فیصل آباد میں پاکستان جمہوری تحریک کے جلسہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اپوزیشن بحران میں پھنسی حکومت کو کوئی ریلیف دینے پر تیار نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملہ پر فوج کے ساتھ اختلاف کو طول دینے کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دس سے بارہ روپے فی لیٹر اضافہ نے حکومت کی پوزیشن کمزور کی ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ عالمی منڈیوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگیا تھا۔
پیٹرول کی قیمت میں اضافہ سے عمومی مہنگائی بڑھتی ہے کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر شعبہ زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ ملک میں سیاسی بحر ان کی شدت سب سے پہلے معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سرمایہ دار ایسے معاشرہ سے دور بھاگتا ہے اور چلتی ہوئی صنعتیں اور کاروبار بھی بے یقینی کی وجہ سے پیداواری اہداف پورے کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے شروع سے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ تصادم اور دشمنی کا رشتہ استوار کیاتھا۔ کسی بھی موقع پر مفاہمت یا لچک دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ عمران خان پورے اعتماد سے قوم کو بتاتے رہے ہیں کہ سابقہ سب حکمران چور لٹیرے تھے اور ایک ایماندار وزیر اعظم کسی صورت ان سے نہ تو مصافحہ کرسکتا ہے اور نہ انہیں قومی معاملات میں انہیں ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ اس میں قباحت صرف یہ ہے کہ نہ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل ہے اور نہ ہی ملک کا پارلیمانی نظام پارلیمان میں عوام کی نمائیندگی کرنے والی سب جماعتوں اور افراد کو یکسرنظر انداز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان گزشتہ تین برس کے دوران اپوزیشن لیڈروں کو صلواتیں سناتے ہوئے پارلیمنٹ میں مفاہمانہ ماحول پیدا کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
اپوزیشن نے پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے اتحاد قائم کرکے حکومت کے لئے مشکل پیدا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی اور نواز شریف نے براہ راست فوجی قیادت کو للکار تے ہوئے ایک ایسا ماحول پیدا کردیاتھا جس میں تمام مسائل کی جڑ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کو قرار دیا گیا۔ اور موجودہ حکومت کو ’نامزد‘ اور اسٹبلشمنٹ کی چہیتی قرار دیاجانے لگا تھا۔ ایسے میں البتہ پی ڈی ایم کے اندر ہی لائحہ عمل کا اختلاف پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں دو اہم پارٹیوں نے جمہوری تحریک کے نام سے بننے والے اتحاد سے نکل کر عمران خان کی حکومت کو چیلنج کرنے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن میں اسی داخلی عدم اتفاق اور بداعتمادی کی وجہ سے انتشار پیدا ہؤا اور اس کے اثرات سینیٹ کے انتخابات اور چئیر مین سینیٹ چننے کے معاملہ میں بھی دیکھنے میں آئے۔ صادق سنجرانی کو بظاہر اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تصادم نے ایسا ماحول پیدا کردیاکہ وہ آسانی سے دوبارہ چئیرمین سینیٹ منتخب ہوگئے۔ ان سب حالات نے عمران خان کے اعتماد میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔ انہیں نہ صرف موجودہ پارلیمانی مدت پوری کرنے کا یقین تھا بلکہ وہ یہ خواب بھی دیکھنے لگے تھے کہ 2023 کے انتخابات میں بھی انہی کی پارٹی کامیاب ہوگی اور اہم اپوزیشن پارٹیوں کو علاقائی جماعتوں میں تبدیل کرکے ملک پر تحریک انصاف کی گرفت مضبوط کردی جائے گی۔
عمران خان یہ خواب دیکھنے میں اکیلے نہیں تھے۔ انہیں اس معاملہ میں اسٹبلشمنٹ کے طاقت ور لوگوں کی تائد بھی حاصل تھی۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران سامنے آنے والی سیاسی پیش ر فت میں یہ قیاس کرنا مشکل نہیں تھا کہ اسٹبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تحریک انصاف کی پشت پر کھڑی ہے۔ یہ تائد محض آئینی ضرورت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کے مقابلے میں تحریک انصاف کو بہتر متبادل سمجھا جاتا رہا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی اصل طاقت عوامی اپیل کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کی غیر مشروط تائد و حمایت رہی ہے۔ ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کے باوجود عمران خان کو کسی حد تک یہ اعتماد رہا کہ فوج ان کی پشت پر ہے اور وہ آئیندہ انتخاب بھی آسانی سے جیت جائیں گے۔ تاہم ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملہ پر تعطل کے بعد یہ تاثر کمزور ہؤا ہے۔
البتہ یہ قیاس کرلینا درست نہیں ہوگا کہ صرف آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری ہی عمران خان اور فوج کے درمیان بداعتمادی کی بنیاد ہے۔ اگرچہ اس معاملہ کو عوامی مباحث کا حصہ بنا کر اور بات کھل جانے کے بعد اسے طے کرنے کی بجائے ، طول دے کر یقیناً اس تقرری کو بظاہر ریاست کے دو اہم اداروں کے درمیان تصادم کے طور پر پیش کرکے حکومت نے کسی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ وزیر اعظم کے قریبی رفقا نے اس معاملہ پر بیان بازی سے صورت حال کو پیچیدہ اور مشکل بنایا ہے۔ اب یہ بات سامنے آچکی ہے کہ 6 اکتوبر کو آئی ایس پی آر کی طرف سے فوجی جنرلوں کی تقرریوں کا اعلان اچانک سامنے نہیں آیا تھا بلکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کئی ماہ سے عمران خان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی سے تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ عمران خان چونکہ انہیں بدستور اس عہدہ پر متمکن دیکھنا چاہتے تھے لہذا وہ ہر بار اس بات کو ٹال دیتے۔ وزیر اعظم نے چونکہ اس تبادلہ سے صاف انکار نہیں کیا تھا ، اس لئے فوجی قیادت نے اسے ’ہاں‘ سمجھتے ہوئے تبادلوں و تقرریوں کا اعلان کردیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے لئے وزیر اعظم کی باقاعدہ رسمی اجازت حاصل نہیں کی گئی۔ شاید جنرل باجوہ بھی عمران خان کی جنرل فیض حمید سے شیفتگی اور ان سے وابستہ امیدوں کی گہرائی کا اندازہ کرنے میں ناکام رہے۔ اب اندازے کی یہی غلطی براہ راست تصادم کا سبب بنی ہے جسے حکومت طریقہ کار کی غلطی کہہ کر اس اختلاف کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن معاملہ میں پیدا ہونے والی طوالت کی وجہ یہ شبہ یقین میں بدل رہا ہے کہ نئے ڈی جی کے نام پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے۔ اگر فوج کو اس معاملہ میں پسپا ہونا پڑا تو یہ ’جیت‘ وزیر اعظم کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔
البتہ اس ایک تقرری کے معاملہ پر سامنے آنے والے اختلافات کا پس منظر سمجھنے کے لئے افغانستان کی صورت حال، حکومت کی طرف سے طالبان کی پر جوش حمایت، پاکستان تحریک طالبان کو معافی دینے کے اعلانات اور اس دوران امریکہ کے علاوہ چین کے ساتھ پیدا ہونے والی دوریاں اور فاصلے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں پاکستانی حکومت معاملات کی سنگینی کو سمجھنے اور بہتری کے لئے اقدامات میں ناکام رہی ہے تو دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کی اشاروں کو سمجھنے اور ضرورتوں کو پورا کرنے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے ان دعوؤں کے باوجود کہ ان کے جنرل باجوہ کے ساتھ نہایت قریبی مثالی تعلقات ہیں، ان کے درمیان مواصلت مثالی نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے کی بات کو مکمل طور سے سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی عدم مواصلت نے اب ایک مسئلہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے جس میں ایک طرف حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگایا جارہا ہے تو دوسری طرف معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات اب تک طے نہیں ہوسکے ہیں اور مہنگائی میں خوفناک اضافہ حکمران جماعت کے لئے بڑا سیاسی چیلنج بنا ہؤا ہے۔
پاکستان جمہوری تحریک کے فیصل آباد جلسہ میں کی جانے والی تقریروں میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی اہم جماعتیں اس بحران میں عمران خان کو کوئی سہولت نہیں دیں گی۔ پیپلز پارٹی نے اگرچہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملہ پر براہ راست تبصرہ سے گریز کیاہے لیکن حکومت کو تن تنہا مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے کر بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت مخالف احتجاج منظم کرنے کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں۔
حالت کی ستم ظریفی کہ اس ملک میں دیانت داری کی علامت کے طور پر سامنے آنے والے وزیر اعظم کو اب براہ راست بدعنوانی اور چوری کے الزامات کا سامنا ہے۔ نہ جانے یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ ہے یا اس معاملہ میں وہ گھیرے گئے ہیں کہ حکومت نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات کو مخفی رکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اس معاملہ کو بین الملکی تعلقات کی نزاکت کے پیش نظر عوام سے پوشیدہ رکھنے کا فیصلہ شبہات اور افواہوں میں اضافہ کا سبب بنا ہؤا ہے ۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس معاملہ کی سماعت کے دوران نت نئے سوالات بھی سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح پنڈورا پیپرز میں متعدد حکومتی عہدیداروں کے نام سامنے آنے کے باوجود عمران خان کی خاموشی اور ان لوگوں سے درگزر کے رویہ نے ان کی پوزیشن کو داغدار کیا ہے ۔ اسی پس منظر میں مریم نواز نے آج فیصل آباد میں سوال کیا ہے کہ ’چوروں کا سردار آخرکون ہوگا‘؟
عمران خان ان حالات میں گرمجوشی سے سرکاری طور پر عید میلادالنبیؑ منانے میں مصروف ہیں اور اسے حکومت کی اسلام دوستی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ عوام خاتم النبيين حضرت محمد ﷺ سے بے پناہ لگاؤ کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت عوامی بہبود و معاشی بہتری کافرض منصبی ادا کرنے کی بجائے، ان کاموں میں کیوں زیادہ سرگرمی دکھا رہی ہے جن پر پہلے ہی معاشرہ کی ہرسطح پر تقریبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے پہلے آزادی رائے کو کنٹرول کرنے کے لئے میڈیا اتھارٹی بنانے کا عزم ظاہر کیا، پھر وزیر اعظم نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بناکر اسلام کی تبلیغ کا اعلان کیا حالانکہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پراس کا اہتمام پہلے ہی مؤثر طریقے سے ہوتا رہا ہے۔ اب وزیر اعظم کی اتھارٹی کے نام پر فوج سے ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتھارٹی سے اتھارٹی کا یہ کھیل حکومت کی کمزوری و ناکامی کا اعلان ہے یا وزیر اعظم کے ایمان کی پختگی کا اظہار ہے۔ وہ کون سا اختیار ہے جس کے حصول کے لئے اس وقت ملک میں اتھارٹی اتھارٹی کھیلا جارہا ہے۔ یا وزیر اعظم سچائی سے آنکھیں چرا کر خود کو طاقت ور ترین بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ