کم سن بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے الزام میں گرفتار عمران کے متعدد بنک اکاؤنٹس اور بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث بین الاقوامی گروہ کے ساتھ تعلق کے بارے میں سنسی خیز مباحث کا سلسلہ جاری رہا۔ اب اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے عمران کا کوئی بنک اکاؤنٹ موجود ہونے کی تردید کر دی ہے۔ ملک کے جانے پہچانے اینکر اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے ٹیلی ویژن ٹاک شو میں الزام لگایا تھا کہ پنجاب حکومت جان بوجھ کر ملزم کی اصل شناخت اور حقائق سامنے لانے سے گریز کررہی ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ایک وفاقی وزیر اور ملک کی ایک نہایت اہم شخصیت بھی اس مجرمانہ سرگرمی کی سرپرستی کررہی ہے۔ ان سنسنی خیز انکشافات کے بعد ایک طرف ملک بھر میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے سو موٹو کے ذریعے اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کا حکم دیا۔
اب اسٹیٹ بنک نے واضح کیا ہے کہ ملزم عمران کا ایک ایزی پیسہ اکاؤنٹ ضرور ہے جس میں 120 روپے موجود ہیں لیکن اس کا کسی دوسرے بنک میں لوکل یا فارن کرنسی میں کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے۔ یہ وضاحت کے سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ انہوں نے تو ایک رپورٹ دی تھی اور رپورٹنگ میں غلطی بھی ہو جاتی ہے ۔ تحقیقات کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ یہ توسرکاری اداروں کا کام ہے۔ البتہ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جمعرات کو سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران انہوں نے اس معاملہ میں ملوث اہم شخصیات کے نام لکھ کر چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے کئے تھے جنہوں نے اس معاملہ کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے صحافی سے کہا تھا کہ اگر یہ معلومات درست نہ ہوئیں تو یہ اچھا نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس معاملہ کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے دو بار ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کیا لیکن انہوں نے تحقیقاتی ٹیم کو اپنا مؤقف بتانے سے گریز کیا ۔ اگرچہ اب ملزم عمران کی مالی حیثیت اور اس کے درپردہ تعلقات کے حوالے سے معلومات کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے لیکن اس بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا۔ ملک میں یہ خبریں اب زیادہ شدت سے گردش کریں گی کہ زینب کا قتل کسی عالمی جرائم پیشہ گروہ کا کارنامہ ہے یا بچوں کو اغوا کرکے دراصل بعض حرص پرست غیر ملکیوں کی تسکین کا اہتمام کیا جاتا ہے۔سپریم کورٹ اب اس معاملہ پر دوبارہ غور کرے گی اور تب یہ دیکھا جائے گا کہ ایک انتہائی حساس معاملہ میں غیر ذمہ داری سے ’خبر‘ فراہم کرکے، اس پر سنگین الزامات سے بھرپور تبصرہ کرنے والے اینکر کی کوتاہی کے بارے میں عدالت کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ پر اہم ہو گی کہ کیا ایک فرد کی غلطی، حماقت، غیر ذمہ داری یا لالچ کی وجہ سے ملک میں آزادی رائے اور خود مختاری سے معلومات فراہم کرنے اور تبصرہ کرنے کی آزادی کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کوئی بھی اقدام ملک میں مشکلات کا شکار جمہوری نظام اور انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے انتہائی افسوسناک ہوگا۔ یہ بات بہت بار کہی جا چکی ہے لیکن اسے مسلسل کہتے رہنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں آزادی اظہار کو یقینی بنانے کی بنیادی ذمہ داری خود صحافیوں اور ان کی تنظیموں پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک ملک کے صحافتی ادارے اتنے طاقتور اور مؤثر نہیں ہوتے کہ وہ اپنی صفوں میں شامل ’کالی بھیڑوں ‘ کی نشاندہی کر کے اپنے مقدس پیشے کو ان سے پاک کر سکیں، اس وقت تک صحافت بھی بدنام رہے گی اور جمہوریت کے لئے بھی اندیشے لاحق رہیں گے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنی خبر سے انحراف کرتے ہوئے جو مؤقف اختیار کیا ہے، وہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ ہے۔ کوئی بھی ذمہ دار صحافی خبر دینے سے پہلے اس کی کئی ذرائع سے تصدیق کرتا ہے۔شاہد مسعود واقعی اگر درست خبر فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے تووہ آسانی سے اسٹیٹ بنک سے ان اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے تھے جن کا حوالہ دے کر وہ بین الاقوامی سازش اور حکومت کی بدعنوانی کا سراغ لگانے کے مشن پر گامزن ہوئے تھے۔ تاہم اس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا کوئی قصور نہیں۔ وہ کئی اداروں کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں اور اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ہر جگہ سے علیحدہ ہونا پڑا۔ لیکن میڈیا ہاؤسز میں سب سے پہلے کے نام پر سنسنی پھیلانے کا جو مقابلہ شروع ہو چکا ہے، اس کی وجہ سے کوئی نہ کوئی نیا چینل ایسے اینکر کو موقع دینے پر تیار ہوجاتا ہے جو افواہ سازی اور الزام تراشی میں یکتا ہو تاکہ ان کے کمرشل مفادات کا تحفظ ہوتا رہے۔ اس طرح یہ صرف عدالتوں یا صحافتی تنظیموں کی ہی ذمہ داری نہیں کہ وہ ایسے عناصر کی روک تھام کریں بلکہ میڈیا ہاؤسز کے تاجر مالکان کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کب تک جھوٹ کو قابل فروخت جنس کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا دھندہ کرتے رہیں گے۔
ملک میں ٹاک شوز کے ذریعے پھیلائے جانے والے ہیجان کے بارے میں رائے مستحکم ہو رہی ہے۔ لیکن اس مخالفانہ رائے کو آزادی رائے یا خودمختارانہ صحافت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوئی بھی کوشش افسوسناک ہوگی۔ اسی لئے معاشرہ کے سب طبقوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ زینب قتل کیس میں یہ مزاج زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ اس معاملہ کے انسانی پہلو کو اجاگر کرنے کے نام پر اسے کمرشل اور سیاسی بنیادوں پر بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی ’خبر‘ کے غلط ثابت ہونے کے بعد وزیر داخلہ اقبال احسن کا یہ بیان بھی زینب کیس کی شہرت سے سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کی کوشش ہے کہ ’یہ خبر ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور الیکشن کے سال میں انتشار پیدا کرنے کے لئے دی گئی تھی اور یہ کہ غلط معلومات پھیلانے میں غیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں‘ ۔ اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کا طرز عمل ایک ذمہ دار صحافی اور شہری کے طور پر غیر معیاری تھا تو وزیر داخلہ کا بیان بھی اسی معیار پر پورا اترتا ہے۔ شاہد مسعود نے ملزم عمران کے بنک اکاؤنٹس تلاش کر کے غیر ملکی سازش کا سراغ لگایا تھا اور وزیر داخلہ زینب کیس میں حکومت کی کوتاہیوں کی ہمہ قسم نشاندہی کو غیر ملکی سازش قرار دے رہے ہیں۔
ان رویوں کو ترک کئے بغیر پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور صحافت کے اعتبار کی بات کرنا محال ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ