ثروت حسین کا ایک دلگداز مصرع ہے، ایک چیونٹی کا بھی کوئی وطن ہوتا ہے۔ وطن اور باشندے کا رشتہ انسانوں کی اجتماعی میراث ہے۔ فرانس میں بیٹھے ایوان ترگنیف نے اپنی ایک کہانی سینٹ پیٹرز برگ میں مقیم اپنی ماں کو بھیجی۔ ماں نے بیٹے کو لکھا “مجھے تمہاری کہانی سے روس کے آلوچوں کی خوشبو آتی ہے”۔ امریکہ کے شمال مشرقی خطے میں رابرٹ فراسٹ نظم لکھتا ہے تو نیو انگلینڈ میں بکھرے پھلوں کے باغات اندھیری رات میں تاروں کے جھرمٹ جیسے نظر آتے ہیں۔ ولیم فالکنر نثر لکھتا ہے تو گنے کے کھیتوں میں کام کرتے کاشت کاروں جیسی سخت کوشی محسوس کی جا سکتی ہے۔ نائجیریا کا چینوا اچیبے ناول نہیں لکھتا، افریقہ میں قومی آزادیوں کا خواب پریشان ہونے کا دکھ لکھتا ہے۔ رسول حمزہ توف “میرا داغستان” لکھتا ہے تو گھوڑی کے دودھ کی خوشبو بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ انیسویں صدی کا بلوچ شاعر مست توکلی اپنی محبوبہ کے پڑائو کے ٹھکانوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو خانہ بدوشی کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ وطن سے محبت ایسا نتھرے ہوئے پانیوں جیسا جذبہ ہے جس میں حسد کی کھوٹ نہیں ہوتی۔ ہم نے پاکستان میں ایک دوسرے کو گالی دینے کا ظالم ڈھب ایجاد کیا۔ جس سے اختلاف ہوا، اسے غدار قرار دے دیا۔ آج پوچھنا چاہئے کہ باچا خان غدار تھے یا حسین شہید سہروردی؟ بھٹو غدار تھا یا بزنجو غدار تھا؟ بے نظیر بھٹو نے اس ملک کے ساتھ کیا غداری کی؟ جاوید ہاشمی نے کب قوم کا مفاد بیچا؟ یہ ہماری سوچ کی پسماندگی ہے کہ ہم سیاسی اختلاف کو وطن دشمنی کی ناقابل قبول گالی میں لپیٹ کر بانٹتے رہے۔
ایک خاص زاوئیے سے درویش بھی وطن دشمن، بکاؤ اور بھاڑے کا ٹٹو شمار ہوتا ہے۔ زیادہ تو نہیں، میں نے سندھ اور خیبر پختونخوا کا چپہ چپہ پیدل گھوم کر دیکھا ہے۔ تیمرگرہ کے بازاروں سے سانگھڑ کے چٹیل راستوں تک میں نے اپنے وطن کے لوگوں میں بہت سی خوبیاں دیکھیں۔ کچھ بیان کرتا ہوں۔ ہمارے لوگوں میں تشکر کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ایک آنے کی مہربانی کرو تو یہ ایک روپے کا احسان مانتے ہیں۔ وجہ یہ کہ آب و ہوا مہربان رہی ہے۔ اناج اور پانی کی کمی نہیں تھی۔ اور یہ کہ یہاں کے رہنے والوں نے باہر نکل کر کسی پر حملہ نہیں کیا۔ اپنے گھر میں محبت اور تحفظ موجود ہو تو غیر کے دروازے پر فساد کیوں کریں۔ پاکستان کے لوگ انفرادی طور پر ظالم نہیں، رحم دل ہیں۔ قبیلے اور گروہ کی عصبیت میں البتہ ظلم پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کوئی علم والا غور کرے گا تو یہ سیاسی بندوبست کی کمزوری ہے۔ یہاں کی عورت اور مرد کے دل میں بہت گرم جوشی ہے اور دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے وطن کے لوگ ذاتی طور پر روادار ہیں۔ معاشرت میں بھی رواداری کا چلن ہے۔ زبان، عقیدے اور ثقافت کی رنگا رنگی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اپنے سے مختلف نمونے کو حقارت سے نہیں، احترام سے دیکھتے ہیں، صوفیا کا اثر ہو گا۔ ایک خوبی ہمارے ملک کے لوگوں میں یہ کہ ذاتی طور پر دیانت دار ہیں، دھوکہ دہی کو برا سمجھتے ہیں۔ کاروبار، سیاست اور اختیار کے جھگڑے میں البتہ دیانت داری ہمارے ہاں مخدوش رہی ہے۔
بات کہیں سے شروع ہو برادر بزرگ تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو برادر بزرگ علم اور تجربے میں سمندر ہیں، مگر یہ کہ سفید بگلا بطخ کی طرح پانی میں تیرتے تیرتے اچانک ایسی ڈبکی لگاتے ہیں کہ اپنے ہی لکھے کا سارا تاثر گدلا کر دیتے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے برادر بزرگ کا کالم اشتیاق سے پڑھنا شروع کیا، واللہ طبیعت ہری ہوگئی۔ لکھا کہ اس سے بڑا کوئی جھوٹ ممکن نہیں کہ “پیدائشی طور پر تمام انسان برابر ہیں”۔ اصول یہ بیان کیا گیا تھا کہ صلاحیت، رتبے اور حقوق میں تمام انسان برابر ہیں۔ خیال تھا کہ رتبہ، حقوق اور صلاحیت کو ایک جیسا مان لیں گے تو محنت کے بل پہ آگے بڑھنے کا راستہ روشن ہو گا۔ پیدائش کا حادثہ قسمت کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ اہلیت کی بنا پر ترقی ہوسکے گی۔ کوئی بھلے تلہ گنگ کے سرداروں کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، اہلیت اور کارکردگی نہیں دکھائے گا تو پیچھے رہ جائے گا۔ برادر بزرگ سمجھتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پہ کم اور زیادہ صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ محترم بھائی پاکستان میں کالم لکھتے ہیں۔ یورپ کی کسی یونیورسٹی میں انہوں نے ذہانت کی یہ بیل باٹم تھیوری پیش کی ہوتی تو بہت بھد اڑتی۔ طالب علم جلوس نکال دیتے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ لاتعلقی کا اعلان کر دیتی۔ یہ کھلی نسل پرستی ہے۔
محترم بھائی یاد ماضی میں غرق ہیں کہ تب ’’سیاست کے کوچے میں صرف سیاستدان یا حکمران طبقے ہی کو داخلے کی اجازت تھی، کاروبار اور سیاست دو مختلف میدان تھے”۔ یاد دلانا چاہئے کہ پاکستان ایک جمہوریہ ہے، یہاں حکمرانی کا حق کسی خاندان، گروہ یا طبقے کے لئے تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ کاروبار کیا ہوتا ہے۔ صنعتی سرگرمی، اشیا کی قدر بڑھانے، ضرورت کی اشیا پیدا کرنے اور موجود اشیا کو مطلوبہ مقام تک لانے کا نام ہے۔ اس کے بغیر کون سی ریاست چل سکتی ہے۔ میر تقی میر نے لکھا تھا، جن بلائوں کو میر سنتے تھے، ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ معاف کیجئے گا، قائداعظم محمد علی جناح کے آبائواجداد کیا اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے؟ موہن داس کرم چند گاندھی اور ولبھ بھائی پٹیل کیا وکیل نہیں تھے؟ نورو جی اور گوکھلے کون تھے؟ آزادی کی لڑائی اس لئے لڑی تھی کہ محنت کرنے والوں کو حکمرانی کا حق بھی ملے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ممدوح کو میاں نواز شریف کے کاروباری خاندان پر اعتراض ہے۔ وہ مسلسل کمال اتاترک کی آتما ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ راحیل شریف ہماری فوج کے سربراہ تھے اور اب سبکدوش ہوچکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قوم کا کوئی وژن برادر بزرگ کو تنہائی میں سمجھایا تھا۔ راحیل شریف کے کسی مفروضہ وژن کا پاکستانی قوم سے کوئی تعلق نہیں۔ جس نے قوم کو نصب العین دینا ہے، وہ کاغذ کے ٹکڑوں کی گنتی جیت کر اسمبلی میں آئے۔ حیرت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن کی دنیا میں رہنے والے کاروباری صلاحیت کو گویا سیاسی فیصلہ سازی کے لئے نااہلی گردانتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم تانگہ بان، جوتا گانٹھنے والے اور کپڑا بننے والے کولہو کے بیل کی طرح مشقت کیا کریں اور سفید لباس پہن کر راج ہنس کی طرح زمین پر قدم دھرنے والے حکمران بنیں۔ برادر بزرگ کی اچھی بات یہ کہ اقتدار کے موروثی حق کی مخالفت کرتے ہیں۔ ستم ظریفی مگر یہ کہ افیون چھڑانے کے لئے ترک افیون کی گولیاں تجویز فرماتے ہیں۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں….
(بشکریہ ہم سب)