مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوششیں بند نہ ہوئیں اور اپنے لاڈلوں کو انتخاب میں جتوانے کے لئے ناجائز ہتھکنڈے جاری رکھے گئے تو وہ بھی رازوں سے پردہ اٹھا دیں گے اور بتائیں گے کہ گزشتہ چار برس کے دوران اسلام آباد میں کیا ہوتا رہا ہے۔ سعودی عرب سے واپسی پر اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پروپیگنڈا کا سلسلہ بند نہ ہوا اور انتخابی عمل کو ذاتی رائے کی بنیاد پر تبدیل کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں تو وہ بھی تمام شواہد کے ساتھ اندر کی ساری کہانی بتا دیں گے۔ سابق وزیر اعظم نے البتہ سعودی عرب کے دورہ کے بارے میں کوئی ’راز‘ کی بات بتانے کی زحمت نہیں کی اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ وہ اور ان کے چھوٹے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اچانک کیوں سعودی عرب کے دورہ پر گئے تھے۔ نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔
پاکستان میں اس دورہ کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں۔ یہ باتیں سامنے آتی رہی ہیں کہ نواز شریف کو اس وقت پاکستان میں جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ ان سے نجات پانے کے لئے سعودی حکمرانوں کی مدد لینے گئے تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں سعودی مداخلت کی وجہ سے ہی نواز شریف جیل سے نجات پا کر اپنے اہل خاندان سمیت سعودی عرب میں پناہ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی لئے اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ میڈیا میں یہ کہا جارہا تھا کہ نواز شریف کسی این آر او کی تلاش میں سعودی عرب گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان نے البتہ ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف پارٹی لیڈر کے طور پر سعودی حکام سے پاکستان کے بارے میں بات چیت کرنے گئے تھے۔ لیکن ان کے ترجمان یا اب خود نواز شریف نے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ سعودی عرب سے پاکستان کے لئے ایسی کون سی سہولت حاصل کرنے گئے تھے جو مرکز میں قائم ان کی حکومت کو فراہم نہیں ہو سکتی تھی۔ اور ریاستوں کے تعلقات میں انفرادی تعلقات کیوں اہم ہو گئے ہیں۔ البتہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ بھی راز ہائے دروں خانہ کا پردہ فاش کردیں گے۔
نواز شریف نے امریکہ کی دھمکیوں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ پیغام کے تناظر میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کہ ’ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ بے شمار قربانیوں کے باوجود دنیا ہمارا احترام کیوں نہیں کرتی۔ لیکن میری باتوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ کبھی اسے ڈان لیکس کی شکل دے دی گئی اور کبھی سازشوں سے اس کی تعبیر کی گئی ‘۔ انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس سوال کا جواب تلاش کریں کی دنیا کیوں ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ آخر ہم سے کون سا جرم سرزد ہؤا ہے کہ سترہ برس کی قربانیوں اور جد و جہد کے باوجود ہمارا بیانیہ قبول نہیں کیا جاتا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی بجائے ان سے گریز کی حکمت عملی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگی۔ اب ہمیں اس سراب سے باہر نکلنے اور ریاست کے تمام اداروں اور قیادت کو مل کر ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے اور ملک کا وقار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف نے وہی سوال اٹھائے ہیں جو ملک کے متعدد ہوش مند طبقے عرصہ دراز سے سامنے لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن درپردہ حکمت عملی کو ’خفیہ‘ رکھنے اور عوام کو اعتماد میں نہ لینے کا سلسلہ ان ادوار میں بھی جاری رہا ہے جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے۔ اب بھی وہ بطور وزیر اعظم حاصل ہونے والے تجربات اور رازوں کو فاش کرنے کی دھمکی دے کر خود اپنے لئے’ سیاسی سپیس‘ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے باختیار اداروں نے انہیں بطور وزیر اعظم کام کرنے نہیں دیا اور پارلیمنٹ دراصل محض دکھاوا ہے اور حقیقی فیصلے کہیں اور ہوتے رہے ہیں، تو سب سے پہلے تو انہیں قائد ایوان کے طور پر اس گھناؤنے فعل کا حصہ بننے پر عوام سے معافی مانگنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ وہ وزیر اعظم کے طور پر کیوں قومی اسمبلی میں جا کر یہ اہم سوال اٹھانے میں ناکام رہے۔ عوام کے منتخب نمائیندے کے طور پر ان کا فرض تھا کہ اگر وہ حق نمائیندگی ادا کرنے اور عوام کی خواہشات اور ملک کی ضروریات کے مطابق فرائض انجام دینے میں ناکام رہے تھے تو وہ عوام کو اس سے آگاہ کرتے۔
وہ کون سے راز ہیں جن کا بوجھ اٹھائے نواز شریف اشاروں کنا یوں میں فوج کو دھمکی دینے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ ضمانت حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اس سال ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی کو مفلوج کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کیا یہی رویہ اس ملک میں سیاستدانوں کی ہزیمت، جمہوریت کی ناکامی اور فوجی اداروں کی سرفرازی کا سبب نہیں بنا ہے۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ ذاتی اقتدار کے لئے سودے بازی کی ہے اور اسے جمہوری تسلسل کے لئے ’مفاہمت ‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن جب یہ ’مفاہمت‘ کسی دوسرے سیاسی گروہ کے ساتھ کی جانے لگی تو اسٹیبلشمنٹ یا خفیہ ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی مظلومیت کا راگ الاپا جانے لگا۔ اسی لئے عسکری ادارے ملک کی سیاست میں من مانی کرنے میں کامیاب رہے ہیں کیوں کہ سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور اپنی باری لینے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے اور کسی کا بھی آلہ کار بننے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے اور سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود اگر آج بھی نواز شریف کو ’سہولت‘ حاصل کرنے کے لئے غرانے اور دھمکانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ نواز شریف سمیت ملک کے تمام سیاست دان جمہوریت کا نام لینے اور اس کے ثمرات سمیٹنے کے باوجود اس کو بطور نظام قبول کرنے اور نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ