23 مارچ کو یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب سے حسب روایت سربراہ مملکت آصف علی زرداری نے خطاب کیا۔ کل بارہ منٹ کی تحریری تقریر پڑھنے میں ایک دو جگہ پر انہیں الفاظ کی ادائیگی میں کچھ دقت پیش آئی۔ اس بے معنی قضیے کو لے کر سوشل میڈیا پر بیٹھے انقلابی چوزوں نے ہڑبونگ مچا رکھی ہے۔ پاک پتن کی جامعہ ’رحونیت‘ میں ہوش و خرد کا زر خالص ادا کر کے بے سمت دیوانگی کا سودا کرنے والا غول بیابانی ہماری تاریخ سے واقف نہیں۔
1910ء کا برس تھا۔ منٹو مارلے اصلاحات کے نتیجے میں محمد علی جناح بمبئی ریذیڈنسی سے اور ڈاکٹر سچد انند سنہا بہار سے امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ انتخاب میں قائداعظم سے شکست کھانے والے رفیع الدین اس ناکامی پر اس قدر بھنائے کہ پونا سے کلکتہ صرف یہ ثابت کرنے پہنچے کہ محمد علی جناح مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر سچد انند سنہا نے 1949ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب Jinnah as I Knew him میں رفیع الدین اور قائداعظم کا مکالمہ خاصی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ موجودہ پاکستان کے زود حس پڑھنے والے اس گفتگو کا شاید ایک ہی جملہ ہضم کر سکتے ہیں۔ ’رفیع الدین نے پوچھا کہ کیا آپ اردو جانتے ہیں؟‘ جناح نے جواب دیا۔ ’اتنی اردو جانتا ہوں کہ اپنے ملازمین سے بات کر سکوں۔ مجھے عدالت میں اردو کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ویسے میں گجراتی اچھی طرح جانتا ہوں‘۔ سیاسی مدبر کی قامت آئینی، معاشی اور تمدنی امور کی فہم سے طے ہوتی ہے، زبان دانی سے نہیں۔
6 ستمبر 1965ء کو الطاف گوہر کی لکھی تقریر میں ایک لفظ ’ولولہ‘ کا تلفظ ایوب خان نے جیسے ادا کیا تھا، وہ الطاف حسن قریشی یا شامی صاحب سے پوچھ لیجیے۔ اکتوبر 1971ء میں ایرانی شہنشاہیت کے اڑھائی ہزار سالہ جشن کے موقع پر آغا محمد یحییٰ خان نے سرِ محفل جو گل کھلائے تھے، کسی تقریر میں تلفظ کا تسامح اس سے بڑی قومی شرمندگی تو نہیں۔
دہلی میں پلے بڑھے ضیا الحق کا شین قاف بہت اچھا تھا۔ نثار عثمانی کو الٹا لٹکانے کی دھمکی فصاحت کے کس درجے میں شمار کی جائے گی۔ اگر ذاتی احترام مانع نہ ہوتا تو میں اس بزرگ صحافی کا نام بھی لکھ دیتا جنہوں نے گورنر ہاؤس پنجاب میں ضیا الحق کو تجویز دی تھی کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار صحافی خالد چوہدری اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی دی جائے۔ مارچ 1988 ءمیں جنیوا معاہدے پر دستخط سے پہلے ضیا الحق نے وزیر خارجہ زین نورانی کو خواتین وزرا کی موجودگی میں جو ننگی گالیاں دی تھیں وہ شائستہ بیانی کا کون سا پیرایہ تھا۔ ستمبر 2005ء کو پرویز مشرف نے کینیڈا کے دورے میں خواتین کے بارے میں جس ابتذال کا اظہار کیا تھا اس کی مذمت کینیڈا کے وزیراعظم پال مارٹن نے اقوام متحدہ میں کی تھی۔ محمد خان جونیجو سندھی تھے اور قدرتی طور پر ان کا لب و لہجہ سندھی اصوات سے متاثر تھا۔ ضیا الحق کے حواری محمد خان جونیجو کے تلفظ کا مذاق اڑاتے تھے۔ تاریخی طور پر سرکار دربار کے خوان نعمت سے مستفید ہونے والے عوام کے شین قاف کا ٹھٹھا اڑاتے آئے ہیں لیکن صاحب اقتدار کے لام کاف کو شیر مادر سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ عمران خان نادیدہ کندھوں پر سوار ہو کر حلف اٹھانے وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو اپنا شناختی کارڈ بنی گالا بھول آئے تھے۔ حلف اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ عینک کس جیب میں رکھی ہے۔ بعض ایسے لفظوں کا تلفظ ادا نہیں کر سکے جو بعد میں ’اسلامی ٹچ‘ کا متن قرار پائے۔ مرنجاں مرنج ممنون حسین نے بار بار حلف کے الفاظ ادا کرنے میں عمران خان کی مدد کی۔
اب کچھ ذکر زرداری صاحب کی طلاقت لسانی کا ہو جائے۔ 17 اور 18 مئی 1999ء کی درمیانی رات پولیس نے خبر دی کہ آصف علی زرداری نامی قیدی نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب پر تشدد کیا گیا ہے۔ خودکشی کی یہ منفرد کوشش تھی کہ قیدی نے اپنی زبان پر زخم لگائے تھے۔ اگر طبع نازک اجازت دے تو بی بی سی کے اسلام آباد میں رپورٹر Owen Bennett۔ Jones کی 18 مئی 1999ء کی رپورٹ دیکھ لیجیے۔ زرداری صاحب کی سیاست میں سندھ کے تحمل اور بلوچ روایت کے داؤ پیچ کا آمیختہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اس تشدد کی پولیس رپورٹ فروری 2005ء میں عین اس روز درج کروائی جب وہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے جدہ پہنچ رہے تھے۔ اس رپورٹ میں سیف الرحمن، مجیب الرحمن، رانا مقبول، فاروق امین اور نجف مرزا کو نامزد کیا گیا تھا۔ مقصد نواز شریف کو باور کرانا تھا کہ ہم جسٹس قیوم والے ٹیلی فون سے لے کر پولیس تحویل میں وحشیانہ تشدد جیسے انتقامی اقدامات کو بھلا کر جمہوری مفاہمت کے لیے آپ کے پاس آرہے ہیں۔
اس تشدد کے بعد زرداری صاحب کو بعض الفاظ کی ادائیگی میں مشکل پیش آنے لگی۔ اب جبکہ ان کی عمر ستر برس ہو چکی ہے اور چال ڈھال میں ضعف کے آثار ہیں زرداری صاحب اس تقریر میں بمشکل دو یا تین مقامات پر کسی قدر جھجک کا شکار ہوئے۔ سوال مگر الفاظ کی ادائیگی میں کمزوری کا نہیں، سیاست اگر قادر الکلامی سے عبارت ہوتی تو عطا اللہ شاہ بخاری جیسے خطیب اردو زبان پر کہیں زیادہ عبور رکھتے تھے۔ سیاست قومی مفاد کی سوجھ بوجھ اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا نام ہے۔ آصف علی زرداری نے بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے گیارہ برس جیل کاٹی۔ متعدد قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنائے گئے۔ آصف علی زرداری نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر وفاق سے اپنی وابستگی کا ایسا ثبوت دیا جو پارلیمنٹ میں بلاول بھٹو پر نازیبا آوازے کسنے والوں کے حیطہ خیال سے باہر ہے۔ آصف علی زرداری نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں صوبائی حقوق کی ضمانت دے کر وفاق پاکستان سے وہ وعدہ پورا کیا جو 1973ء سے تعویق میں چلا آ رہا تھا۔ حالیہ جمہوری تاریخ میں شاید ہی کسی سیاسی رہنما نے اپنے قلم سے اپنے ہی اختیارات کم کر کے منتخب پارلیمان کے سپرد کیے ہوں۔ آصف علی زرداری ہماری تاریخ میں لسانی فروگزاشتوں کی وجہ سے نہیں، سیاسی فراست کے لیے جانے جائیں گے۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )