وز اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ فیصلے کرنے کا اختیار عوام کے پاس رہنا چاہئے۔ ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کے دور حکومت میں متعدد ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کو غیر معمولی اور تاریخی کامیابی بھی قرار دیا۔ وزیر اعظم نے یہ باتیں کراچی میں پورٹ قاسم میں ایک نئے ٹرمینل کے افتتاح کے موقع پر کی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی گفتگو سے پہلے کراچی میں ہی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملکی معیشت پر اظہار خیال کیا تھا۔ آرمی چیف نے ملکی معیشت کی رفتار پر اطمینان کا اظہار تو کیا تھا لیکن ساتھ ہی کہا تھا کہ ملک پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ ہے اور ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ ضروری ہے تاکہ ملک میں ترقی کی رفتار تیز ہوسکے اور آمدنی میں اضافہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی اور قومی معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ فوج نے ملک میں سیکورٹی کے حوالے سے اپنا کردار بخوبی ادا کیاہے ، اب باقی طبقوں کو معیشت کے احیا کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ باتیں کراچی میں معیشت کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کی تھیں۔ یوں تو آرمی چیف کی باتوں میں کچھ ایسا نہیں تھا جو روزانہ کسی نہ کسی صورت اخباروں میں شائع نہ ہوتا ہو یا ٹی وی ٹاک شوز کا حصہ نہ بنتا ہو ۔ اور نہ ہی معیشت کے بارے میں سیمینار پر گفتگو کے لئے بلائے ہوئے مہمان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کرکٹ میچ یا موسمی حالات پر تبصرہ کرے گا۔ تاہم ملک کے مخصوص سیاسی حالات اور پس منظر کی وجہ سے ان باتوں کو بے حد اہمیت دی گئی۔ مبصروں کا ایک گروہ اقتدار کے دریچوں میں فوجی بوٹوں کی دھمک سننے لگا اور دوسرے گروہ نے اس بات پر سوال اٹھانے شروع کئے کہ کیا اب فوج ملکی سلامتی کی مکمل ذمہ داری لینے کے بعد معیشت کے حوالے سے بھی رہنمائی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس پیچیدگی میں اس وقت مزید اضافہ ہؤا جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ کہہ دیا کہ ملک کی معاشی صورت حال اگر خراب نہیں ہے تو اطمینان بخش بھی نہیں ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنے ترجمان کے ذریعے یہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ فوج کے ترجمان کو ملکی معیشت پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیوں کہ غیر ذمہ دارانہ بیانات ملک کی شہرت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی حکومت نے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ تیار کیا ہے ۔ سیکورٹی اداروں کو بھی ملکی سلامتی کے لئے مناسب وسائل فراہم کئے جارہے ہیں۔
احسن اقبال کا یہ تبصرہ اس غصہ کا تسلسل دکھائی دیتا ہے جس کا اظہار انہوں نے 2 اکتوبر کو اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز کی اچانک تعیناتی کی وجہ سے کیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے رینجرز کو طلب نہیں کیا تھا اور مقامی رینجرز کمانڈر نے وزیر داخلہ سے ملاقات کرنے سے گریز کیا اور وزیروں سمیت مسلم لیگ کے اہم لیڈروں کو احتساب عدالت میں جانے سے روک دیا۔ بعد میں ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ بعض احکامات زبانی بھی دیئے جاتے ہیں ۔ اور یہ کہ اس بات کی تعریف ہونی چاہئے کہ رینجرز نے خوش اسلوبی سے اپنا فریضہ ادا کیا تھا۔ وزیر داخلہ نے اگرچہ اس واقعہ کو ریاست کے اندر ریاست کی صورت حال قرار دے کر اعلان کیا تھا کہ اگر اس بارے میں مناسب وضاحت سامنے نہ آئی تو وہ ایسی حالت میں اس عہدہ پر کام نہیں کریں گے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی وضاحت سے علاوہ رینجرز کی طرف سے ابھی تک وزارت داخلہ کے احتجاج کا کوئی جواب موصول نہیں ہؤا ہے۔ اس لئے احسن اقبال نے میجر جنرل آصف غفور کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے شاید ان کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیاسی حساب برابر کرنے کے لئے ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی احسن اقبال کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے افسروں سمیت اس ملک کے ہر شہری کو معیشت کے بارے میں اظہار خیال کرنے کا حق حاصل ہے۔ خورشید شاہ کے بیان سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تو شاید سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری ہوجائے لیکن یہ بیان بھی ملک کی مشکل سیاسی صورت حال، سول ملٹری تعلقات اور جمہوریت کو لاحق اندیشوں کے غیر معمولی موسم میں عوامی حاکمیت کے اصول کے لئے خطرناک رجحان کا اظہار ہے۔ سیاسی قوتوں کی باہمی رسی کشی ہی دراصل اس وقت ملک کے منتخب لیڈروں پر فوجی قیادت کی بالا دستی کی بنیاد ہے۔ معیشت اور سلامتی کے امور کو واقعی ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اس حوالے سے نقطہ نظر اور اختلاف رائے کا اظہار سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں تک محدود رکھا جائے تو یہ ملک کے نظام کے لئے بہتر ہوگا۔
یہ بات اپنی جگہ حیرت کا سبب ہے کہ احسن اقبال غیر ملکی دورہ کے دوران بھی ملکی معیشت کے حوالے سے فوجی افسروں کے اظہار خیال کو مسترد کرنا ضروری سمجھتے ہیں لیکن کل جوڈیشل کمپلیکس میں مسلم لیگ (ن) کے وکیلوں کی غنڈہ گردی کی مذمت کرنے سے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حالانکہ وزیر داخلہ کے طور پر معیشت احسن اقبال کا شعبہ نہیں ہے لیکن امن و مان کی صورت حال اور عدالتوں کا تحفظ ان کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال اس ساری صورت حال کو ملا کر دیکھ سکیں تو انہیں سمجھ آسکتی ہے کہ ملک میں جس جمہوریت کے تحفظ کی بات کی جارہی ہے ، اسے کہاں سے اور کیوں خطرات لاحق ہیں ۔ اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے
(بشکریہ: کارون ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ