وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے مطابق فیڈرل سنسر بورڈ نے سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشہ ‘ کی ریلیز روک دی ہے۔ اور اس فلم کے مواد کے بارے میں اب اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جائے گی۔ اس دوران پنجاب اور سندھ حکومتوں نے صوبائی سنسر بورڈز کی منظوری کے باوجود اس فلم کی ریلیز روکنے کا فیصلہ کیاہے کیوں کہ اس سے نقص امن کا اندیشہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ان اعلانات کے بعد لبیک تحریک پاکستان نے فلم کے خلاف احتجاج کی دھمکی واپس لے لی ہے۔
اس دوران ملک میں آٹے کا بحران جاری ہے۔ کسی صوبے میں نانبائی ہڑتال پر ہیں اور کہیں روٹی نایاب ہے۔ یہ بھی طے نہیں ہوسکا کہ ملک بھرمیں گندم کی اچانک فراہمی میں تعطل کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے یا نہیں۔ وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کی سندھ نے مرکزی حکومت کے مشورہ پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور صوبے میں آٹا اس قدر مہنگا ہوگیا کہ غریب اب روکھی سوکھی روٹی کھانے کا اہتمام بھی نہیں کرسکتا۔ اس بحث میں البتہ یہ بات نہ خبروں میں واضح ہوسکی اور نہ ہی حکومت کا کوئی نمائیندہ یہ بتانے پر تیار ہؤا کہ اگر سندھ میں گندم کی کمی پیپلز پارٹی کی ’مرکز دشمن‘ حکومت کی کارستانی تھی تو خیبر پختون خوا یا پنجاب میں آٹے کی قیمتیں کیوں اچانک آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔
شدید عدم تحفظ کا شکار تحریک انصاف کی حکومتیں ہر مسئلہ سیاسی دشمنوں پر الزامات کی گولہ باری سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات میں یا تو لوگ اپنا مسئلہ بھول کر سیاست دانوں کے ’کرتب‘ دیکھنے لگتے ہیں یا کسی نہ کسی صورت نئی آفت سے سمجھوتہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ گندم کی نایابی اور روٹی کی قلت کے حوالے سے بھی تحریک انصاف اسی پرانے ہتھکنڈے کو آزمانے کی بھرپور کوشش کرتی رہی ہے۔ حالانکہ یہ معلومات بھی سامنے آچکی ہیں کہ پہلے حکومت نے ملک میں گندم کی کھپت کا اندازہ کئے بغیر کثیر مقدار میں گیہوں افغانستان برآمد کرنے کی اجازت دی ۔ اور اس سے پہلے مناسب مقدار میں گندم خریدنے اور ذخیرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اب اچانک پیدا ہونے والی قلت پر قابو پانے کے لئے 3 ہزار ٹن گندم ہنگامی بنیادوں پر درآمد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ دعوے بھی کئے جارہے ہیں کہ سرکاری گودام میں گیہوں کا اتنا ذخیرہ موجود ہے کہ ملک کی دو سے تین ہفتے کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔
یہ سوال ہنوز تشنہ جواب ہے کہ اگر سرکار کے پاس گندم موجود ہے تو الزام تراشی کی نوبت کیوں آئی اور مارکیٹ میں فوری طور سے گندم لا کر اس منافع خور ’مافیا‘ کے ہتھکنڈوں کو کیوں ناکام نہیں بنایا گیا جس پر الزام تراشی کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری سے فراریت حاصل کررہی ہیں؟ پاکستان جیسے زرعی ملک میں گندم کی قلت کی واحد قابل قبول وجہ حکومتی نااہلی اور بدانتظامی ہوسکتی ہے۔ غلطی کا امکان کہیں بھی ہوتا ہے لیکن جب غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اس کی وضاحتیں کرنے اور مخالفین پر الزام تراشی کے ذریعے کام نکالنے کی کوشش کی جائے تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی اصلاح احوال کا امکان نہیں رہتا۔ تحریک انصاف کی حکمت عملی اس طرز عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی نیا قضیہ سامنے آتا ہے اور پرانے الزامات نئے عنوان کے ساتھ نشر کرنے کا پرانا دھندا شروع کردیا جاتا ہے۔
روٹی کے بحران پر جاری آہ و بکا کے بیچ ملک کے ممتاز فلم ڈائیریکٹر سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشہ‘ کی ریلیز کا قضیہ سامنے آیا ہے۔ پہلے وفاقی اور صوبائی سنسر بورڈز نے اس فلم کو نمائش کے لئے منظور کرلیا اور اب امن و امان کو لاحق خطرے اور اسلامی اقدار کی خلاف ورزی کے شبہ میں اس پر پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ پابندی تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے احتجاج کی دھمکی کے بعد لگائی گئی ہے گویا اب حکومت لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے ایک طرف ایک انتہا پسند مذہبی گروہ کی اشک شوئی کرنے کا اہتمام کررہی ہے تودوسری طرف اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ ان مسائل میں اس وقت گندم کا بحران سر فہرست ہے۔ سرمد کھوسٹ کی فلم پر تحریک لبیک کے اعتراض نے ’چوکنی‘ حکومت کو فوری طور سے گندم کی قلت کو مذہبی جذبات کی فراوانی سے دور کرنے کا موقع فراہم کیاہے۔
تحریک لبیک پاکستان وہی گروہ ہے جس نے فیض آباد دھرنوں کے ذریعے اس وقت کی حکومت کو گھنٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا اور فوجی افسروں کو بنفس نفیس مداخلت کرکے حکومت سے لبیک تحریک کا معاہدہ کروانے کا اہتمام کرنے اور مظاہرین میں کرایہ وغیرہ تقسیم کرکے انہیں گھروں کو جانے پر آمادہ کرنا پڑا تھا۔ تاہم تحریک انصاف کی صورت میں جب ایک پیج کی حکومت برسر اقتدار آگئی تو لبیک تحریک جیسی تنظیم کی فوری سیاسی ضرورت باقی نہیں رہی ۔ دوسری طرف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو بھی یہ دکھانا مقصود تھا کہ حکومت مذہبی انتہا پسندوں کو کسی شکل میں قبول نہیں کرے گی۔ یوں اس تحریک کے بدزبان اور بدخصال قائدین کو حراست میں لے لیا گیا ۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ہی پاکستانیوں کو یہ خبر سنائی گئی ہے کہ تحریک لبیک کے متعدد لیڈروں کو کئی ہزار سال قید کی سزا دے کر ملک میں مذہب کے نام پر بلیک میل کرنے کے مزاج کو ختم کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اب اسی تنظیم کی ایک دھمکی کے جواب میں ایک بے ضرر فلم پر پابندی جیسا اقدام حکومت کی کمزوری کے علاوہ ، انتظامی امور میں مذہبی اشتعال انگیز عناصر کی طاقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ فلم ’زندگی تماشہ‘ کے قابل اعتراض مواد کا جائزہ لینے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جائے گی۔ یعنی اب نظریاتی کونسل کو ملک میں فلموں ، ڈراموں اور دیگر فنون لطیفہ کا جائزہ لینے کا کام بھی سونپا جارہا ہے۔ اول تو لاتعداد قوانین کی موجودگی میں وفاقی اور صوبائی سطح پر سنسر بورڈ قائم کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔ تاہم جب حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل سے ایک فلم کے مواد کی پڑتال کروانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر سنسر بورڈز کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی بھی فلم ریلیز سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوا دی جائے۔ اس طرح عمران خان کے ’بچت ویژن‘ کے مطابق غیر ضروری اداروں کے مصارف بھی بچ سکیں گے اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی کوئی کام کرسکے گی جس کی کارکردگی پر پہلے ہی بعض وزیر سوال اٹھا چکے ہیں۔
فلم ’زندگی تماشہ‘ پر سامنے آنے والے اعتراض کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لبیک تحریک کے خیال میں اس فلم کے ذریعے ملک کے بلاسفیمی قوانین کے خلاف رائے عامہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عام لوگوں کو چونکہ یہ فلم دستیاب نہیں ہے ، اس لئے اس بارے میں غیر جانبدارانہ رائے دینا ممکن نہیں۔ البتہ سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ فلم معاشرے کا سافٹ امیج ابھارنے اور ملک میں مثبت رجحان کے فروغ کے لئے کام کرنے کے نقطہ نظر سے بنائی گئی ہے۔ لبیک تحریک کی دھمکی سے پہلے مرکزی اور صوبائی سنسر بورڈز کی طرف سے اس فلم کو نمائش کی اجازت سے کم از کم اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس فلم میں اسلام یا پاکستان کے خلاف کوئی مواد موجود نہیں ہے۔ پھر بھی حکومت ایک ایسے مذہبی گروہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کے قائدین کو ملکی قانون کے تحت قانون شکنی پر طویل مدت کی سزائیں دی گئی ہیں۔
پاکستان کے توہین مذہب قوانین متنازعہ اور غیر منصفانہ ہیں۔ ان قوانین کو بنیاد بنا کر مذہبی گروہ معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی حکومت میں یہ حوصلہ نہیں ہؤا کہ ان قوانین پر پارلیمنٹ میں مناسب بحث وتمحیص کے ذریعے رد و بدل کیا جائے تاکہ ملک کی اقلیتیں بھی خود کو محفوظ محسوس کرسکیں اور شر پسند عناصر جھوٹے الزامات کے ذریعے عام قانون پسند شہریوں کی زندگیاں اجیرن نہ بناسکیں۔ ملک کی سپریم کورٹ ممتاز قادری کیس میں اس دعویٰ کو مسترد کرچکی ہے کہ بلاسفیمی قوانین پر بحث ناجائز یا غیر اسلامی ہے۔ اسی طرح آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان قوانین کو کس طرح ناجائز طور سے استعمال کرکے بے گناہ لوگوں کو سخت سزا دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس طرح دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
ملک میں جاری ان مباحث کے دوران وزیر اعظم عمران خان اپنے وزرا کی فوج ظفر موج کے ہمراہ ڈیوس میں عالمی اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔ کیا وہ عالمی لیڈروں اور سرمایہ کاروں کو یہ بتائیں گے پاکستان کی حکومت اس قدر بے اختیار ہے کہ وہ ایک بے ضرور فلم پر کسی مذہبی گروہ کی بے مقصد تنقید کے سامنے ہتھیار پھینک دیتی ہے تاکہ امن و مان کو کوئی اندیشہ لاحق نہ ہو۔ یا پھر حکومت جان بوجھ کر خوف کی یہ فضا قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ مذہبی شدت پسندوں سے ڈرے ہوئے لوگ تحریک انصاف کی ناکامیوں پر غور نہ کریں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروےـ)
فیس بک کمینٹ