سیاسی حبس کا موسم ہو، جمہوریت داؤ پر لگی ہو، زور آور ہر ہتھکنڈا آزمانے پر آمادہ ہو ں اور سیاسی لیڈر ایک دوسرے کا گریبان پکڑے جمہوریت کے نام پر انسانی حقوق اور آزادی رائے کا خون کررہے ہوں۔ عدالتوں پر پہرے لگے ہوں۔ ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے والے ٹک ٹک دیدم کی مثال بن چکے ہوں اور چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ، کی مثال بن چکے ہوں۔
ملک میں بحران ہو۔ یہ مالی بحران یا معاشی پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ فکری اور نظریاتی کشمکش کا ایسا سماں ہو جس میں دلیل سننے کی بجائے نعرے لگانے کا منظر عام ہوچکا ہو۔ مسائل کا ذکر ضرور ہو لیکن انہیں سیاسی مفادات کے لیے نعروں میں لپیٹ کر محض لذت کوشی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہو۔ ملک میں عوام کے حق حکمرانی کی بات محض زیب داستاں تک محدود ہوچکی ہو اور کسی طرف سے عوام کو اہمیت دینے اور ان کے حالات کار تبدیل کرنے پر غور کی ضرورت محسوس نہ کی جارہی ہو۔ سب کے پاس اچھے اچھے لیڈر ہوں لیکن کسی کے پاس کوئی ایسا اچھا منصوبہ نہ ہو کہ جس پر عمل کرکے مسائل کا احاطہ کیا جائے اور انہیں حل کرنے کی راہ پر چلا جائے۔
ملک اور اس میں آباد لوگ ایسے دوراہے پر ہوں جہاں انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ اس ملک کو کن اصولوں پر آگے لے کر چلنا ہے۔ وہ کون سی نظریاتی بنیاد ہوسکتی ہے جس پر اتفاق رائے بھی ہو، معاشرے میں آباد بیشتر طبقات کے عقائد، احساسات اور ضروریات کا احترام بھی ملحوظ خاطر رہے، کسی کو نیچا دکھائے بغیر اپنی بات کہنے اور اسے سننے کا چلن عام ہوسکے۔ ملک میں ایسے مباحث عام ہوسکیں جن سے سوالوں کے جواب ملیں اور فاصلے پیدا کرنے کی بجائے انہیں پاٹنے کا کی راہ ہموار ہو۔ جہاں سوال کرنا جرم نہ ہو بلکہ بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہو ،جس ماحول میں اختلاف صحت مند انسانی رویہ کی علامت سمجھا جائے، اسے ذات یا ملک و قوم کے وجود پر حملہ قرار نہ دیا جائے۔ گویا ایسا ماحول پیدا ہوسکے کہ ہر شخص بات کہہ سکے لیکن اس میں دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ بھی ہو اور پھر مل جل کر ملک کی تعمیر میں جٹ جانے کا جذبہ بھی موجود ہو۔
جب ایسے مناظر کوئی بھولا بسرا خواب محسوس ہوں، جب سیاسی جماعتیں سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل پیش کرنے کی بجائے اقتدار حاصل کرنے کے گر یاد کرنے کی تگ و دو میں ہوں، جب قلم مزدوری کرنے والے اپنا فرض بھول چکے ہوں اور ہیجان و سنسنی خیزی کے ذریعے اپنا ’سودا‘ بیچنے کی دوڑ میں مگن ہوں، جب خوشامد اعزاز کا سبب بن جائے ، جب رشوت سکہ رائج الوقت ہوجائے، جب جینے کے لیے جھوٹ بولنا لازمی سمجھا جانے لگے اور جب واعظ راہ نجات کے نام پر اپنی شان اور مال و زر میں اضافے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہو۔ ایسے وقت میں کس سے امید لگائی جائے۔ کون ہو جو ننگے بادشاہ کو کہہ سکے کہ ’عالی جاہ آپ تو ننگے ہیں‘۔ جب نہ تو یہ کہنے والا بچہ دکھائی دیتا ہو اور نہ ہی وہ صداقت جس کی کوکھ سے ایسے معصوم جنم لیتے ہیں۔
ایسے میں کوئی کیا کرے؟ پھر کہا جائے کہ معاشرے کی درستی ، سیاسی رہنمائی، سماجی اصلاح اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں صحافی کو کردار ادا کرنا چاہئے تو وہ کیسے یہ کام انجام دے۔ وہ تو پوچھے گا کہ کیا اس کے بچوں کو بھوک نہیں لگتی۔وہ سوال کرے گا کہ کیا اس کی ضرورتیں معاشرے کے لوگوں سے کم تر ہیں۔ یہ استفسار بھی ہوگا کہ صرف صحافی ہی کیوں ، استاد کیوں نہیں؟ دانشور کیوں نہیں؟ ادیب کیوں نہیں؟ آخران سب پر بھی تو یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جو دیکھیں، اسے بیان کریں۔ سوال کریں اور ان کے جواب تلاش کرنے میں معاونت کریں۔ خواب دکھائیں تو ان کی تکمیل کا راستہ بھی بتائیں۔ پھر صحافی ہی کیوں اور وہ بھی تن تنہا۔
پھر صحافی کون ہے۔ اس کے پاس کون سی حکومت کا اختیار ہے۔ وہ کم بخت تو اپنے مالک کو وقت پر تنخواہ دینے کے لیے مجبور کرنے کے قابل نہیں، وہ آخر ملک کی رفتار کا تعین کیسے کرسکتا ہے۔ کیسے حکومتوں کو سچائی و انصاف کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتا ہے۔ وہ کیسے تن تنہا جھوٹ کے طوفان میں سچ بولنے کا علم بلند کرے اور محفوظ بھی رہے۔ کیا اسے اپنی جان عزیر نہیں ہے۔ اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ : جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ صحافت اور صحافی کے کردارکو سیاسی انقلاب، سماجی طوفان، یااصلاح احوال کی تحریک سمجھنے کی غلط فہمی سے باہر نکلا جائے۔
یہ سب باتیں کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوتی ہے کہ اس وقت ملک میں آئینی جمہوری نظام کام کررہا ہے۔ ایک ’منتخب‘ حکومت برسر اقتدار ہے اور وہ پوری تندہی سے ملکی مسائل حل کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن وہ جسے زبان خلق کہتے ہیں، اس میں کوئی اس جمہوریت کوکوئی ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔مضحکہ خیزی تو یہ بھی ہے کہ اس حکومت کے کل پرزے کے طور کام کرنے والے وزیر و مشیر بھی یہ ماننے میں بخل سے کام نہیں لیتے کہ یوں تو یہ ہائبرڈ نظام ہے لیکن اسے جمہوریت سمجھ لیا جائے کیوں کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔ صحافی اس بھلائی کی کھوج کرسکتا ہے۔
صحافی سے بڑی امیدیں وابستہ کرنا درست نہیں ۔ لیکن یہ توقع کرنا جائز و درست ہے کہ وہ خبر کی سچائی پر مصالحت نہیں کرے گا۔ خبر یا کسی وقوعہ کو سیاسی سوچ کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھے گا۔ وہ اس اصول کو پلے باندھے گا کہ کسی سانحہ، وقوعہ یا معاملہ کے بارے میں اس تک جو معلومات مصدقہ اور درست ذرائع سے پہنچیں گی ، وہ انہیں پوری دیانت داری سے لوگوں تک پہنچا دے گا۔ ایسے میں یہ سوال اہم نہیں رہتا کہ ’سچ سننا کون چاہتا ہے‘۔ ایک شخص جس نے صحافت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہے، اس نے اپنے ضمیر سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ درست خبر کو عام کرے گا اور اس میں کسی خاص مقصد سے رنگ آمیزی کرکے سچ چھپانے یا اسے گمراہی کے لیے استعمال کرنے کا کام نہیں لے گا۔ واقعات کی درست رپورٹنگ ایک صحافی کا بنیادی فرض ہے۔ ایک ایڈیٹر پر لازم ہے کہ وہ مصدقہ اور متوازن و غیر جانبدرانہ انداز میں بیان کی گئی خبر کو شائع یا نشر کرنے میں سہولت کار ہو، اس میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے۔
صحافی سے نہ تو انقلاب بپا کرنے کی توقع کی جائے اور نہ ہی صحافی اپنے تئیں سچائی کی کسی بلند مسند پر جلوہ افروز ہوکر باقیوں کو جھوٹا قرار دینے کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔ صحافی سے دیانت داری، اعتدا ل و توازن، اقتدار سے فاصلہ اور اقدار کی پاسبانی کی امید کی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے ساتھ خلوت گاہوں میں وقت گزارنے والے شام کو ٹاک شوز میں عوام کی ہمدردی کا دم بھرنے کا ڈرامہ کریں گے تو ان کی بات میں سچائی دکھائی نہیں دے گی۔ وہ راستے پر دیا جلانے کی بجائے روشنی کو سمیٹنے کا کام کررہے ہوں گے۔ ذاتی منفعت یا کسی عہدہ کے لالچ میں بعض عناصر کے پروپیگنڈے کو خبر بنا کر عام کرنے والوں کو صحافی نہیں کہا جائے گا۔ صحافی، دشمنی دوستی سے بالا ہوگا۔ اس کے سب دوست ہوں لیکن وہ صرف سچ کا دوست ہو اور درست خبر کا راستہ روکنے کی بجائے اس کی راہ ہموار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو اور طریقہ بھی جانتا ہو۔ صحافی کلرک نہیں ہوتا کہ دفتری نظام یا صاحب بہادر اس کے لیے سہولتیں بہم پہنچائیں۔ و ہ اپنے ضمیر کا نمائیندہ ہوتا ہے جس نے خود سے خبر عام کرنے کا ذریعہ بننے کا عہد کیا ہوتا ہے۔ اس عہد سے گریز کرنے والا صحافت کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
صحافی غلطیوں سے پاک نہیں ہوتا لیکن اسے گروہ بندی سے بلند و بالا ہونا چاہئے۔ اس کے سیاسی خیالات ہوسکتے ہیں لیکن اس کا پیشہ اسے ان خیالات کی بنیاد پر خبر کی ترسیل میں بددیانتی کا حق نہیں دیتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں آئیں تو کوئی حرص، کوئی لفافہ، کوئی حکم یا کوئی مجبوری اسے ان رکاوٹوں کے سامنے سر خم کرنے پر مجبور نہ کرے۔ صحافی بھرتی نہیں ہوتے، صحافت پورے ہوش و حواس سے ، شعور کے بھرپور احساس کے ساتھ اختیار کی جاتی ہے۔ صحافی یہ سوال نہیں کرسکتا کہ اسے خبر دینے کا آخر کتنا معاوضہ ملتا ہے کہ وہ کبھی کبھی اسے فروخت نہ کرے۔ اگر دولت کمانا ہی ا س کا مقصد تھا تو معاشرے میں اس کے بہت سے دوسرے طریقے موجود ہیں۔ وہ بھی ان میں کوئی راستہ اختیار کرسکتا ہے لیکن صحافی کے طور پر ایک ٹھوکر پورے معاشرے کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہے۔
آج کے پاکستان میں سیاست، عدالت، دانش اور درس گاہ آئین کی بالادستی کو اولین اصول ماننے سے گریز کے راستے پر گامزن ہیں۔ صحافی کی سچی خبر اور غیر متزلزل عزم اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا واحد مؤثر راستہ ہے۔ خبر لانے والا رپورٹر، اسے ایڈٹ کرنے والا صحافی اور ترسیل کی حتمی اجازت دینے والا مدیر اگر خبر کے ساتھ دیانت دار ہوجائیں تو معاشرے میں آئینی بالادستی کا خواب پورا ہونے میں وقت تو لگے گا لیکن یہ راستہ کھوٹا نہیں ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

