پاناما کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ بات زیادہ شدت سے محسوس کی گئی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ریاست کے پاور اسٹرکچر میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ 20 اپریل اور 28 جولائی کو پاناما کیس میں سامنے آنے والے فیصلوں میں سپریم کورٹ کے سیاسی رویہ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان فیصلوں کی قانونی حیثیت اور معیار پر مختلف حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے 28 جولائی کے فیصلہ اور اس کے نتیجے میں نواز شریف کے وزیر اعظم کے طور پر نااہل قرار دیئے جانے کے بعد یہ مطالبہ کیا جارہا تھاکہ آئین کی مختلف شقات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی واضح رائے سامنے آنا ضروری ہے۔ عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لئے آئین کی شق 62 کا سہارا لیا تھا ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ نواز شریف اپنے بیٹے کی کمپنی سے ایک خاص تنخواہ وصول کرنے کے حقدار تھے ۔ تاہم یہ تنخواہ وصول نہ کرنے کے باوجود یہ رقم ان کا اثاثہ شمار ہوگی ۔لیکن نواز شریف نے 2013 کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اس رقم کو اثاثہ ظاہر نہیں کیا ، لہذا وہ امین و صادق نہیں رہے۔ اور انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلہ کی نوعیت چونکہ سراسر سیاسی تھی، اس لئے اس پر قانونی سے زیادہ سیاسی رد عمل سامنے آیا۔ نواز شریف اور ان کے حامیوں نے اسے سازش قرار دیا جبکہ تحریک انصاف اور نواز شریف کے دیگر مخالفین نے اسے حق و انصاف کی فتح کہتے ہوئے ملک میں شفاف معاشرہ قائم ہونے کی نوید دینا شروع کردی تھی۔
اس صورت حال میں ملک میں قانونی ماہرین اور سیاسی تبصرہ نگاروں کا ایسا ایک گروہ بہر حال موجود تھا جس کے خیال میں یہ فیصلہ نہ تو قانون کے معیار پر پور ا اترتا ہے ، نہ انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ ملک کے کمزور اور مسلسل دباؤ کا شکار جمہوری نظام کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی سمجھا جارہا تھا کہ اس فیصلہ میں کسی نہ کسی طور سے فوج کے اداروں کا ہاتھ بھی تھا اور عدالت نے صرف قانونی میرٹ پر یہ فیصلہ نہیں لکھا۔ کیوں کہ کئی ماہ تک وزیر اعظم کی بدعنوانی کا چرچا کرنے اور اس پر نت نئے تبصرے کرنے ، اعتراضات اٹھانے اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے اس معاملہ کی تحقیقات کروانے کے بعد عدالت کو بہر حال اسی نتیجہ پر پہنچنا پڑا کہ یہ معاملات ٹرائل کورٹ میں ہی طے ہوسکتے ہیں جہاں ملزم کو تمام الزامات کا جواب دینے کا حق حاصل ہو اور وہ اپنے خلاف سامنے لائے جانے والے دلائل کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرسکے۔ لیکن اس کے ساتھ عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں دو ایسے حکم دیئے جن کا بظاہر مقدمہ کی نوعیت اور سامنے لائے گئے الزامات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں ایک کے تحت ملک کے منتخب وزیر اعظم کو بد عنوانی کے کسی الزام کی بجائے متحدہ عرب امارات کے اقامہ اور غیر وصول شدہ تنخواہ کے اثاثہ ہونے یانہ ہونے کی بنیا د پر نااہل قرار دیا گیا۔ اس غیر ضروری معاملہ میں قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت رکھنے والی پارٹی کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم کی نااہلی بہت سے لوگوں کے نزدیک قانونی فیصلہ کی بجائے ایک سیاسی اعلان نامہ تھا جو بہر حال سپریم کورٹ کا حق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اسی فیصلہ میں یہ حکم دیا گیا کہ احتساب بیورو نواز شریف اور ان کے بچوں کے علاوہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرے اور احتساب عدالت ان مقدمات کی سماعت ایک خاص مدت کے اندر پوری کرے۔ علاوہ ازیں حکم دیا گیا کہ سپریم کورٹ کا ایک جج اس عدالتی کارروائی کی نگرانی کرے گا۔
ایسے میں یہ سوال خاص طور سے سامنے آیا کہ سپریم کورٹ ایک شخص کے خلاف الزامات کی تحقیقات کروانے کے سوال پر اتنی بے چین کیوں ہے کہ وہ ملک کے مسلمہ اصولوں کو رد کرتے ہوئے خصوصی اقدامات کا حکم دے رہی ہے۔ اگر نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ایک خاص مدت میں سامنے آنا اہم ہے تو صرف ایک شخص یا خاندان کے لئے یہ ضابطہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس صورت میں تو سپریم کورٹ کو کرپشن کے تمام مقدمات کے لئے تین، چار یا چھ ماہ کی مدت میں فیصلے کرنے اورملزموں کو سزائیں دینے کا حکم دینا ہو گا۔ بصورت دیگر صرف ایک فرد کے خلاف ایسا امتیازی سلوک عدالت کی غیر جانبداری کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے مطالبہ کیا جارہاتھا کہ اس مقدمہ پر چونکہ پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور اس میں اہم قانونی اصول متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آئین کی بعض متنازعہ شقات کے حوالے سے اختلاف کو بھی ہمیشہ کے لئے حل کرنا ضروری ہے ، اس لئے وہ پاناما کیس کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لئے فل کورٹ تشکیل دیں جو ان امور پر حتمی رائے دے کر اس حوالے سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا خاتمہ کرے۔
تاہم یہ سارے مشورے چیف جسٹس کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور نہیں کرسکے ۔ انہوں نے 28 جولائی کے فیصلہ کے مطابق نیب مقدمات کی نگرانی کے لئے اسی بنچ کے ایک رکن جسٹس اعجاز الحسن کو مقرر کردیا اور جب شریف خاندان نے نظر ثانی کی اپیلیں دائر کیں تو ان کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دینے کی بجائے پہلے تین رکنی بنچ مقرر کیا لیکن بعد میں درخواست دہندگان کے اعتراض پر باقی ماندہ دونوں ججوں کو بھی بنچ میں شامل کرکے انہی پانچ ججوں کو نظر ثانی کا فریضہ سونپ دیا گیا جن کی نیت اور قوت فیصلہ کے بارے میں سوال اٹھائے جارہے تھے۔ اب اس مقدمہ کی سماعت کے دوران یوں لگا کہ نواز شریف کے وکیل تو اپنے مؤکل کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بنچ میں شامل پانچ فاضل جج حضرات اپنے تبصروں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہیں اور حقائق کی بنیاد پر ہی فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ججوں کے ایسے تبصرے بھی سامنے آئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ جیسے وہ مقررہ آئین و قانون کے تحت سب کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے ملک میں غریب اور امیر کی بنیاد پر قائم تقسیم کو ختم کرنے اور کوئی سماجی اور سیاسی انقلاب برپا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ ججوں کے ریمارکس جن کا اصولی طور پر مقدمہ کی نوعیت یا حتمی فیصلہ میں کوئی کردار نہیں ہو سکتا، دراصل رائے بنانے اور سیاسی افواہ سازی کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے ذہن میں اگر یہ خواہش موجود ہے کہ ملک کا ایک اہم ادارہ ہونے کی حیثیت سے سیاسی معاملات پر ان کا اثر بھی مرتب ہونا چاہئے۔ یا وہ بھی ماضی کے بعض جرنیلوں کی طرح یہ باور کرنے لگے ہیں کہ سیاستدان ملک کی تباہی کا سبب بنے ہیں لیکن وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کو ایک بار صحیح ڈگر پر چلاسکتے ہیں، تو اس سے زیادہ بد قسمتی کی کی کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ماضی میں فوج کے چار سربراہان نے ملک کا اقتدار سنبھالا اور اعلیٰ عدالتوں نے اصلاح احوال کے نام پر ان سب کی آئین شکنی کو ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن یہ چاروں فوجی حکمران اپنے اپنے طور ملک کے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بنے۔ اس لئے عدالتوں کے تمام تر احترام کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تباہ کاری میں جرنیلوں کے ساتھ وہ جج بھی شامل تھے جنہوں نے آئین سے بغاوتوں کو ’جائز یا ضروری‘ قرار دیتے ہوئے ان جرنیلوں کو سیاست کرنے کا حق دیا تھا۔ جس طرح فوج نے ابھی تک اپنے ان سابق سربراہوں کے خلاف نہ تو کوئی واضح رائے دی ہے اور نہ ان کے اقدامات کو مسترد کیا ہے جنہوں نے اپنے عہد اور ملک کے آئین سے غداری کی تھی۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ بھی ان تمام سابقہ ججوں کے خلاف کوئی رائے یا فیصلہ سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے جنہوں نے ملک میں آئین شکنی کو قبول کیا تھا۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ نہ تو کوئی جنرل طاقت کے زور پر آئین کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور نہ کوئی جج کسی غیر آئین اقدام کو ضروری قرار دے کر قبول کرنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ ماضی کے ان سانحات کی صورت میں ملک میں سول حکومتوں اور فوج کے درمیان مسلسل ایک تصادم اور مقابلہ بازی کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ یہی تصادم دراصل اس وقت ملک میں جمہوریت کے علاوہ اس کی سالمیت ، امن اور خوشحالی کے لئے بھی خطرہ بنا ہؤا ہے۔ ایسے حالات میں اگر سپریم کورٹ بطور ادارہ یا اس کے بعض جج حضرات اپنا سیاسی رول متعین کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ اس ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔
سپریم کورٹ نے صرف پاناما کیس میں ہی سیاست کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی سپریم کورٹ کے ججوں کا یہ سیاسی رویہ سامنے آرہا ہے۔ بصورت دیگر ملک کے دیگر سب لوگوں کی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی یہ پتہ ہونا چاہئے کہ انصاف کی فراہمی کے نام پر سپریم کورٹ کے وسائل کو سیاسی مقدمات پر صرف کرنے سے لکھوکھ ہا دوسرے لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ہزاروں مقدمات کی سال ہا سال تک سماعت نہیں ہو سکتی کیوں کہ عدالتوں کے پاس نہ جج ہوتے ہیں اور نہ ان کے پاس وقت ہوتا ہے کہ وہ سامنے آنے والے مقدمات کو نمٹا سکیں لیکن جب یہی جج سیاسی مقدمات میں غیر ضروری دلچسپی اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس طریقہ کار کے بار ے میں متنبہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح سیاسی مقدمات میں ججوں کے ریمارکس اور پھر میڈیا ٹاک شوز میں ان پر گھنٹوں بے سر و پا قیاس آرائیاں، ملک میں ہیجان اور بے چینی کی جس کیفیت کو جنم دیتی ہیں، اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ان سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج اور بطور خاص چیف جسٹس ریمارکس اور ان کی بنیاد پر بریکنگ نیوز، اور ان پر تبصروں و جائیزوں کی بنیاد پر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اس طریقہ کو ختم کرنے کے لئے اقدام کریں۔ یہ درست ہے کہ خبر جج نہیں بناتے لیکن وہ اس کی وجہ بن رہے ہیں ۔ اس لئے انہیں ایسی خبروں اور ان پر ہونے والے تبصروں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے نتائج سے بھی آگاہ ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ، ججوں کے ریمارکس کی تشہیر سے قابل احترام نہیں بنے گی۔ اس مقصد کے لئے یہ واضح کرنا ہو گا کہ سپریم کورٹ بھی فوج کی طرح کسی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کررہی۔ ورنہ اب تک جو لڑائی فوج اورسول حکومت کے درمیان تھی ، اس میں عدالت بھی شامل ہوگئی تو کوئی ادارہ بھی عوام کے اعتبار کے قابل نہیں رہے گا۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ