14 اگست کو یوم آزادی روایتی انداز میں منانے کی بجائے ہمیں اس کے مقاصد کو مدنظر رکھنا ہو گا ۔ان حالات کو دیکھنا ہو گا جن حالات سے گزر کر پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت لوگوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ پورے کے پورے خاندان اجڑ گئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کی قرنانیوں کے بعد پاکستان کا عمل وجود میں آیا ان قربانیوں کا کیا ثمر ملا آج پاکستان کی 70% آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے ۔ تقریبا70 سال گزرنے کے باوجود پاکستانی مختلف مسائل سے دوچار ہیں مہنگائی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معیشت کے ساتھ عام آدمی بھی متاثر ہو رہا ہے ۔ وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر میں قائداعظم محمد علی جناح مولانا ظفر علی خان ، سرسید احمد علی خاں اور کئی نامور شخصیات نے اپنی زندگی کے ماہ و سال اس جہدوجہد میں گزاری ۔ آج جو صورتحال ہے ذرا سوچئے کیا اس پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ آج کے اس دور میں معاشی ، معاشرتی اور کئی کئی طرح کے مسائل کی بھرمار ہے جہاں کے رہنے والے لوگوں کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ۔ سرکاری ہسپتال میں علاج معالجہ کا سب کو علم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اسی طرح تعلیم کا تناسب بہت کم ہے غریب آدمی نہ اپنا علاج کروا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے یہی حال صفائی کا ہے ہر طرف گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں ۔ہمیں بحیثیت قوم یہ چاہئے کہ ہم اکٹھے ہوں اور اس پاکستان کی تعمیروترقی وہ کام کریں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ۔ اور جسے تعمیر کی صورت محمد علی جناح نے دی تھی۔ ہمیں چاہئے ہم پنجاب ، سندھ، بلوچ اور پٹھان کے نعرے لگانا چھوڑیں اور یک جاں ہو کر ایک قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں ۔ ہمیں اپنے ملک کو ترقی کی منازل تک لے جانے کے لےے فرقہ واریت اور تعصبات کو چھوڑ کر صرف پاکستانی بننا ہو گا جب تک ہماری سوچ ایک نہیں ہو گی ہم ایک قوم بن کر نہیں ابھریں گے تب تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکے گا ۔ ہر سال 14اگست کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لےے آزادی کی نوید لے کے آتا ہے ہمیں اسی دن کی مناسبت سے عہد کرنا ہو گا کہ ملک کے تحفظ اور ترقی کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے یہی زندہ قوم کا شعار ہے۔
فیس بک کمینٹ