زمباے کے 93 سالہ صدر رابرٹ موگابےنے 37 سال صدر رہنے کے بعد بالآخر استعفی دینے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد دارالحکومت ہرارے کی سڑکوں پر پر جوش نوجوانوں اور شہریوں نے جشن مناکر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی طرف سے انتخابی قانون میں ایک ترمیم کرنے کی کوشش ناکام بنا دی ہے جس کے بعد میاں نواز شریف بدستور مسلم لیگ (ن) کی صدارت پر فائز رہ سکیں گے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے فیصلہ کے بعد متعلقہ انتخابی قوانین کے تحت نواز شریف اپنی ہی پارٹی کی سربراہی سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ رابرٹ موگابے اپنے ملک کی تحریک آزادی کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں سفید فام اقلیتی اکثریت کے خلاف جد و جہد کی تھی۔ اور زمبابوے کی آزادی میں ایک انقلابی رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد وہ اس انقلاب کے ثمرات عوام تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
رابرٹ موگابے اگرچہ آزادی کے ہیرو کے طور پر برسر اقتدار آئے تھے لیکن جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا کے برعکس انہوں نے اقتدار سے چمٹے رہنے کو ترجیح دی۔ ان کے دور میں عوام کا معیار زندگی کم ہؤا اور 1980 میں ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے زمبابوے میں غربت کی شرح میں پندہ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ موگابے نے برسر اقتدار رہنے کے لئے ملک کی اشرافیہ کو ساتھ ملانے اور قومی وسائل کا ناجائز استعمال کرنے کے علاوہ عوام کی آواز دبانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ اختیار کیا۔ اس طرز عمل کی وجہ سے دنیا بھر میں زمبابوے کو مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن موگابے نے صدارت چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اس طرح ملک میں گھٹن، تصادم اور محرومی کی فضا میں اضافہ ہؤا۔ تاہم موجودہ بحران کا آغاز ہفتہ عشرہ قبل اس وقت ہؤا جب اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اپنی اہلیہ کو اپنے جانشین کے طور پر سامنے لانے کے لئے موگابے نے اپنے دیرینہ ساتھی اور ملک کے نائب صدر منن گاوے کو عہدے سے برطرف کردیا۔ اس طرح انہیں اپنی ہی پارٹی زانو پی ایف کی قیادت کی مخالفت کے علاوہ فوج کی ناراضی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فوج نے چند روز قبل اقتدار سنبھالتے ہوئے رابرٹ موگابے کو عبوری حراست میں لے لیا تھا۔
فوج کی مداخلت کے بعد زانو پی ایف نے بھی پارٹی کانگرس میں موگابے کو پارٹی کی صدارت سے برطرف کرکے منن گاوے کو پارٹی لیڈر منتخب کرلیا تھا۔ اس کے باوجود موگابے مستعفی ہونے سے انکار کرتے رہے۔ تاہم فوج کے دباؤ اور پارٹی کی بغاوت کے بعد ان کے لئے بچاؤ کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی۔ ان حالات میں انہوں نے اپنے اور اپنی بیوی گریس کے لئے عام معافی کے علاوہ متعد دوسری ذاتی شرائط منوانے کے بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ زمبابوے کی اسمبلی کے اسپیکر جیکب منڈیڈا نے اس کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ موگابے کے خلاف مواخذہ کی تحریک بھی واپس لے لی گئی ہے۔اس طرح زمبابوے کی تاریخ کا ایک ایسا باب اپنے اختتام کو پہنچا ہے جس کے کئی روشن پہلو بھی ہیں لیکن رابرٹ موگابے کی ضد، بد عنوانی، بد انتظامی ، لالچ اور ظلم کی وجہ سے اس عہد کو دکھ اور صدمے سے بھی یاد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مثبت قرار دی جائے گی کہ گو کہ فوج نے ایک منتخب صدر کے استعفیٰ کے لئے مداخلت کی لیکن بالآخر سیاسی جماعت اور اداروں نے مل کر اس بحران سے نکلنے کا آئینی راستہ تلاش کرلیا۔
پاکستان کی صورت حال بھی سیاسی لحاظ سے زمبابوے سے مختلف نہیں ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ پاکستان کے لئے ہرارے میں رونما ہونے والے واقعات سے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں۔ تاہم اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ملک کے سیاست دان اور دیگر طاقتور حلقے یہ تسلیم کریں کہ بحران، اختلاف اور مشکل صورت حال میں ملک کو ہمیشہ اولیت حاصل ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ بحران پر قابو پانے کے لئے مفاہمت، عفو اور آگے بڑھنے کے جذبہ سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے پاکستان بھی ایک سیاسی بحران کا سامنا کررہا ہے۔ اس میں نہ تو نواز شریف سیاست چھوڑنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی ان کے مخالفین انہیں معاف کرنے اور مل جل کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
عدالتی فیصلہ کو ناکام بنانے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مل کر اس انتخابی قانون میں ترمیم کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس کے تحت کوئی نااہل شخص کسی سیاسی پارٹی کی قیادت نہیں کرسکتا۔ ۔ سینیٹ میں اگرچہ حکمران جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہے لیکن اپوزیشن کی بے خبری اور تساہل کا فائدہ اٹھا کر حکومت نے وہاں سے بھی ترمیمی قانون منظور کروالیا تھا۔ بعد میں اپوزیشن نے اپنی عددی برتری کی بنیاد پر سینیٹ سے ایک ترمیم منظور کروائی تاکہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نکلوانے کا اہتمام کیا جاسکے۔ تاہم اس کامیابی کے باوجود مشترکہ اپوزیشن قومی اسمبلی میں اس ترمیم کو منظور نہ کروا سکی جہاں مسلم لیگ (ن) کو واضح اکثریت حاصل ہے۔
زمبابوے کے تجربہ کے بعد پاکستان مین سیاسی دھینگا مشتی میں ملوث سب عناصر کو سوچنا چاہئے کہ ملک و قوم کا فائدہ اس بحران سے نکلنے میں ہے یا ایک دوسرے کو الزام دیتے ہوئے باہمی چپقلش کو جاری رکھ کر کوئی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نواز شریف کو یہ سوچنا ہوگا کہ انہوں نے طویل عرصہ تک سیاسی زندگی گزاری ہے اور وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق ملک و قوم کی جو خدمت کرسکتے تھے، وہ کرچکے۔ اب انہیں خود ہی سیاست سے علیحدہ ہو کر آئیندہ نسل کو خود اپنے فیصلے کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ اسی طرح نواز شریف کے سب مخالفین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے شخص کو دیوار سے لگانے اور بدعنوان ثابت کرکے ملک کا بھلا کرسکتے ہیں یا ایسے موقع پر معاف کردینے اور پیچھے کی بجائے آگے کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہوگی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ