اگر اپوزیشن اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو کیا تحریک انصاف انہیں منصفانہ انتخاب مانتے ہوئے راضی خوشی نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہوجائے گی؟ انتخاب کو دھاندلی زدہ قرار دے کر سیاسی احتجاج اور حکومت کو کمزور کرنے کا طریقہ، دراصل ملکی نظام اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس لئے یہ بحران پیدا کرنے والی اور اس کا سامنا کرنے والی سیاسی قوتوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ کیوں اور کس کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں۔ کیا کسی تیسرے فریق کے لئے گھمسان کا رن ڈال کر سیاسی پارٹیاں جمہوریت کو مضبوط کریں گی یا ان عناصر کو طاقت بہم پہنچائیں گی جو سیاست دانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک بار پھر وہی تماشہ نئے چہروں کے ساتھ رچانے کی کوشش ہورہی ہے۔
حکومت ہو یا اپوزیشن، جب تک تمام سیاست دان خود اپنا مقدمہ پیش کرنے اور غیر سیاسی قوتوں کو سیاسی پنجہ آزمائی سے علیحدہ کرنے کے لئے یک زبان نہیں ہوتے، اس وقت تک ملک میں جمہوریت محض ایک نعرہ اور عوام مجبور تماشائی بنے رہیں گے۔ اس وقت عمران خان پر اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوں کہ انہوں نے ہی ایک پیج کی حکمت عملی کے نام پر ملک کی تمام اپوزیشن کو کمتر قرار دینے کا اعلان کررکھا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اگر اسلام آباد میں محاذ گرم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا مقابلہ تحریک انصاف اور عمران خان کو اپنے برتے پر ہی کرنا ہوگا۔ اگر وہ اس لڑائی کو من و تو سے بڑھ کر ملکی مفاد اور جمہوری روایت کے تناظر میں دیکھ سکیں تو مولانا فضل الرحمان انہیں اپنے حریف نہیں حلیف دکھائی دیں گے۔
سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرکے ملک میں سیاسی کٹھ پتلی تماشہ کا خطرناک کھیل ختم کرسکتی ہیں۔ یہ کھیل آدھا ملک ہڑپ کرچکا ہے۔ باقی ماندہ کی حفاظت کے لئے سیاسی قوتوں کو کسی نادیدہ قوت کے ساتھ اتفاق و اشتراک کی بجائے خود ’ایک پیج‘ پر جمع ہونا پڑے گا۔ اگر اب بھی نوشتہ دیوار نہ پڑھا گیا تو 31 اکتوبر کو سب مل کر پاکستان کو شکست دینے کے لئے پنجہ آزمائی کریں گے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)