سبحان اللہ۔ ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ ایسے مبارک وقتوں میں سانس لینا نصیب ہوا۔ اگرچہ اس طور پر سانس لینے کے بارے میں شاعر نے کیا اچھا کہا تھا
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دہری دھار کا خنجر چلے
راولپنڈی میں آٹھ گھنٹے پر محیط بریفنگ سے ہر خاص و عام کو معلوم ہو گیا کہ منتخب حکومت اور ادارے ایک ہی صفحے پر ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے اس اہم اجلاس کا نچوڑ ایک مختصر سے جملے میں سمو دیا۔ ’دل کھول کر رکھ دیے‘۔ دل ناصبور مگر ایک وحشی صفت پرندہ ہے جو ایسے مبارک لمحوں میں پرانی داستانوں کی باز آفرینی کرتا ہے۔ جنوری 2014ء کے ابتدائی ایام تھے۔ ملک میں نوع بہ نوع مذہبی دہشت گردوں نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا تھا۔ حکمران جماعت کی پارلیمانی کمیٹی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی کے حق میں تھی لیکن میاں نواز شریف نے نامعلوم اسباب کی بنا پر طالبان سے مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی کھڑی کر دی۔ اس کمیٹی میں خدا آپ کا بھلا کرے محترم عرفان صدیقی کوآرڈینیٹر تھے۔ ارکان میں رحیم اللہ یوسف زئی، میجر (ریٹائرڈ) عامر اور رستم شاہ مہمند شامل تھے۔ مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کون کر رہا تھا، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔ البتہ مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم کے نام ضرور سنائی دئیے تھے۔ مذاکرات کا پہلا دور ہوا اور عرفان صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’مذاکرات کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ میز کے دونوں طرف متحارب حریف نہیں بلکہ ایک ہی فریق موجود ہے۔‘ اس خیر سگالی کا انجام 15 جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب کی صورت میں سامنے آیا۔ چار برس پرانی خبر دہرانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ گستاخ اخبار نویس فواد چوہدری اور عرفان صدیقی کی خوش بیانی میں موازنہ کر رہا ہے۔ مدعا محض حافظ شیراز کا فرمان یاد دلانا تھا کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکل ہا۔ خود ہمارے اپنے ہاں داغ دہلوی نے کہا، کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے۔
ہماری تاریخ میں یہ اتفاق ایک مقدس روایت کی طرح ساتھ ساتھ چلا ہے کہ ہر حکومت میں ایک چوہدری ضرور ہوتا ہے۔ جیسے چوہدری چھوٹو رام، چوہدری شہاب الدین، چوہدری شجاعت حسین، اور ابھی حال ہی میں پریس کانفرنس کے بین الاقوامی ماہر چوہدری نثار علی اور اب چوہدری فواد حسین۔ تخت خالی رہا نہیں کرتے۔ فواد چوہدری کا ذکر ہو گا تو صحافت کی بات بھی ضرور ہو گی۔ صحافت خبر دینے اور بات کہنے کی آزادی سے منسلک ہے۔ جمہویت میں بندوبست حکومت کے لئے تین آئینی ادارے قائم کئے جاتے ہیں پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ۔ ان تین اداروں کے اختیارات اور باہم جواب دہی کا واضح نظام موجود ہے۔ تاہم جمہوری بندوبست اپنی فعالیت اور توانائی کے لئے ہمارے دستور کے آرٹیکل 19 کا محتاج ہے۔ یہ آرٹیکل شہریوں کو اظہار کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی آرٹیکل کی روشنی میں صحافت ایک جائز تمدنی خدمت اور شہریوں کا بنیادی حق قرار پاتی ہے۔ جمہوریت اگر عوام کی رائے سے قائم ہونے والی حکومت کا نام ہے تو ایسی حکومت کو اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے عوام کے ساتھ مسلسل رابطے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ صحافت وہ پل ہے جو حکومت کی کارکردگی کو عوام تک پہنچاتا ہے اور عوام کی امنگوں کو حکومت کے سامنے رکھتا ہے۔ اظہار کی آزادی کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 19 اگست کو نومنتخب وزیر اعظم قوم سے مخاطب ہوئے تو انہوں نے اپنی تقریر میں آزادی اظہار کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اس شعوری یا لاشعوری کوتاہی پر گرفت کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ وزیر اعظم نے تو اپنے خطاب میں جمہوری بندوبست پر بھی اظہار خیال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے ملک کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے مسائل، مذہبی اقلیتوں حتیٰ کہ وفاق کی اکائیوں میں ہم آہنگی جیسے بنیادی موضوعات بھی کسی اور وقت پر اٹھا رکھے۔ امید کی ایک کرن تب پیدا ہوئی جب کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے لئے ایک وزیر کا انتخاب کیا گیا۔ وزیر اعظم اگر بارہ دیگر وزارتوں کی طرح یہ قلمدان بھی اپنے پاس رکھ لیتے تو ان سے شکوہ تو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ’ہیں جواں، اختیار رکھتے ہیں‘۔
چوہدری فواد حسین صرف سیاست دان ہی نہیں، عملی صحافت میں بھی دخل رکھتے ہیں۔ سوئے اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ پیشہ ورانہ صحافت سے تعلق رکھنے والے وزرائے اطلاعات کے ضمن میں ہمارا تجربہ خوشگوار نہیں رہا۔ زیادہ پرانی بات نہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے جاوید جبار کو وزیر اطلاعات بنایا تھا۔ وہ صحافت کی آزادی پر کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئے چنانچہ انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی سونپ دی گئی۔ محترمہ شیری رحمان وزیر اطلاعات بنیں تو انہیں ایک اخبار کی آزادی کا دفاع کرنے پر مستعفی ہونا پڑا۔ چوہدری فواد نے بھی چھوٹتے ہی سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو کی آزادی کا بیان داغ دیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ وہ نجی صحافتی اداروں کو بھی آزادی کی اس نعمت سے بہرہ ور ہونے کی خوش خبری دے دیتے۔ موجودہ حالات میں تو قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ پانی کچہری تک چڑھ آیا ہے اور تحصیل دار بھی کہیں قریب ہی غوطے کھا رہا ہے۔ مرحوم مشتاق احمد یوسفی فرمایا کرتے تھے کہ صحافت حکمرانوں کے قصیدے لکھنے کی آزادی کا نام نہیں۔ صحافت کی آزادی کا تعین وہ سوال اٹھانے سے ہوتا ہے، جس سوال کو فراموش کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اظہار کی آزادی اس لفظ کو لکھنے اور بولنے سے طے پاتی ہے جسے حرف ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔ خبر یہ ہے آج کل اقتدار کے ایوانوں میں قائد اعظم کا نام لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ چنانچہ بابائے قوم ہی کا ایک ارشاد حاضر ہے۔ 1919ء میں امپیرئل لیجسلیٹو کونسل سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا، ’اگر آپ مجھے اس فلور پر بات کرنے کی آزادی دیتے ہیں تو اس مطلب یہ ہے کہ آپ کو مجھے وہی بات اخبار میں شائع کرنے کی بھی اجازت دینا ہو گی‘۔ قائد اعظم نے یہ خوبصورت اصول ایک صدی قبل بیان کیا تھا۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ایک صدی بعد قومی مفاد کا تقاضا ہو گا کہ صحافی اپنا برا بھلا سوچ کر خود سے طے کر لیں کہ انہیں کیا کہنا اور کیا لکھنا ہے۔ پارلیمنٹ کے فلور پر حالیہ انتخابات کے بارے میں ایک پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پھر ہم صدارتی انتخاب کی بھول بھلیوں میں جا نکلے۔ خدا آصف علی زرداری کو زندگی دے۔ ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی‘۔ اتنی بات کہنا بھی ذرا دشوار تھا مگر محترم چوہدری فواد ہی کی ایک حالیہ اطلاع سے حوصلہ ملا ہے ۔واہ، یہ ہے جمہوریت کا حسن۔ کلیم کون ہوا ہے، کلام کس کا تھا۔ خال رخ یار پر قربان کرنے کے لئے سمرقند و بخارا کی استطاعت نہیں ہے۔ سو روسی شاعر ایفتو شینکو کی ایک سطر آپ کی نذر ہے اور پھر فیض صاحب کا ایک شعر جس کا مطلب پرویز رشید اور فواد چوہدری دونوں اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ایفتو شینکو نے لکھا تھا
“When truth is replaced by silence, the silence is a lie.”
اور ہمارے فیض صاحب نے فرمایا
ادھر ایک حرف کہ کشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ