اس سال 14 اگست کو آزادی کے 70 سال پورے ہوئے۔ تمام ناکامیوں، تکلیفوں اور مشکلات سے قطع نظر اہل پاکستان اس دن کے حوالے سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ بجا طور سے اس خوشی کا اظہار بھی کر سکتے ہیں کہ 70 برس قبل ان کے آباء واجداد نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی کامیاب جدوجہد کی تھی۔ اوروہ اس وقت ایک آزاد اور خود مختار ملک میں رہتے ہیں جہاں بار بار جمہوریت کو پامال کرنے کی کوششوں کے باوجود جمہوری سفر جاری ہے۔ ملک کے عوام نے وقتی ہیجان اور پریشانی سے قطع نظر کبھی کسی فوجی حکومت کو جمہوریت کے متبادل کے طور پر قبول نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 70 برس کے مختصر عرصہ میں 4 بار آئین معطل کرنے اور سیاستدانوں کی ناکامیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے جمہوریت کو غیر موزوں طریقہ کار بتانے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ہر فوجی آمر کو اسی سانس میں یہ بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اس ملک میں فیصلے اس ملک کے عوام ہی کریں گے اور جمہوری طریقہ کار کے مطابق ہی مستقبل کی حکومت تشکیل پائے گی۔ اسی لئے کوئی ڈکٹیٹر نیا آئین لے کر آیا، کسی نے 90 دن میں انتخاب کروانے کے وعدے کے ساتھ اسلامی نظام نافذ کرنے کا جھانسہ دیتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دیا، کسی نے انتخاب منعقد تو کروائے لیکن ان کے نتائج کو قبول نہ کرنے کی فاش غلطی کی پاداش میں ملک کو دولخت کروایا۔ اور آخری فوجی آمر نیا پاکستان بناتے بناتے خود قصہ پارینہ بن گیا لیکن ہوس اقتدار کے سبب ملک میں کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
پاکستان کی 70ویں سالگرہ پر اس ملک کی مختصر تاریخ میں فوجی حکمرانوں کی زبردستی اور ملک کی سیاست کے علاوہ سماجی رویوں اور بین الاقوامی شناخت پر ان کے اثرات پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ جان لینا بھی اہم ہے کہ ہر بار فوج کی طاقت سے عوام کی مرضی کو مسترد کرنے والا، آمر انہی عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بنا اور اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوا۔ گو کہ جنرل ضیاءالحق کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ وہ عوامی قہر کا نشانہ بننے سے پہلے ہی طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ لیکن پاکستان کے عوام کی جمہوری لگن ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ فوجی آمریتوں کے ادوار کو نکال کر بھی اگر صرف سیاسی جمہوری ادوار پر نظر ڈالی جائے تو ملک کے سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے لئے عوام کی تربیت کرنے اور ادارے استوار کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیاست خاندان اور فرد کی ملکیت ہو گئی ہے اور تمام بڑی پارٹیاں شخصیت پرستی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ حقیقی جمہوری نظام کے لئے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیوں کہ اسی طرح عوامی شعور کو پختہ کرنے کا کام کیا جا سکتا ہے۔ فوجی آمروں اور سیاست دانوں میں اقتدار کی دوڑ میں اول تو ملک میں تعلیم کو نظرانداز کرنے کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے نام پر نفرت، تعصب اور غلط معلومات کی فراہمی نے بھی ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ عام پڑھا لکھا شخص بھی معاملات کو حقائق اور عقلی جواز کی بنیاد پر پرکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری طریقہ کار کے تحت وجود میں آنے والے ملک میں 70 برس بعد بھی زوروشور سے یہ مباحث سننے کو ملتے ہیں کہ اس معاشرہ کے لئے جمہوری نظام درست ہے یا اسے کسی آمریت کی ضروررت ہے۔ 70 برس کی مدت میں ترقی کے ثمرات چوں کہ عام آدمی تک نہیں پہنچے ہیں، اس لئے غربت، احتجاج اور مالی مشکلات کے ستائے ہوئے لوگ جمہوری نظام میں بھی شنوائی نہ ہونے اور انصاف نہ ملنے کی وجہ سے یہ کہنے لگتے ہیں کہ اس سے تو فوجی آمریت بہتر ہے۔ تاہم اس رویہ کو فروغ دینے کے لئے سیاستدانوں کی کمزوریوں کے علاوہ، فوج کو عام شہریوں سے جدا کسی خصوصی مخلوق کے طور پر پیش کرنے کے رویہ نے بھی کردار ادا کیا ہے۔
تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ اور یہ سچ جان لینے اور بیان کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جو ملک برے یا بھلے انتظام کے تحت عوامی رائے کے ذریعے قائم ہوا تھا، وہ انہی کے ووٹ سے بننے والی حکومتوں کے ذریعے ہی اپنی منزل کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ اس لئے ایسے تمام عناصر کو جو پاکستان میں جمہوریت کے خلاف میدان ہموار کرنے کے لئے سرگرم رہتے ہیں یہ جان لینا چاہئے کہ یہ ملک جب تک اپنی موجودہ شکل میں قائم رہتا ہے تو اسے جمہوری طریقہ کے مطابق ہی چلانا پڑے گا۔ اگر کوئی دوسرا نظام مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ عوامی مزاج، ملک کی اساس اور عالمگیر تبدیلیوں سے متصادم ہوگا۔ ایسی صورت میں یا یہ کوششیں ناکام ہوں گی۔ جیسے ماضی میں 4 مرتبہ فوجی آمریت مسلط و مروج کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یا پھر ایسی کسی زبردستی سے ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس کا تجربہ بھی 1971 میں کیا جا چکا ہے۔ مشرقی پاکستان کے ووٹروں کی رائے کو ماننے سے کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی وہاں احتجاج شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوا۔ اس لئے پاکستان میں جمہوریت کے خلاف سوچنے اور اسے بے توقیر کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دراصل اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر نا چاہتے ہیں۔ موجودہ پاکستان کے زیادہ تر مسائل کی اصل وجہ جمہوری نظام کی کمزوری ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے جمہوریت ختم کرنے کی بجائے جمہوری اصلاحات کو موثر کرنے اور ملک کے ہر خطے تک اس کے ثمرات پہنچانے کی ضرورت ہے۔
اسی حوالے سے یہ مباحث بھی اکثر سننے میں آتے ہیں کہ 23 مارچ1940کو قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد سے شروع ہونے والی پاکستان تحریک کس حد تک مخلصانہ تھی یا کس حد پر وہ سازش کا نتیجہ تھی۔ اس وقت کون سے غلط فیصلے کئے گئے اور کن لوگوں نے کس مقصد سے ہندوستان کی تقسیم کے لئے کام کیا۔ اور یہ کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے مذہب کی بنیاد پر علیحدہ ملک بنانے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں تھا۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کے بعد ان مباحث میں زیادہ شدت آئی ہے اور پاکستان میں شدت پسندانہ مذہبی قوم پرستی کے مقابلے میں پاکستان کے وجود کے بارے میں سوال اٹھا کر صورت حال کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ دونوں رویے انتہاپسندانہ ہیں اور انہیں زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہونے والی سیاسی جدوجہد کے حوالے سے تاریخی تناظر میں معاملات کی تفہیم ایک جائز اور ضروری علمی کام ہے۔ لیکن یہ کام سوشل میڈیا پر یک طرفہ پروپیگنڈا کرنے، ٹاک شوز میں شبہات پیدا کرنے یا تاریخی حقائق کو مسخ شدہ انداز میں پیش کرنے سے نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔
تاریخ کا جائزہ لینا اور غلط مفروضوں کو علمی جواز سے مسترد کرنا عالمانہ تحقیق کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں مذہب، قوم اور ملک کے مباحث کو اس قدر خلط ملط کر دیا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں بھی اس حوالے سے متوازن اور غیر جذباتی تحقیقاتی کام کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ جان لینے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے ماضی کا غیر جذباتی تجزیہ کرتے ہوئے، اس سے سبق سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لئے تحریک پاکستان اور اس کی جدوجہد کے حوالے سے ہونے والی غلطیوں کا جائزہ لینا بھی پاکستان کی ترقی و کامرانی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ علم کے راستے بند کرکے یا معلومات کے نام پر جھوٹ پھیلا کر کوئی بھی قوم کامیابی کا سفر طے نہیں کر سکتی۔ اسی طرح تحریک پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کے عمل میں شریک بلاتخصیص عقیدہ، سیاسی وابستگی اور نظریات ہر شخصیت قابل احترام ہے۔ پسندیدہ شخصیات کو فرشتہ صفت اور مخالفانہ رائے رکھنے والوں کو شیطان ثابت کرنے کا طریقہ شدید نقصان کا سبب بنا ہے۔ اس رویہ سے نہ پاکستان کو فائدہ ہوا ہے اور نہ حقیقی پاکستانیت کا تصور نمایاں ہو سکا ہے۔ اس کی بجائے نظریہ پاکستان کے نام سے مذہب، جذبات اور سیاست کا ایک ملغوبہ عوام کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یونیورسٹیوں میں تحقیق و جستجو کا حقیقی علمی بنیادوں پر ہونے لگے تو عوام کو ان گمراہ کن مباحث سے بھی نجات مل سکتی ہے۔
اس پس منظر میں البتہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ 1947 میں پاکستان کا حصول غلط تھا یا درست، کے مباحث کا پاکستان کی موجودہ حیثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ مباحث تاریخی، سیاسی و علمی تناظر میں ہونے چاہئیں۔ لیکن اس ملک میں پیدا ہونے والی تین سے چار نسلوں کے لئے پاکستان ایک اٹل سچائی اور حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سچ کو مسترد کرنے والے یا اس کے بارے میں گمراہی پھیلانے والے نہ تو کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا موقف قابل قبول ہونا چاہئے۔ یہ دونوں امور ایک دوسرے سے متعلق ہونے کے باوجود علیحدہ موضوع ہیں۔ ایک کا تعلق ماضی کے واقعات اور فیصلوں کی حقیقت جاننے سے ہے اور دوسرے کا ایک ایسی سچائی سے جو 20 کروڑ سے زیادہ لوگوں کا وطن ہے۔ اور جو اس سرزمین کی ترقی، خوشحالی اور نیک نامی کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب ان مباحث کو ملا کر پیش کرنے اور لوگوں کو ان کے نظریاتی یا تاریخی شعور کی بنیاد پر وطن دشمن قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک زندہ اور متحرک قوم کے طور پر پاکستانیوں کو بھی یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اب ایک نوزائیدہ قوم کے طور پر بچگانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی قومی شناخت کے لئے مذہب اور عقیدہ کو واحد جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کا تعلق ظہور اسلام کے زمانہ اور عرب ثقافت سے قائم کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی قوم عقیدہ کے علاوہ، زمینی روایات، ثقافت، زبان اور رسم و رواج سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ اسی لئے نظریہ پاکستان کی یہ سخت گیر تشریح کہ پاکستان صرف مسلمانوں کے لئے قائم کیا گیا تھا، ناقابل قبول ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے ہاں صدیوں سے آباد مختلف العقائد لوگوں کو صرف یہ کہہ کر اپنا شہری ماننے سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان کا عقیدہ مختلف ہے۔ اسی لئے صرف عقیدہ کی بنیاد پر قوم کی شناخت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ اس مشکل سے نجات پانے کے لئے پاکستانی قوم کی شناخت کے حوالے سے بعض گرہوں کو کھولنا ضروری ہوگا۔ فی الوقت نعروں کے زور پر ان مسائل سے درگزر کیا جاتا ہے لیکن 70 سال مکمل ہونے کے بعد اب اہل پاکستان کو زیادہ بلوغت اور پراعتماد تدبر کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔
ستر برس اگرچہ قوموں کی عمر میں بڑی مدت نہیں ہے۔ پاکستان اب بھی ایک نوعمر ملک ہے۔ اس کے باوجود یہ اتنا وقت ضرور ہے کہ ماضی کے تنازعات کو بھلا کر آگے بڑھا جائے اور عصر حاضر کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق معاملات طے کئے جائیں۔ اگر ملک کے سیاستدان، دانشور اور استاد اس جانب پیش قدمی کرنے کے لئے کام کریں تو آئندہ 70 برس میں پاکستان ماضی کے مقابلے میں ترقی کی حیران کن منزلیں طے کرنے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اہل پاکستان نے نعروں، جذبات اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر قومی شناخت کے معاملہ کو ایک معین وقت اور تحریک سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی کوشش نہ کی تو ترقی معکوس کا سفر جاری رہے گا۔ یہ ایسے ہی ہو گا جیسے 70 برس کا عمر رسیدہ شخص پانچ سات سال کے بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگے۔ لوگ اس پر ہنسیں گے یا ترس کھائیں گے لیکن کوئی اس کی حرکتوں کو سنجیدگی سے قبول نہیں کرے گا۔ پاکستانیوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ بطور قوم اب بلوغت کی طرف گامزن ہیں۔ ان کے رویہ میں پختگی و سنجیدگی مترشح ہونی چاہئے۔ ورنہ اقوام عالم انہیں غیر سنجیدہ سمجھ کر نظر انداز کرنے لگیں گی۔
اہل پاکستان کو یوم آزادی مبارک ہو۔
فیس بک کمینٹ