”جا رے پیا تورے نین ستائیں …. جارے پیا تورے نین …. ستائیں“
بڑے خانصاحب پچھلے دو گھنٹے سے مسلسل کلاسیکل راگ گا رہے تھے اور اب ان کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔ نادر ان کے پہلو سے یوں لگا بیٹھا تھا کہ اس کے گھٹنے خانصاحب کی پسلیوں سے چھو رہے تھے۔ ذرا بڑے خانصاحب دم چھوڑتے تو نادر ان کی پسلیوں پر دباؤ بڑھا دیتا تھا۔ یوں جیسے گاڑی کے ایکسیلیٹرپر پاؤ ں رکھ دیا جائے اور بڑے خانصاحب بچی کھچی سانسیں اکٹھا کر کے لَے کو اور بڑھا دیتے تھے۔
”بابا جی حوصلہ کرو۔“ نادر نے سرگوشی کی۔
بڑے خانصاحب کا دبا دبا احتجاج کہیں راگ کی لَے میں ضم ہو گیا۔ محفل اپنے عروج پر تھی۔ شہر کے امیر ترین خاندان سیٹھ شکور کی کوٹھی پر مدعو تھے۔ سیٹھ شکور ایک نامور صنعتکار تھا، راگ رنگ کا رسیا، موسیقی کا دلدادہ۔ سال میں ایک بار ضرور وہ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کو دعوت پر مدعو کرتا جس کے اختتام پر رقص و سرود اور موسیقی کی محفل منعقد ہوتی۔ اس بار دوستوں کی فرمائش پر کلاسیکی موسیقی کی محفل کا انعقاد کیا گیا اور بڑے خانصاحب کا انتخاب ہوا۔ بڑے خانصاحب عمر کے اُس حصے میں تھے جب انسان عارضوں کا شکار ہو کر چارپائی سے لگ جاتا ہے۔ وہ بھی عمر میں اَسی برس سے تجاوز کر رہے تھے۔ جوانی میں صحت کا بہت خیال رکھا تھا۔ دودھ، مکھن، دیسی گھی، دیسی مرغی، خصوصی طور پر پالے ہوئے بکروں کا گوشت، چکی کا آٹا اور تازہ پھل روزمرہ کی خوراک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آواز میں اب بھی دَم تھا۔ راگ شروع کر لیتے تھے تو محفل جھوم جھوم جاتی تھی۔ بڑے خانصاحب نوجوانی میں گوالیار کی ریاست کے دربار میں سرکاری طائفے کا حصہ رہے تھے۔ ہارمونیم پر خود یوں ہاتھ رکھتے کہ سُر تال کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے طبلہ نواز کی جان عذاب میں آ جاتی تھی۔
نادر بڑے خانصاحب کا اکلوتا بیٹا تھا۔ حد درجہ ضدی اور نافرمان بڑے خانصاحب کی خواہش تھی کہ نادر موسیقی میں عبور حاصل کر کے ان کی گدی سنبھالے مگر وہ موسیقی کی ابجد سے بھی آگے نہ بڑھ پایا تھا۔ اب اس کا بنیادی کام بڑے خانصاحب کے لیے موسیقی کی محفلوں کا بندوبست کرنا اورپروگرام ترتیب دینا تھا۔ بڑے خانصاحب کی حیثیت نادر کے لیے سونے کی چڑیا جیسی تھی جسے وہ ان کے انتقال سے قبل اپنی آمدنی میں اضافے کی خاطر زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہتا تھا۔
بڑے خانصاحب نے پانچویں ٹھمری ختم کی تو ان کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ نادر کے پاس اس کا حل بھی تھا۔ اس نے پاس رکھی تھرماس میں سے گلاس میں ٹھنڈا پانی انڈیلا اور گلیکسوز ڈی کے دو چمچ تحلیل کر کے بڑے خانصاحب کو پیش کیے۔ بڑے خانصاحب میں مزید گانے کی سکت نہ تھی۔ انہوں نے بے بسی کے عالم میں نادر کی طرف دیکھا اور ہارمونیم پرے دھکیل دیا۔
”بس یار! اب دم نہیں رہا …. معاف کر دو۔“
بڑے خانصاحب بولے۔
نادر کا تقاضا تھا کہ وہ ابھی ”میاں کی ملہار“ بھی سنائیں اس نے پیشگی رقم وصول کر رکھی تھی اور محفل کا رنگ دیکھ کر اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے سامعین ابھی اور سننا چاہتے ہیں۔ بڑے خانصاحب نے ابھی جوتوں میں پاؤ ں ڈالے ہی تھے کہ نادر نے درشتگی سے انہیں گانا جاری رکھنے کو کہا اور ہارمونیم ان کے آگے کر دیا۔ بڑے خانصاحب ہانپتے کانپتے ”میاں کی ملہار“ میں ڈوب گئے۔ اب ان کی آواز ڈوبنے لگی تھی۔ اس بار نادر کو رحم آ ہی گیا اور اس نے میزبان سے بڑے خانصاحب کی علالت کے پیشِ نظر محفل برخواست کرنے کی درخواست کر دی۔ شرکاءمحفل نے بادلِ نخواستہ رخصت چاہی۔ بڑے خانصاحب کی تو محفلیں رات بھیگ جانے کے بعد تک جاری رہتی تھی مگر اب ان کی صحت کے باعث حاضرینِ محفل نہ چاہتے ہوئے بھی اختتام پر آمادہ ہو گئے۔
سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز بڑے خانصاحب کو گھر واپس لے جانے کے لیے پورچ میں تیار کھڑی تھی اور بڑے خانصاحب لڑکھڑاتے ہوئے اس کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مگر نادر ان کی راہ میں حائل تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ روانگی سے قبل عمائدینِ شہر کو بڑے خانصاحب کے پاس آنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ ان کے جلو میں کار تک آئیں اور کَروفر کے ساتھ رخصت ہوں۔ اس باہم رابطے میں مزید محفلوں کے انعقاد کی راہ بھی ہموار ہو سکتی تھی۔ بڑے خانصاحب کی بے چینی ان کے چہرے سے ہویدا تھی۔ بالآخر شرکائے محفل نے بڑے خانصاحب کو نہایت احترام کے ساتھ رخصت کیا اور وہ سیٹھ شکور کی مرسیڈیز کی دبیز سیٹ میں نڈھال سے ہو کر جذب ہو گئے۔ نادر نے سیٹھ صاحب کی طرف سے دیئے گئے لفافے میں سے نوٹ نکال کر گنتے ہوئے بڑے خانصاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے معافی کے انداز میں ہاتھ باندھ لیے اور نفی کے اظہار میں سر ہلانے لگے۔ جیسے رحم مانگ رہے ہوں۔
”بس کرو یار اب مجھے سکون سے مرنے دو“
بڑے خانصاحب بڑبڑائے۔
ہلکورے لیتی ہوئی کار کے ایئرکنڈیشنر کی خنکی میں بڑے خانصاحب ابھی تک غنودگی کے عالم میں تھے۔ نادر اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا اسے نسبتاً کشادہ گلیوں میں سے اندرونِ شہر میں واقع بڑے خانصاحب کے مکان کی جانب لے جا رہا تھا۔ دو تین مقامات پر گلی میں چارپائی ڈالے گہری نیند سوئے افراد کو اٹھا کر کار کے لیے راستہ بنایا گیا۔ نادر نے نیند میں مخل ہونے پر سونے والوں سے معذرت کی اور بڑے خانصاحب کی کامیاب محفل کے بارے میں برسبیل تذکرہ مگر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ گلی کی نکر پر بطور خاص کار رکوا کر پان سگریٹ کی دکان سے سگریٹ خریدے۔ ان تمام حرکات میں خودنمائی اور مشہوری کا عنصر نمایاں تھا۔ یوں بڑے خانصاحب کا سفر رات کے تیسرے پہر اختتام پذیر ہوا۔
بڑے خانصاحب کا مکان دراصل ایک بڑی حویلی کا حصہ تھا جو ان کے آباؤ اجداد کی ملکیت تھی۔ رفتہ رفتہ اس حویلی کے حصے بخرے ہوتے چلے گئے اور اس نے الگ الگ مکانوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس حویلی اور اس کے مکینوں کا تعلق براہِ راست موسیقی سے تھا۔ آس پاس کے تمام مکین کسی نہ کسی طور موسیقی سے وابستہ تھے۔ اس محلے میں نہایت اعلیٰ قسم کے آلاتِ موسیقی تیار ہوتے تھے۔ طبلے، ہارمونیم، کلارنٹ، ستار اور ڈھول تیار کرنے والوں کی گھریلو صنعتیں یہاں واقع تھیں۔ ان آلات کی مرمت کرنے والے ماہر کاریگر موجود تھے۔ گائیکی سے تعلق رکھنے والے بہت سے نامور خانوادے یہاں رہائش پذیر تھے۔ بڑے خانصاحب کا مکان بلندی پر واقع حویلی کے آخری سرے پر یوں واقع تھا کہ صحن کی چھوٹی دیوار سے پرانے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں نیم کا درخت تھا جس کے نیچے دری پر بڑے خانصاحب کی نشست ہوتی تھی۔ یہاں ایک پرانا ہارمونیم اور طبلوں کی جوڑی نوآموز شاگردوں کی مشق اور اصلاح کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ ذرا پرے بڑے خانصاحب کی استراحت کے لیے ایک جھلنگا سی چارپائی اور میلا بستر رکھا تھا۔ ایک گاؤ تکیہ، حقہ تازہ کرنے کے لیے ایک پرانی بالٹی، چولہا اور اپلوں کا ڈھیر نشست کے قریب ہی رکھا رہتا تھا۔ یہ نشست فرصت کے اوقات میں بڑے خانصاحب کے ذاتی استعمال کے لیے تھی۔ ان کا بیشتر وقت یہیں گزرتا تھا۔ جبکہ مہمانوں سے ملاقات، محفلوں کے انعقاد اور دیگر کاروباری معاملات کے تعین کے لیے بڑے خانصاحب کو بیٹھک میں جانا پڑتا تھا جہاں وہ دوسرے مہمانوں کی طرح ایک معزز مہمان بن کر بیٹھتے تھے۔ پورے مکان پر نادر، اس کی دو بیگمات اور آٹھ بچوں کا قبضہ تھا۔
نادر گھر کے اندر ایک پُر تعیش کمرے میں رہتا تھا۔
”اوئے بابے کو ناشتہ کروا دو۔“
صبح سویرے بستر میں سے ہی اپنی کسی بیوی کو آواز دے دیتا۔
”دے دیا ہے…. دے دیا ہے ناشتہ۔“
باورچی خانہ میں سے کسی بیوی کی آواز آتی۔ باری باری دونوں بیگمات بڑے خانصاحب کے ناشتہ اور کھانے کی ذمہ دار تھیں۔ کوئی بچہ بادل نخواستہ فرمائش پر ٹرے اٹھا کر بڑے خانصاحب کے آگے رکھ آتا تھا۔ بڑے خانصاحب کی نگاہیں برآمدے کی جانب نادر کی متلاشی رہتی تھیں۔
”نادر اُٹھ گیا ہے؟“
وہ ہر آنے جانے والے سے سوال کرتے۔ نادر بیش قیمت لباس پہن کر گھر سے باہر جانے سے پہلے بڑے خانصاحب پر اچٹتی سی نگاہ ڈالتا اور حتی الامکان کوشش کرتا کہ بڑے خانصاحب کی نظر اس پر نہ پڑے۔
”بابا جی سوال جواب بڑے کرتے ہیں۔“
وہ بڑبڑاتا ہوا صدر دروازے کی جانب چلا جاتا اور بڑے خانصاحب ہاتھ اٹھا کر اس کی تندرستی اور سلامتی کے لیے دُعا کرتے رہ جاتے۔
”شالا خیر نال جا، جوانیاں مان۔“
وہ نادر کے لیے ڈھیروں دُعائیں کرتے تھے۔
بڑے خانصاحب نے ادھیڑ عمری تک نہایت نفیس زندگی گزاری تھی۔ اعلیٰ ملبوسات ان کی پوشاک رہے۔ روزمرہ کی خوراک مرغن اور نہایت پُرتکلف ہوا کرتی تھی۔ گھر میں پیچواں حُقے سے شوق کرتے تھے اور باہر عمدہ سگریٹ پیتے۔ ان کا پاندان ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا تھا۔ خصوصی تقریبات میں اکثر اور یوں بھی کبھی کبھار آب رنگین سے شوق فرما لیا کرتے تھے۔ نوابوں کی ریاستیں تو ختم ہو گئیں مگر ان کی نوابی ختم نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا بڑے خانصاحب کو ہر دور میں بہت سے اصل اور بناوٹی نوابوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ امراءاور جاگیردار موسیقی کی محفلوں کے دلدادہ ہونا فخر سمجھتے تھے۔ آزادی کے بعد فلمی صنعت نے بھی ترقی کی راہ دیکھ لی تھی۔ بڑے خانصاحب نے کبھی فلموں کے لیے موسیقی تو ترتیب نہیں دی مگر فلمی صنعت نے انہیں بے تحاشہ عزت سے نوازا تھا۔ مگر جوں جوں عمر ڈھلتی گئی بڑے خانصاحب کی اہمیت کم ہونے لگی۔ کلاسیکی موسیقی کے شوقین بھی کم ہونے لگے۔ ڈسکو اور پاپ میوزک نے اپنی جگہ بنا لی۔ ادھر خانصاحب کی آمدن کم ہوئی تو مہنگائی کا ایک طوفان بھی ساتھ آ گیا۔ لہٰذا انہیں بھی اپنا معیارِ زندگی بدلنا پڑا۔ گھر سے باہر تو بڑے خانصاحب نے حفظِ مراتب میں کسی حد تک اپنا سٹائل برقرار رکھا مگر گھر میں درویش بن گئے۔ اہلیہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تو ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہ رہا۔ اکلوتا بیٹا نادر ڈھنگ سے کوئی کام نہ کرتا تھا۔ بڑے خانصاحب نے بہت کوشش کی کہ وہ سُر سنگیت میں ملکہ حاصل کر لے مگر وہ مناسب توجہ نہ دے پایا۔ طبلہ میں سنگت دینے کی تربیت دینا چاہی تو بری طرح ناکام رہا۔ موسیقی کے آلات کی دکان بنا کر دی تو بھاری خسارہ اٹھا کر اسے بھی بند کرنا پڑا۔ اچھی بھلی ازدواجی زندگی گزار رہا تھا کہ پڑوس کے محلے میں ایک رقاصہ سے دوسرا بیاہ رچا لیا۔ گھر میں کئی روز جوتم پیزار ہوتی رہی۔ بالآخر نئی دلہن کو قبول کر لیا گیا۔ اسے جگہ تو مل گئی مگر خانصاحب کو اپنے کمرے سے محروم ہونا پڑا اور انہیں صحن میں منتقل کر دیا گیا۔ گرمیوں کے موسم میں تو خانصاحب کا جیسے تیسے گزارہ ہو جاتا تھا مگر سردی کے موسم اور برسات میں انہیں اپنی چارپائی برآمدے میں منتقل کرنا پڑتی۔ شدید جاڑوں میں کئی لحاف ڈالنے کے باوجود ان کی کپکپی کم نہ ہوتی تھی۔ رات گئے انگیٹھی تاپتے رہتے یا کشمیری ہونے کے ناطے گلے میں کانگڑی لٹکائے بیٹھے رہتے۔ دو وقت کی روٹی مل جاتی تھی۔ طلب پر چائے کا پیالہ بھی آ جاتا اور کبھی کسی پروگرام کے سلسلے میں کوئی مہمان آ جاتا تو بڑے خانصاحب کی خاطر داری بھی ان کے ساتھ ہو جاتی تھی۔
( جاری )
فیس بک کمینٹ