بیسویں صدی میں سیاسیات کے استاد جان رالز نے ایک اہم اصول بیان کیا تھا۔ وہ اسے رواداری کا مخمصہ قرار دیتے تھے۔ رواداری ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ اس میں رائے، عقیدے، زبان، ثقافت اور دوسری ممکنہ اختلافی شناختوں کے لیے مساوات اور احترام پایا جاتا ہے۔ انسانی معاشرے میں رواداری سے امن، انسیت اور محبت جنم لیتی ہے۔ چنانچہ رواداری کو زندگی کے ہر شعبے اور رائے کے ہر ممکنہ اختلاف پر لاگو کرنا چاہیے ۔ جان رالز مگر رواداری کی حدود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غیر رواداری کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ رواداری کے نام پر غیر رواداری کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ اگر امتیازی سلوک، تفرقے، تشدد، اشتعال انگیزی اور ناانصافی کی صورت حال ہو تو ہمیں یہ درس نہیں دیا جا سکتا کہ ہم رواداری کے نام پر اسے برداشت کریں۔ ہم مگر ایک طرفہ مزاج گروہ ہیں ۔ ماہ رواں کی ابتدا میں سندھ اسمبلی نے اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر متفقہ طور پر ایک قانون پاس کیا تھا ۔ یہ مسودہ قانون 2015 ءمیں فنکشنل مسلم لیگ کے رکن اسمبلی محترم نند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا۔ اس قانون میں کہا گیا کہ کسی نابالغ غیر مسلم کو مسلمان کرنے کے ذمہ دار فرد اور اس کی اعانت کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ البتہ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے والے غیر مسلم شہری کو آئین کے مطابق اپنے عقیدے کو تبدیل کرنے کی پوری آزادی ہو گی ۔ اگرچہ اسے اس فیصلے پر مزید غور و فکر کے لیے اکیس روز کی مہلت دی جائے گی۔ پس منظر اس قانون کا یہ ہے کہ گزشتہ کئی برس سے سندھ میں نابالغ ہندو بچیوں کے قبول اسلام کی خبریں آتی ہیں ۔ پاکستان میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حسن ،
اخلاق اور عقائد کی حقانیت سے متاثر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دقت مگر اس میں یہ رہی ہے کہ دین حق کی روشنی بالعموم کم عمر ہندو لڑکیوں پر واضح ہو رہی ہے۔ ہندو لڑکے حیران کن طور پر ضمیرکی اس بیدار ی سے محروم چلے آرہے ہیں۔ ایک دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والی کم عمر بچی کم و بیش التزام کے ساتھ ایک مسلمان مرد کے ساتھ شادی بھی کر لیتی ہے۔ قبول اسلام کے ان واقعات میں کچھ خاص علمائے کرام کا اسم گرامی تواتر سے ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ محترم سیاست دان ہیں جو اس کار خیر میں فعال نظر آتے ہیں۔ ان اتفاقات کی روشنی میں کچھ ناخوش اندیش عناصر کا خیال ہے کہ غالباً ہندو کمیونٹی کی معاشی، سیاسی اور سماجی پسماندگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان بچیوں کو زبردستی تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ مسلمان ہونے والی بچیوں کو عام طور سے ان کے والدین اور دیگر اہل خانہ سے آزادانہ میل ملاپ کا موقع نہیں دیا جاتا۔ سندھ اسمبلی نے عقیدے کی آئینی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے کوشش کی کہ مذکورہ قانون کی مدد سے غریب ہندو گھرانوں کی تشویش کو احساس تحفظ میں تبدیل کیا جائے۔ اس پر کچھ صاحبان بصیرت بھڑک اٹھے ۔ دھمکیاں دی گئیں۔ سندھ کے ممتاز سیاسی رہنما نثار کھوڑو نے ان دھمکیوں کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں افسوس ناک قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان نے فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین محترم آصف علی زرداری نے جماعت اسلامی کے رہنما محترم سراج الحق کو فون کر کے اس قانون پر نظرثانی کا عندیہ دیا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ اس قانون کو واپس لینے کا معاملہ زیر غور ہے۔ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں ۔ مفاہمت مگر ان معنوں میں کمزور اور مقہور کو مفاد کی دہلیز پر قربان کرنے کے مترادف ٹھہرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کے علمبردار آصف زرداری صاحب سے توقع کی جاتی تھی کہ انہیں جان رالز کا بیان کردہ اصول یاد ہو گا ۔ غیر رواداری کو برداشت کرنا رواداری نہیں کہلاتا۔ تادم تحریر آصف علی زرداری کی طرف سے مذہبی رہنماﺅں کے ساتھ اس قسم کے رابطوں کی تردید نہیں آئی۔
ادھر 12 دسمبر کو چکوال کے قصبے دولمیال میں ہنگامے کے بعد چالیس کے قریب اقلیتی گھرانے جان بچا کر بھاگ گئے تھے۔ گھروں پر تالے لگے ہیں۔ دکانیں بند ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی تعریف کا پہلو یہ ہے کہ کوئی گھر نہیں لٹا اور دکانوں کے تالے سلامت ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ کچھ عورتیں اور بچے گاﺅں میں واپس بھی آگئے ہیں۔ یہ لوگ آئی ڈی پی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ اگر یہ 12 دسمبر کی دوپہر گاﺅں میں نظر آتے تو ان کی جان و مال کو شدید خطرہ لاحق تھا۔ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے درپردہ مخالفوں نے گزشتہ برسوں میں وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کا معاملہ شدومد سے اٹھایا ہے۔ ایسا کرنا بالکل حق بجانب تھا ۔ کسی شہری کو اس کے گھر، روزگار اور وطن سے بے دخل نہیں ہونا چاہیے مگر بے گھری پر کسی خاص عقیدے کی مہر نہیں ہوتی۔ خیال تھا کہ دولمیال کے ان بے گھروں پر بھی شفقت کی نظر ڈالی جائے گی مگر اس کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ کئی برس پہلے پشاور اور گردونواح سے بہت سے سکھ گھرانے بے گھر ہو کر اسلام آباد چلے آئے تھے ۔ آخری اطلاعات تک سڑک کے کنارے جھگیاں کھڑی ہو چکی تھیں۔ ان سکھ گھرانوں کی بپتا کوئی بیان نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس محترم تصدق حسین جیلانی نے 19 جون 2014 ءکو پشاور چرچ پر حملے کی تحقیقات کے بارے میں ایک تاریخ ساز حکم جاری کیا تھا۔ جسٹس صاحب کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کی ریاست کا مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تحفظ اور مساوات کا معاہدہ ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 میں عقیدے کی آزادی کو کسی خاص عقیدے سے مشروط نہیں کیا گیا۔ ہمارے ایک محترم صحافی اس طرح کے معاملات میں کراچی کے ایک صاحب تقویٰ کے فرمودات اکثر نقل کرتے ہیں ۔ صاحب تقویٰ کبھی انہیں ای میل پیغام مرحمت فرماتے ہیں تو کبھی ٹیلی فون پر رشد و ہدایت کا سلسلہ استوار ہوتا ہے۔ صاحب تقویٰ کے علم اور بصیرت میں کلام نہیں تاہم ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی قانون میں درک رکھتا ہے۔ ملک کے دستور کی تشریح عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اگر کبھی موقع ہوا تو محترم تصدق حسین جیلانی کے حکم کا متعلقہ حصہ ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔ ابھی درخواست یہ ہے کہ سندھ اسمبلی سے منظور شدہ قانون پر نظرثانی کرتے ہوئے اقلیتی شہریوں کی آزادی اور تحفظ کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔ اشتعال انگیزی کے عادی عناصر کی خبر لینی چاہیے۔ محترم وزیراعظم نواز شریف اور بلاول بھٹو کی طرف سے رواداری کے علامتی مظاہروں پر طعن و تشنیع بجا مگر رواداری کے نام پر رواداری کو سانس لینے کا موقع دینا چاہیے۔
(بشکریہ ہم سب )