اختصارئےزابر سعید بدرلکھاری
دختر مشرق کا دکھ اور لاہور کا سناٹا ۔۔ محمد زابر سعید بدر

وہ چند لمحے ، 27 دسمبر 2007 کی وہ خون آلود سہ پہر کبھی بھلائی نہیں جا سکتی یہ وہ لمحات تھے جس پر آنے والی کئی صدیاں آنسو بہاتی رہیں گی وہ رات جب میں روزنامہ جنگ میں اپنے فرائض کی بجا آوری کے بعد گھر جا رہا تھا لگتا تھا درخت رو رہے ہیں سڑکیں سسکیاں لے رہی ہیں خاموشی بین کر رہی ہے ایک سناٹا تھا اس لاہور میں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ شہر ہے جو کبھی نہیں سوتا ۔ جس دن بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا تھا مجھےلاہور کی وہ شام بھی یاد ہے بازار کھلے تھے روشنیاں بھی تھیں گو کہ لوگ افسردہ اور دکھی تھے لیکن 27 دسمبر کا دکھ لاہور کو ماتم کدہ بنا گیا بس اندھیرا خوفناک سکوت، سنسان سڑکیں اور بازار ….
اس رات لاہور میرے لئے اجنبی ہو گیا تھا اس لاہور کو میں نہیں جانتا تھا لاہور جو سر شاہ نواز کے بیٹے زلفی کی درد ناک موت کا دکھ سہہ گیا لیکن مظلوم دختر مشرق کا دکھ نہیں سہہ پایا اس رات لاہور کو میں نے بین کرتے سنا. آہ دختر مشرق جو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی وقت کے سب سے بڑے آمر سے اکیلی جا ٹکرائی اس کو سکیورٹی رسک کہا گیا. جب میں نے مرحوم جنرل حمید گل کا انٹرویو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے بینظیر بھٹو محب وطن پاکستانی تھیں ہم غلط تھے ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا… وقت گزر گیا ہے وقت گزر ہی جاتا ہے یادیں رہ جاتی ہیں یہ شہیدوں کا خاندان ہے پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا خون ہے.آپ لاکھ اختلاف کریں ایٹمی پاکستان کا خواب دیکھنے والا کس بے بسی اور بےکسی سے مار دیا گیا اور ہنری کیسنجر کی دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا گیا اس کا حالیہ بیان سامنے آچکا ہے کہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اس وقت کے پاکستانی صدر سے معاملات طے پا گئے تھے ظاہر ہے بھٹو صاحب 1969 میں پاکستان کے صدر نہ تھے.ان کی بیٹی کو سکیورٹی رسک کہا گیا لیکن آج سے ٹھیک 9 سال پہلے کا عوامی پاکستان کچھ اور رد عمل دے رہا تھا اور حکومت پاکستان راولپنڈی کی خون آلود سڑک کو بڑی عجلت میں دھونے میں مصروف تھی…سچ ہے نام تو صرف اللہ کا رہ جانا ہے وقت کے وہ سارے فرعون جو دختر مشرق کے خون ناحق کے دھبے مٹانے میں لگے تھے وہ بھی آخر اسی رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں جہاں کسی کی سفارش نہیں چلتی اور دختر مشرق کو انصاف ملے گا اس ذات سے جو سب سے اچھا انصاف کرنے والا ہے