ہماری تاریخ غداری کے القابات سے بھری پڑی ہے. شاید ہی کوئی اصول پسند ہو جو اس لقب سے بچ سکا ہو. ہم قومی اور انفرادی طور پر غلطی ہمیشہ باہر ڈھونڈتے ہیں ، اندر نہیں جھانکتے، اپنی زبوں حالی کا الزام تو ہم کِسی نہ کِسی پر لگا دیتے ہیں مگر جب سوچنے والا دماغ وجہ ڈھونڈنے پر زور دیتا ہے تو ھم غداری کا الزام لگا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں. آج کل پھر ، عیب تلاش قوم کو میر جعفر اور میر صادق کا ادھورا سبق پڑھایا جا رہا ہے ،اُن کا موازانہ اپنے اپنے سیاسی حریفوں سے کر قوم کو جگانے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں اس قوم کے لیڈر. المیہ ہماری قوم کا یہ ہے کے اکثریت کو پتہ ہی نہیں میر جعفر اور میر صادق کون ہیں, اور جِس اقلیت کو پتہ ہے وہ خاموش ہے.
خاموشی کی وجوہات متعدد ہو سکتی ہیں اور میں قطعیت کا دعوٰی نہیں کرتا, مگر اپنا زاویہ نظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
میر جعفر اور میر صادق کی سوچ آج بھی اس قوم میں ترقی کا واحد راستہ سمجھی جاتی ہے. وہ غدار نہیں تھے, وہ لیڈر تھے, جو کہ بہتر ڈیل لے کے آئے تھے, اس دور کی establishment سے اپنی عوام کے لیے بہتر راستہ مانگ کر لائے تھے, اس امید میں کے ماینس ون کے بعد وہ اپنے ملک کے لیے بہتر کر سکیں گے. دونوں جرنیل تھے اور سمجھتے تھے وہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان سے بہتر سیاسی بصیرت رکھتے ہیں. انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو "ضدی, جابر” حکمرانوں سے آزاد کرایا ہر روز کی جنگ ختم کرائی, ملک میں سکون تھا, کوئی لبرٹی چوک نہیں تھا جہاں جلسہ ہوا ہو, جنگ سے تنگ آئی عوام میر جعفر اور میر صادق کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے, اور لائسنس و پرمٹ کے لیے دربار میں حاضری دے کر انگریزی کے 4 لفظ بھی سیکھنے لگے. چند اشخاص جو اپنے ضمیر کے سودے کے لیے تیار نہ تھے, وہ اپنی نفرت میں انگریزی سے بھی نفرت کر بیٹھے, اور آہستہ آہستہ نظام سے بےدخل ہو گئے, آج شاید کوئی اُن کا نام لیوا بھی نہ ہو.
میر جعفر غدار تھا یا سید میر جعفر علی خان بہادر ایک لیڈر تھا جو اپنے تنگ نظر, دقیانوسی بادشاہ کو قوم کی ترقی کے رستہ پر پڑے پتھر کی طرح ہٹانا چاہتا تھا۔ ایک طرف صاف گوری جلد والے تکبر سے بھرپور انگریز اپنے صنعتی انقلاب کے جادو سے آنکھیں چکاچوند کر رہے تھے تو دُوسری طرف مذہب اور تہذیب کے نام پر سراج الدولہ اپنی قوم کو انگریزوں کی اس جادوئی نئی دُنیا سے محروم رکھنا چاہتے تھے. شاید اقلیت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کے وہ آج کے الیکشن میں میر جعفر کو ووٹ دیں گے ,کیونکہ UK کا ویزا آج بھی قومی مفاد سے زیادہ اہم ہے اس اقلیت کے لیے جو اس ملک پر راج کرتی ہے. ٹیپو سلطان کو تو آج کوئی پارٹی ٹکٹ دے نہ ووٹر اُسکو عزت. دوست اُسکو idealistic یا شیخ چلی جیسے القابات سے نواز دیں, اور ا گر وہ زیادہ اس معاشرے کی حقیقت کے بارے میں بولے تو کافر کہلائے گا, اور غدار تو وہ ہوگا ہی, جمہور کے جذبات کا غدار، اقلیت کے لائسنس ویزے کا دشمن، ایسے غداروں کی چمک زر سے چندھیا ئے اس نظام میں کوئی جگہ نہیں۔
میرا ایک اور دلچسپ مشاہدہ یہ رہا ہے کے جب جب کِسی لیڈر نے میر جعفر اور میر صادق سے ملک بچانے کا وعدہ کِیا، اس کا اپنا عمل سراج الدولہ یا ٹیپو سلطان کے بجائے میر جعفر یا میر صادق سے ملتا تھا۔ طاقت سے مرعوبیت، سازش سے کرسی کا حصول, عوام کو نیویارک, لندن اور پیرس کے خواب دکھانا, انگریز کی خداد صلاحیتوں سے مرعوب کرنا, لائسنس اور پرمٹ سے عوام کو کنٹرول کرنا, از غرض کے تمام خصوصیات میر جعفر والی، اور اسٹیج پر گالی بھی میر جعفر کو. اُنکا حال اس تعصب پسند مولوی سے مختلف نہیں جو نماز میں آل ابراہیم پر درود و سلام بھیجتا ہے اور باہر نکل کر گالیاں دیتا ہے۔ شاید اقلیت کی خاموشی کی وجہ یہ منافقت ہے جو کِسی بھی ذی شعور کو اُسی طرح معلوم ہے جیسے اسے معلوم ہے کے معیشت پر سیاست کرنا اس ملک میں بیکار ہے، معیشت جن کے ہاتھ میں ہے انکے سامنے یکجا ہونے کی ضرورت ہے نہ کے بڑھتے پیٹرول کے داموں کے عوض حکومتیں گراتے رہیں۔
سوال تو پھر یہ اُٹھتا ہے کے سب غدار تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ وہ غداری ہی کیا جو جمہور کی منشاء سے ہو، وہ تو جمہوریت ہے، چاہئے جمہور کتنا ہی لاشعور اور اقلیت کِتنی ہی خاموش کیوں نہ ہو. مہنگائی پر جمہور باہر آئے گا، حکومت گرائے گا, نئے لوگ لائے جائیں گے, وہ جب تک منظورِ نظر رہیں گے، اپنے آقاؤں سے اچھی ڈیل لائیں گے، پیٹرول بڑھائیں گے تو روٹی سستی کریں گے، یا لنگرخانے کھول کر قوم کو بھکاری بنائیں گے۔ اور پھر شرائط سخت ہو جائیں گی، ملک خسارے میں ہو گا، آقا ناراض اور خُود کے پلے کچھ ہو گا نہیں، جمہور پھر باہر آئے گا، اقلیت پھر آقا بدلے گی.معیشت پر سیاست کا مطلب سامراج کو اپنی جمہوریت کی باگ دوڑ دینا ہے، IMF کی آسان شرائط ایک حکومت کو مقبول کرنے اور سخت شرائط ایک حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے کافی ہے۔ تو پھر غدار کون؟ جب قوم نظریہ میر جعفر کو درست مانتی ہے تو غدار کون؟ شاید یہی سوال اقلیت کو خاموش رکھتا ہے۔
کچھ دن پہلے سوئمنگ پول میں کچھ عزّت دار حضرات کو اپس میں گتھم گتھا دیکھا، بعد ازاں معلوم ہوا کے دونوں بچپن کے دوست لیکن اپنے اپنے سیاسی لیڈر کے پیچھے لگ کر ایک دُوسرے کو غدار ثابت کرتے کرتے دست و گِریباں ہو گئے۔ غداری کے لقب میں یہی مسئلہ ہے، اچھے بھلے انسان کو قومی دشمن بنا دیتا ہے اور اُس سے لڑنا ایک ایسا فرضِ واجب بن جاتا ہے کے نہ پھر وہ خون دیکھتا ہے نہ دوستی نہ انسانیت۔ اس دور میں جہاں ایک غلام دُوسرے غلام کو غلامی کا طعنہ دے رہا ہے، اُسکی غلامی کو ملک دشمنی بتا رہا ہے, جہاں میر جعفر میر صادق کو غدار کہہ رہا ہے، اس دور میں اقلیت کا خاموش رہنا سمجھ بھی آتا ہے، اُنکو غداری سے کیا، جب تک اُنکی اور اُنکی نسلوں کی بقا غلامی میں نظر آئے تو پھر غداری کیسی، لڑائی کیسی؟
دُنیا اس وقت ایک ایسا منظر پیش کر رہی ہے جہاں نظامِ سامراج کی غلامی سے انکار صرف موت اور گمنامی ہے۔ رُوس جیسا طاقتور ملک بھی SWYFT اور Netflix کے بغیر اس دُنیا کی رعنائیاں سے محروم ہے، وہ دُنیا جسکے خدا کی غلامی کی قیمت اپنی روح بیچنا ہے، دھندے کے نقصانات پر نہیں, صرف پیسے پر نظر رکھنی ہے۔ جِس جِس کا خون سچ جھوٹ سے نچوڑ سکو، سکو نچوڑ لو، اپنا حصہ رکھ کر باقی آقاؤں کے حوالے کر دو۔ اس دُنیا میں جہاں آپ کی سالمیت اپنے آپ سے غداری میں ہو، اپنی آواز کا گلہ گھونٹنے میں ہو، ووٹ بیچنا، خریدنا حق سمجھا جائے، ٹیکس چوری ضرورت، اور غریب کا استحصال کاروباری گن سمجھا جائے، اس دُنیا میں سب غدار ہیں ، اس نظام میں کوئی غدار نہیں.
فیس بک کمینٹ