ہندوستان میں 1857 کے غدر سے پہلے ڈاک اور تار کا بندوبست قائم ہو چکا تھا۔ دلی اور لکھنؤ جیسے مقامات پر محصور برطانوی سپاہ کی کامیابیاں تار کے ذریعے موصول ہونے والی اطلاعات کی مرہون منت تھیں۔ آدھی صدی بعد پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو اس میں پندرہ لاکھ ہندوستانی سپاہی شریک تھے۔ قریب 75ہزار ہندوستانی جوان گھر واپس نہیں لوٹ سکے۔ یہ نیلم اور مرجان فرانس کی خندقوں اور گیلی پولی کے میدانوں کی مٹی میں مل گئے۔ لاکھوں گھرانوں میں کروڑوں آنکھیں دہلیز میں گڑی تھیں۔ 1911ء میں ہندوستان کی کل آبادی پچیس کروڑ بیس لاکھ اور خواندگی کی شرح 5.9 فیصد تھی۔ ان پڑھوں کے دیس میں خبر جاننے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کیا گیا۔ جس پوسٹ کارڈ پر سپاہی کے مرنے کی خبر بھیجی جاتی تھی، اس کا ایک کونا پھاڑ دیا جاتا تھا۔ پھٹے ہوئے کونے والا پوسٹ کارڈ موصول ہوتے ہی نالہ و شیون کا شور بلند ہوتا تھا۔ پوسٹ کارڈ کا پھٹا ہوا کونا موت کا سندیسہ تھا۔ ایک صدی بعد پاکستان کی اپنی آبادی پچیس کروڑ کے نواح میں پہنچ چکی ہے۔ اب یہاں کوئی غیر ملکی حکمران ہے اور نہ ہمارے جوان زبردستی بھرتی کر کے جنگ میں بھیجے جاتے ہیں۔ تار کا محکمہ ہی ختم ہو گیا۔ ڈاک کا نظام پانی اور بجلی وغیرہ کے بل پہنچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سب کچھ بدل گیا۔ البتہ پوسٹ کارڈ کے پھٹے ہوئے کونے کی مدد سے خبر کی ترسیل میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔
ہماری شرح خواندگی اب پچاس فیصد سے بڑھ چکی ہے لیکن ہم خبر پڑھنے سے قاصر ہیں۔ پوسٹ کارڈ کے پھٹے ہوئے کونے جیسے نشانات سے جان لیتے ہیں کہ اجل کے ہاتھ کوئی آ رہا ہے پروانہ…. اب یہی دیکھیے، 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حتمی اور سرکاری نتائج تو اگست میں جاری کیے گئے، ہم نے پوسٹ کارڈ کا پھٹا ہوا کونا 2008 میں دیکھ لیا تھا۔ عدلیہ کی بحالی، این آر او اور کیری لوگر بل پر جو غلغلہ اٹھا اس سے معلوم ہو گیا کہ بینظیر بھٹو کی شہادت مجرمانہ حادثہ نہیں تھی۔ مئی 2006 میں ایجوئیر روڈ لندن کے ایک اپارٹمنٹ میں طے پانے والا میثاق جمہوریت صاحبان ذی وقار کو پسند نہیں تھا۔ بیس برس سے دست و گریبان سیاسی جماعتیں اگر آئین کی طے کردہ حدود پر اتفاق رائے کر لیں تو کمپنی بہادر کی طاقت کو ضعف پہنچتا ہے۔
گیارہ برس تک احتساب کی چکی کاٹنے والے بدعنوان سیاست دان کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ 1985ء کی آٹھویں آئینی ترمیم اور 2003ء کی سترھویں آئینی ترمیم کا باغ اجاڑ دے۔ دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کر دے۔ وفاق کی اکائیوں سے صوبائی خودمختاری کا وہ وعدہ پورا کر دے جو 37 برس سے معرض التوا میں چلا آ رہا تھا۔ اس ضمن میں دو بالکل مختلف کتابوں سے رجوع کرنا چاہئیے۔ ایک کتاب تو معروف صحافی محمود شامی نے ’اپ سیٹ ‘2008 کے عنوان سے لکھی تھی۔ معروف صنعتکار صدرالدین ہاشوانی کی خودنوشت بھی دیکھنی چاہیے۔ محمود شام تو ڈاکٹر نذیر احمد کے تلامذہ میں سے ہیں، پچاس برس صحافت کی خاک چھانی ہے، البتہ سیٹھ لوگ کتابیں نہیں لکھا کرتے۔ کسی قلم گھسیٹ بالکے کو بتا دیا کرتے ہیں کہ ’دیکھو لڑکا ہم کو اس طرح کا ایک پستک چاہئیے۔ اس کو کچھ ایسا لکھو کہ بس کچھ ایسا ہو جائے‘۔ یہ کتاب کس نے لکھی؟ کس نے ترجمہ کی؟ درویش بے نشاں کو اوکھلی میں سر دینے کا شوق نہیں۔
مئی 2013 میں نئی حکومت کو دو بڑے مسائل سونپے گئے۔ توانائی کا بحران اور دہشت گردی۔ یہ مسئلے بڑی حد تک حل ہو گئے لیکن اس بیچ میں ادھر ادھر سے نئے خاردار پودے نکل آئے۔ معیشت، خارجہ پالیسی اور لوگوں کا معیار زندگی ٹیلی ویژن اسکرینوں سے اٹھتے شور میں اوجھل ہو گئے۔ ملک عزیز کا ایک ہی مسئلہ بنیادی قرار پایا، کرپشن اور اس کرپشن کا بے رحم احتساب۔ پھٹے ہوئے کونے والا یہ پوسٹ کارڈ ہمیں 2018 میں موصول ہوا۔
نئے بندوبست استمراری کو دو ماہ ہونے کو آئے۔ بات قرقیوں اور نیلامی سے چلی تھی۔ آئی ایم ایف کے دربار تک جا پہنچی۔ برادر اسلامی ملک سے دس ارب ڈالر کی مدد کا سندیسہ ملا تھا۔ کسی وجہ سے یہ خط موصول نہیں ہو سکا۔ چین سے تعلق خاطر میں دراڑ آ گئی۔ ترکی والے ناخوش ہیں۔ ایران سے سرد مہری پر چار دہائیاں بیت گئیں۔ خلیج والے گوادر کی تعمیر پر خوش نہیں۔ بھارت سے تعلقات تو یوں بھی شماتت ہمسایہ کا مضمون ہیں۔ مرے پر سو درے یہ کہ عالمی معیشت کو بحران نے آ لیا۔ دائیں، بائیں کرنسیوں کی قدر ایسے گری جیسے اخلاق بگڑتے ہیں۔ تیل 74 ڈالر فی بیرل کو جا پہنچا۔ ڈالر ایک سو چھتیس روپے کا ہو گیا۔ معیشت کی شرح نمو کا اندازہ ایک فی صد کم ہو گیا۔ تارکین وطن نے صاف بتا دیا کہ سوشل میڈیا پر نئے پاکستان کے مخالفین کے لیے گالی دشنام جتنی چاہو، حاضر ہے البتہ فی کس ہزار ڈالر بھیجنا مشکل ہے اور فی الحال ہم وطن لوٹ کر ملکی خدمت کا ارادہ بھی نہیں رکھتے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ 25 جولائی کی رات الیکشن کمیشن کو ایک نامعلوم فون کال موصول ہوئی تھی۔ یہ فون کال کس نے کی؟ کس کو کی؟ اس پر عمل درآمد کیوں کیا گیا؟ چراغ راہگزر کو کچھ خبر نہیں۔ ہمیں تو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دسمبر 1971ءمیں ڈھاکہ ہیڈ کوارٹر کا مراسلہ قبل از وقت اقوام متحدہ میں کیسے پہنچ گیا تھا؟ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ 1988 میں وسیم سجاد واقعی سپریم کورٹ کے نام کوئی پیغام لے کے گئے تھے؟ ہم نہیں جانتے کہ لاہور کورٹ کے جسٹس عبدالقیوم کو احتسابی فون کون کیا کرتا تھا؟ واللہ ہم بے خبر ہیں کہ 1999ءمیں راولپنڈی سے چین کی جانے والی فون کال کی خبر دشمن تک کیسے جا پہنچی؟ ہم بے خبر لوگ ہیں اور ہمیں خبر میں دلچسپی بھی نہیں۔ ایک طرف پرانے صحافتی اداروں کی سانس ٹوٹ رہی ہے۔ دوسری طرف رنگارنگ صحافتی ادارے دھڑادھڑ سامنے آ رہے ہیں۔
خبر کا تعلیم سے گہرا تعلق ہے۔ ہم ان دنوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر گرفتار کرنے میں بہت مصروف ہیں۔ بدعنوان وائس چانسلر کیفر کردار کو پہنچیں، ماڈل گرلز کے علانیہ اور غیرعلانیہ اثاثوں کا تعین ہو جائے تو تعلیم کی بھی خبر لیں گے۔ تعلیم سے پیداواری معیشت جنم لیتی ہے۔ پیداواری معیشت کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ قیامت کے ان دنوں میں کوئی ساہوکار کس برتے پر کاروبار میں ہاتھ ڈالے گا؟ اتفاق سے ہمیں طیب اردگان کا سیاسی مخالفین کو جیلوں میں بھرنا پسند آ گیا ہے۔ ہم عظیم دوست ملک کی طرح 500 بدعنوان کرداروں کو گولی مارنا چاہتے ہیں۔ برادر اسلامی ملک میں چار سو چور لٹیروں کو حبس بے جا میں رکھ کے ملکی دولت اگلوانے کا نسخہ ہمیں بھا گیا ہے۔ پرتعیش گاڑیاں ہم نے بیچ دی ہیں، بڑے مجرموں کو لانے لے جانے کے لیے ہم بکتر بند گاڑیاں خریدیں گے اور نیا پاکستان تعمیر کریں گے۔ اگر کسی نے پوسٹ کارڈ کے پھٹے ہوئے کونے کا ذکر کیا تو اس بدباطن کا بندوبست کرنا ہم جانتے ہیں۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ