شیخ رشید دلچسپ آدمی ہیں۔ ان کی باتیں چونکا دینے والی اور انکشافات بے سر و پا ہوتے ہیں لیکن وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنی خوش گفتاری اور پیش گوئیوں کے سبب میڈیا کو محبوب رہتے ہیں۔ لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے وزیر داخلہ کے طور پر بھی اپنی شگفتگی برقرار رکھی ہے۔ کچھ کہا بھی نہیں اور بہت کچھ کہنے کی کوشش بھی کی ۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ پہیلیاں بجھوانے کی بجائے دوٹوک سیاسی لائحہ عمل اختیار کرے۔
لاہور میں مولانا فضل الرحمان سمیت مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس اور اسلام آباد میں وزیر داخلہ شیخ رشید کی میڈیا سے بات چیت میں کہی گئی باتوں سے ملکی سیاسی منظر نامہ کی تصویر بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ گو کہ یہ تصویر واضح نہیں ہے اور نہ ہی یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی احتجاج، ضد اور ’میں نہ مانوں‘ کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ حکومت لاہور کے جلسہ کو تواتر سے ناکام قرار دینے کے باوجود اس حدت کو محسوس کررہی ہے جو اپوزیشن نے گزشتہ دو ماہ کے دوران 6 جلسوں سے پیدا کی ہے۔ ان میں سے نصف جلسے کورونا وائرس کے سبب لگائی گئی پابندیوں اور حکومت کے انکار کے باوجود کئے گئے ہیں۔ حکومت نے جلسوں پر پابندی لگائی لیکن ملتان میں جلسہ روکنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ۔ اب جلسوں میں سہولتیں فراہم کرنے والوں اور منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر بات ختم کی گئی ہے۔
شیخ رشید کی گفتگو کو حکومتی سوچ کا آئینہ سمجھا جائے تو یہ کہنا دشوار نہیں ہے کہ حکومت بالآخر یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ اپوزیشن پر کرپشن، غداری اور ملک دشمنی کے الزامات لگانا کافی نہیں ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی موجودہ صورت حال برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے حکومتی بیانات اس بات کی عکاسی کرتے رہے ہیں کہ عمران خان یا ان کی حکومت کو اپوزیشن کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپوزیشن ناکام جلسوں کے بعد خود ہی خاموش ہوجائے گی۔ اب انہی ناکام جلسوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد حکومت دفاعی پوزیشن میں بات چیت کی شدید خواہش کا اظہار کررہی ہے۔ شیخ رشید کا بیان ہےکہ ’اپوزیشن وزیر اعظم سے بات نہیں کرے گی تو کس سے کرے گی؟ وہ ہمیں بتائیں، ہم اس کا انتظام بھی کردیتے ہیں‘۔
پریس کانفرنس میں شیخ رشید نے مذاکرات کے تمام آپشن کھلے رکھنے کی بات کی ہے لیکن ساتھ ہی این آر او نہ دینے اور نیب کے معاملہ پر بات نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ انہوں نے یہ پیغام پہنچایا کہ ’وزیر اعظم نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں یہ بات پریس کانفرنس میں کہوں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب میں نکل سکتا ہے، میں اقتدار میں رہوں یا نہ رہوں لیکن این آر او نہیں دوں گا‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے دو آپشن دیے ہیں۔ ایک اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اور دوسرے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ جلد از جلد استعفے دیں ، ہمیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ باقی اسلام آباد ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا ہمارا ہے۔ وہ خوشی سے آئیں۔ ہم آئین و قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔ شیخ رشید کے بقول وہ صرف یہی دو باتیں کہنے کے مجاز تھے۔
وزیر داخلہ کی گفتگو اور لب و لہجہ سے حکومت کی پریشانی کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ حکومت کی یہ مشکل نہیں ہے کہ اپوزیشن لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کردے گی بلکہ اس کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کے ساتھ مواصلت کا کوئی سلسلہ شروع نہیں ہوتا تو حکمران جماعت کی کارکردگی متاثر ہوگی، ملکی معیشت سست رو ہوگی اور سرمایہ کاروں کا ملک پر اعتبار ختم ہوگا۔ اس کے علاوہ عالمی مراکز میں پاکستانی جمہوریت کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔ فی الوقت امریکہ صدر ٹرمپ کی ہٹ دھرمی اور امریکی انتخابی نظام کو چوپٹ کرنے کی کوششوں کی وجہ سے خود ہی مشکل کا شکا رہے۔ لیکن آئیندہ سال 20 جنوری کو جو بائیڈن امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھالیں گے۔ اس طرح وہائٹ ہاؤس میں ایسا صدر موجود نہیں رہے گا جو ’امریکہ فرسٹ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا بنیادی جمہوری اصولوں سے انحراف میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا تھا۔
پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے لئے یہ ایک تبدیل شدہ صورت حال ہوگی جو صدر ٹرمپ کو راضی کرکے اپنے ملکوں میں بنیادی حقوق اور جمہوری روایات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اس دوران افغان مذاکرات میں مناسب پیش رفت نہ ہوئی اور طالبان اسلامی ریاست کی ضد پر قائم رہے تو اس حوالے سے پاکستان کو حاصل ہونے والی سفارتی اہمیت بھی کم ہوگی۔ کورونا وائرس نے اگر دنیا کو بحران کا شکار کیا ہے تو جی ۔20، اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک کو معاشی سہولت بھی حاصل ہوئی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں کورونا ویکسین دینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ 2021 کے دوران دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ مالدار ممالک کی کافی بڑی آبادی کو ویکسین کے ذریعے محفوظ بنالیا جائے گا۔ اس طرح کورونا کی وجہ سے معاشی، سیاسی و سفارتی معاملات میں پیدا ہونے والا خلا بھی دور ہوجائے گا اور بین الملکی تعلقات پھر سے پرانی ڈگر پر واپس آجائیں گے۔ پاکستان کے لئے یہ صورت حال نئے چیلنج لے کر آئے گی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے غیر واضح اور کسی حد تک سرد مہری پر مبنی تعلقات میں اگر کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے کی کوشش نہ کی گئی تو پاکستان کی معیشت کو سنگین صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے۔ زرعی پیدا وار میں کمی، بیروزگاری میں اضافہ اور سی پیک منصوبہ میں پیدا کی گئی بے یقینی ان مسائل کو سنگین اور تکلیف دہ بنا سکتی ہے۔
یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے کہ اگر حکومت یا اس کی سرپرستی کرنے والی طاقتوں نے ملکی سیاسی صورت حال کو بہتر کرنے، نام نہاد جمہوری نظام کو ’فعال ‘ بنانے اور احتجاج یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی صورت حال کو ختم نہ کیا تو اس کے معیشت پر براہ راست اور عالمی تعلقات پر بالواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک ایسا ملک جو زر مبادلہ کے ذخائر کا حجم برقرار رکھنے کے لئے بھی تارکین وطن کی ترسیلات کا محتاج ہو، ان مشکلات کا آسانی سے سامنا نہیں کرسکتا۔ حکومت کے اپنے بیانیہ کے مطابق پاکستان کو ایک طرف دہشت گردی میں اضافہ، بھارت کی تخریب کاری یا کسی جعلی حملہ کی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ دوسری طرف 11 پارٹیوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد براہ راست عسکری طاقتوں پر سیاسی مداخلت اور ملکی آئینی سیاسی انتظام کو تباہ کرنے کا الزام عائد کررہا ہے۔ یہ باتیں صرف بیانات یا اپوزیشن لیڈروں کی سیاسی بدحواسی تک محدود نہیں ہیں بلکہ پاکستانی عوام کے بڑے طبقے میں یہ احساس قوت پکڑ رہا ہے کہ ملک میں غیر جمہوری ادارے آئینی انتظام کو کنٹرول کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور عوام اپنے نمائیدوں کے ذریعے امور مملکت میں حصہ دار نہیں بن پاتے۔
اس احساس کو میڈیا پر کنٹرول کے بعد سوشل میڈیا پر رکاوٹیں عائد کرکے اور ایک خاص طرح کا بیانہ عام کرنے کی کوششوں کے ذریعے راسخ کیا گیا ہے۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات پر نت نئی پابندیاں عائد ہیں اور نجی چینلز کو سرکاری ترجمان کی حیثیت دے دی گئی ہے تو دوسری طرف یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر حکومتی اور ادارہ جاتی سرپرستی میں چلائی گئی مہمات کے ذریعے سیاسی لیڈروں کی کردار کشی کے علاوہ ملک میں سماجی و سیاسی سطح پر اختلاف رائے اور مباحث کا سلسلہ محدود کیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر ’ففتھ جنریشن یا ہائیبرڈ وار‘ کے نام پر کی جانے والی کوششوں نے پوری کردی ہے۔ ان کوششوں سے شاید دشمن کو بھی زک پہنچائی جاتی ہوگی لیکن پاکستانی عوام کی آزادانہ خیال آرائی پر قدغن کا طریقہ ملک میں شدید گھٹن، بے چینی اور بیزاری پیدا کرنے کا سبب بنا ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان جمہوری اتحاد کے لیڈروں نے آج لاہور جلسہ کی کوریج کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے کردار کی مذمت کی ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کا الزام ہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے الیکٹرانک میڈیا پر جلسے کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مختلف اینکرز کو دھمکایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم میڈیا کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن حکمران اور آمرانہ ذہنیت کے لوگ میڈیا کو جانبدار اور گھر کی لونڈی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سازش کو ناکام بنانا ہے‘۔ یعنی ایک طرف ملکی اپوزیشن سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی غیر آئینی مداخلت کے خلاف احتجاج کررہی ہے تو اس تحریک کے دوران بھی عسکری ادارے غیر جانبداری اور متوازن رویہ کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں پر چوری اور لوٹ مار کے الزامات عائد کرکے یا جلسوں کا ناکام قرار دے کر بالادست اداروں کے غیر جمہوری رویوں کی دلیل فراہم نہیں کی جاسکتی۔ یہ طریقے قومی اداروں پر عام اعتماد کو کمزور کریں گے۔ یہ بد اعتمادی کسی حکومت کے خلاف سیاسی احتجاج سے زیادہ خطرناک ہے۔
اپوزیشن نے جنوری کے آخر تک حکومت کو مستعفی ہونے کا نوٹس دیا ہے تو وزیر داخلہ نے اعلیٰ سطح پر مذاکر ات کی بات کی ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان فاصلہ اسی وقت کم ہوگا اگر حکومتی نمائیندے زہر آلود اور اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں گے۔ اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ملک کے موجودہ بحران میں سیاسی حکومت کا مستقبل ہی داؤ پر نہیں ہے بلکہ یہ اصول زیر بحث ہے کہ کیا ملکی فوج آئین کے تابع فرمان ہے یا اسے اپنی ضرورتوں اور نظریات کے مطابق استعمال کرنے پر اصرار کر تی ہے۔ نواز شریف نے بجا طور سے استفسار کیا ہے کہ ’ جب میں نام لیتا ہوں تو اعتراض ہوتا ہے کہ نام کیوں لیتے ہو۔ یہ تو میرے سوال کا جواب نہیں ہے‘۔
آئین شکنی کے براہ راست الزامات پر ملکی فوجی قیادت کی خاموشی کے بعد آئی ایس پی آر کے ذریعے میڈیا کو دبانے کا طریقہ موجودہ سیاسی لڑائی میں فوج کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ یہ صورت حال عسکری اداروں کی شہرت اور قومی سلامتی کے لئے ان کے کردار کے حوالے سے تشویش کا سبب ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ