برادر محترم کے قلم سے ایک اور معجزہ سرزد ہوا ہے۔ ساڑھے تین صدیوں کی تاریخ کو ایک سوال میں سمو دیا ہے۔ پوچھتے ہیں کہ آخر برصغیر میں داراشکوہ مسلسل کیوں ہار رہا ہے؟ تاریخ کا یہ بنیادی سوال اٹھانے کے لئے مارچ 2018 سے بہتر کوئی موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ داراشکوہ کا استعارہ سمجھنے کے لئے کچھ تفصیل دینا مناسب ہو گا۔ 1657ء میں مغل شہنشاہ شاہ جہان علیل ہو گیا۔ بادشاہت کی روایت کے عین مطابق تخت نشینی کے لئے لڑائی شروع ہو گئی، اصل مقابلہ اورنگزیب عالمگیر اور داراشکوہ میں تھا۔ داراشکوہ کے رویے انسان دوست تھے۔ علم و فضل میں دخل رکھتا تھا۔ خلق خدا سے محبت کرنے والوں کا ارادت مند تھا۔ مذہبی عقائد میں روادار تھا۔ 30 مئی 1658 کو اورنگزیب عالمگیر نے داراشکوہ کو آگرہ کے قریب شکست دی۔ دارا شکوہ راجستھان کی طرف بھاگ نکلا۔ 11 مارچ 1659 کو اجمیر کے قریب داراشکوہ کو آخری شکست ہوئی۔ داراشکوہ نے سندھ میں جنید خان باروزئی عرف ملک جیون کے پاس پناہ لی لیکن ملک جیون نے اورنگزیب سے ساز باز کر کے داراشکوہ کو گرفتار کروا دیا۔ داراشکوہ کو ذلت آمیز حالت میں دلی کی سڑکوں پہ پھرایا گیا۔ دو رویہ کھڑے بے بس عوام آنسو بہاتے تھے۔ آپ نے 14 جون 1940 کی وہ تصاویر دیکھ رکھی ہوں گی جب ہٹلر کے ٹینک پیرس میں داخل ہو رہے تھے۔ اہل پیرس کی سسکیاں تاریخ کاحصہ ہیں۔ ٹھیک تیس برس بعد 1969ء میں سوویت یونین کے ٹینک اسی طرح درراتے ہوئے چیکوسلاواکیہ کے دارالحکومت پراگ میں داخل ہوئے تھے۔ اشتراکی آمریت کے اسیر عوام چیختے چلاتے ہوئے یہ منظر دیکھتے تھے۔ آنسو اور تلوار میں مقابلے کی یہ تاریخ انسانوں کے ساتھ ساتھ چلی ہے۔ خود پاکستان کے لوگوں نے 16 اکتوبر 1951، 16 دسمبر 1971، 4 اپریل 1979 اور 27 دسمبر 2007 کو آنسو بہائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تاریخوں کی کیا تخصیص ہے۔ 70 برس میں کب ہوا کہ ہماری آنکھ کو خشک ہونے کی اجازت ملی ہو۔
آنکھوں کو شوق گریہ ہمیشہ رہا عزیز
دریا کی ساری عمر روانی مین کٹ گئی
برادر محترم گلہ مند ہیں کہ ریاست کی تلوار خلقت کے آنسوؤں پر فتح کیوں پاتی ہے؟ میرا یہ کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، تلوار مسلسل ہار رہی ہے۔ آنسو ناانصافی کے خلاف پرامن جدوجہد کی گواہی ہے۔ سقراط کے شاگردوں نے یہ گواہی دی تھی۔ اسخر یوطی یہودا نے تیس سکوں کے عوض یسوع مسیح سے غداری کی تو خلقت نے آنسوؤں سے گواہی دی تھی۔ مسلمان 14 صدیوں سے کربلا کے ظلم پر گواہی دیتے چلے آئے ہیں۔ 2 جنوری 1965 کو فاطمہ جناح الیکشن ہار گئیں تو اہل کراچی نے لہو سے گواہی دی تھی۔ تاریخ دان ناحق دو قومی نظریے کو ہندوستان کی تقسیم سے منسوب کرتے ہیں۔ نہتے انسانوں کا آنسو اور تلوار کے زور پر فیصلہ مسلط کرنے والی طاقت میں مقابلہ ہی حقیقی دو قومی نظریہ ہے۔ 17مارچ 2018 کو میاں شہباز شریف رحیم یار خان میں خدا کا واسطہ دے کر فوج، عدلیہ اور پارلیمان سے مل کر کام کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اسی روز موضع چکری کے سیاست دان چوہدری نثار علی ٹیکسلا میں چتاؤنی دیتے ہیں کہ عدلیہ اور فوج سے نہ لڑنے میں نواز شریف کی بھلائی ہے۔ یہ دونوں بیانات ملا کر پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آج کا داراشکوہ کون ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں ملک جیون کا کردار کس نے ادا کیا ہے۔ ہم نے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ دو قومی نظریے سے نجات حاصل کر کے ایک قوم بنائی جائے۔ ہندوستان میں دو قومیں آباد تھیں۔ ایک وہ جنہیں انگریز کی غلامی قبول تھی۔ دوسری قوم بیرونی حکمرانوں سے آزادی چاہتی تھی تاکہ اپنی دھرتی پر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ ہندو مسلم مذہبی اختلاف تو دراصل معیشت اور معاشرت کے تاریخی جبر کا استعارہ تھا۔
پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اداروں کی بنائی ہوئی جماعت تھی۔ سر فضل حسین نے یہ جماعت 1936 میں قائم کی۔ سکندر حیات اور چوہدری چھوٹو رام ان کے دست و بازو تھے۔ اس دور میں آزادی کی لڑائی کے داراشکوہ ایسے گمنام نہیں کہ ان کی فہرست گنوانی پڑے۔ یاد رہے کہ 1937 میں نوابزادہ لیاقت علی خان اور نواب اسماعیل کی کوششوں سے یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ میں ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ اس سمجھوتے پر قائد اعظم نے کبھی دستخط نہیں کیے۔ اسے باضابطہ پیکٹ کے طور پہ اچھالنے میں سید نور حسین نامی صحافی بنیادی کردار تھے۔ اس زمانے میں سیاسی رہنماؤں کو ٹیلیفون نہیں کیا جاتا تھا ڈپٹی کمشنر اپنے دفتر میں بلا کر ریاست کا ڈاکٹرائن سمجھا دیتا تھا۔ 1946ء میں اسی طریقہ کار کی مدد سے الیکشن جیتنے والے جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے، پاکستان آزاد ہو گیا لیکن دو قومی نظریہ زندہ رہا۔ اس کے بطن سے ریپبلکن پارٹی پیدا ہوئی، کنونشن لیگ برآمد ہوئی، قومی اتحاد بنا، ایم کیو ایم تشکیل پائی، آئی جے آئی تراشی گئی، اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے۔ پاکستان میں آج بھی دو قومیں آباد ہیں۔ ایک قوم پاکستان کے ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی آنکھ میں آنسو ہے اور ہاتھ میں ووٹ کی پرچی، دوسری قوم اس گروہ پر مشتمل ہے جس کی آنکھ میں سازش کی چمک اور ہاتھ میں بندوق کی دھمکی ہے۔ پیچیدگی یہ ہے کہ اب ان دو قوموں میں جغرافیائی تقسیم ممکن نہیں۔ اب اس ملک میں اس تقسیم کو ختم کر کے ایک قوم بنانا ہے اور اس کا نسخہ ہمارے پاس آئین کی صورت میں موجود ہے۔
صحافی اور صحافت کا مفاد اسی میں ہے کہ موجودہ قومی تقسیم کی تفصیل میں جائے بغیر اشارے میں بات کی جائے۔ 11 فروری 2018 کو عاصمہ جہانگیر کا انتقال ہوا۔ عاصمہ جہانگیر کا شمار عالمی قامت کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تعزیت کا پیغام بھیجا ہے لیکن مقتدرقوتوں کی طرف سے تعزیت کی ایک ٹویٹ تک دکھائی نہیں دی ۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ چوہدری نثار اس دو قومی نظریے میں کس طرف کھڑے ہیں۔ تاہم عرض ہے کہ پاکستان کے رہنے والوں نے کبھی عدلیہ کے احترام میں کوتاہی نہیں کی۔ مشکل یہ ہے کہ مولوی تمیز الدین سے لے کر آج تک ہم نے جب عدل کے دروازے پہ دستک دی ہے ہمیں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا ہے۔
اس ملک کے لوگوں نے اس وقت بھی مقتدرادارے کا احترام قائم رکھا جب چار دفعہ حکومت پر قبضہ کیا گیا۔ ہم تو اس قدر مودب لوگ ہیں کہ ہم نے کبھی 4 دسمبر 1971 کو رحیم یار خان کے جنوب میں اٹھارہویں ڈویژن کی کارکردگی پر بات کرنے کی جسارت نہیں کی حالانکہ اس کی تفصیل جنرل گل حسن اور جنرل مٹھا کی خودنوشت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمیں اٹھارہویں ڈویژن سے کچھ لینا دینا نہیں، ہماری درخواست تو صرف یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے 2010ء میں آئین میں جو اٹھارہویں ترمیم کی ہے، اس کا احترام کیا جائے۔ ضیا آمریت نے انتقال اقتدار کی بجائے اشتراک اقتدار کا تصور پیش کیا تھا۔ اشتراک اقتدار دو قوموں میں ہوا کرتا ہے۔ اگر پاکستان کو ایک قوم بنانا ہے تو یہاں عوام کو اقتدار منتقل کرنا ہو گا کیونکہ ایک قوم کو دو قوموں میں تقسیم کرنا بدترین کرپشن ہے، سب سے بڑا ظلم ہے اور سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ داراشکوہ کے بقیہ السیف ساتھی سفید جھنڈا اٹھائے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک قوم بنایا جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ