عام طور سے جنگ اور بدلہ لینے کی دھمکیاں بھارت کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں لیکن اب پاکستانی قیادت کسی مبینہ بھارتی حملے کی اطلاع دے کر بھرپور اور منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کررہی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور نئی دہلی کے ساتھ سرد مہری کے باوجود خطے کے موجودہ حالات میں عسکری تصادم کا اندیشہ نہیں ہے۔ تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دو روز قبل ابوظہبی میں ممکنہ بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا اندیشہ ظاہر کیا تھا ۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی جھوٹ کی بنیاد پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹ پیغامات میں واضح کیا کہ لائن آف کنٹرول پر شدید جارحیت کے علاوہ بھارت میں نریندر مودی کی انتہاپسند حکومت داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہے۔ وزیر اعظم کے ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ میں اقوام عالم کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت کے اندرونی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور سے معاشی انحطاط، کسانوں کا احتجاج اور کورونا کے حوالے سے ناقص پالیسی کی وجہ سے نریندر مودی کی حکومت پاکستان پر جھوٹی الزام تراشی کرتے ہوئے کوئی کارروائی کرے گی۔ اگر بھارت نے ایسی کوئی حرکت کی تو پاکستانی قوم پورے جذبے سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا ہر سطح پر مناسب اور منہ توڑ جواب دے گی۔ کسی کو اس حوالے سے غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے‘۔
اس سوال پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے کہ اس وقت ایسے کون سے حالات ہیں جن میں پاکستان کو بھارتی حملے کا خطرہ ہے۔ وہ اقوام عالم کو خاص طور سے متنبہ کررہا ہے کہ حالات کو سنبھالا جائے ورنہ پاکستان بھی بھارتی جارحیت کو برداشت نہیں کرے گا۔ اول تو کسی بھی قومی لیڈر، حکومت یا سول و فوجی ترجمان کو بطور خاص یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ اگر دشمن نے حملہ کیا تو اس کا ’منہ توڑ اور بھرپور‘ جواب دیا جائے گا۔ جب لائن آف کنٹرول پر ایک گولی کا جواب دس جوابی فائر سے دیا جاتا ہے تو یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ اگر بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کرکے پاکستان کے خلاف کوئی محدود یا غیرمحدود جنگی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو اس کا فوری اور ممکنہ حد تک مؤثر جواب دیا جائے گا۔ اس بات سے جس حد تک اہل پاکستان آگاہ ہیں ، اس سے زیادہ بھارتی قیادت باخبر ہے۔ پھر بھی خاص طرح کے حالات میں جب اسی عزم کو بار با ربیانات، پریس کانفرنسز اور ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے دہرایا جاتا ہے اور ملک کا وزیر اعظم بنفس نفیس اس الزام تراشی کا حصہ بنتا ہے تو اس سے تشویش بھی لاحق ہوتی ہے اور اس ’خوف و اندیشے‘ کی وجوہ و امکانات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔
بھارت عام طور سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران نئی دہلی نے جارحانہ بیان بازی سے گریز کیا ہے۔ لیکن اب پاکستان جنگ کا خوف مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارتی الزامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں تخریبی اور شدت پسند کارروائیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرنا ہوتا تھا۔ یا پھر بھارتی اہداف کے خلاف دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کی ہے۔ اب پاکستانی قیادت یہ دعویٰ کررہی کہ اس کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں کہ بھارت کسی جعلی معاملہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک قسم کی کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جس طرح بھارت کبھی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ پاکستان نے کب اور کہاں دہشت گردوں کے ذریعے بھارتی مفادات کو نقصان پہنچانے یا مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں عسکری عناصر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی ایسی معلومات سامنے نہیں لایا جن کی بنیاد پر عام شہری یا مبصرین اندازہ کرسکیں کہ بھارت کن خطوط پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران پاکستان نے مبینہ دہشت گردی، قوم پرست عناصر کی حوصلہ افزائی اور تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کے حوالے سے بھارت کے خلاف ایک ’ڈوزئیر‘ جاری کیا تھا۔ اس بارے میں وزیر خارجہ اور آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس منعقد کی تھی۔ بھارت نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا لیکن اس سے قطع نظر ان دستاویزات میں شامل معلومات میں کوئی نئی بات نہیں تھی اور نہ ہی پاکستان کے خلاف بھارتی سرگرمیوں کے ایسے شواہد موجود تھے جن کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان چوکنا ہوتے اور جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم کو ٹالنے کے لئے کوئی سرگرمی دیکھنے میں آتی۔
پاکستان کی اس کوشش کو زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈا جنگ جوئی کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے پہلے اس ڈوزئیر پر پریس کانفرنس ہوئی ، پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک اسے پہنچانے کی خبر کو پرجوش طریقے سے پیش کیا گیا۔ بھارتی جواب مسترد کرکے اس مہم جوئی کو جاری رکھنے کی کوشش کی گئی۔ جمعہ کو ابوظہبی میں شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس سے پہلے وقتاً فوقتاً اس ڈوزئیر کی عالمی سطح پر ’پذیرائی‘ اور دنیا کی حیر ت و استعجاب کے بارے میں بیان دے کر عوام کو پاکستانی حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر خارجہ کو متحدہ عرب امارات کے دورہ کے دوران پریس کانفرنس کرکے بھارتی خطرے سے آگاہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ شاہ محمود قریشی کی اس پریس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ کے پاس کوئی نئی بات نہیں تھی اور وہ پاکستانی ڈوزئیر اور ایجنسیوں کی معلومات کا حوالہ دے کر ہی بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا اندیشہ ظاہر کررہے تھے۔اسی شام پاکستان میں البتہ وزیر اعظم کے اس ٹی وی انٹرویو کا چرچا تھا جس میں وہ نواز شریف کے بیان پر فوج کے غم و غصہ اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی سوجھ بوجھ اور جمہوریت پسندی کی تفصیلات بتا رہے تھے۔ یعنی ایک ایسے وقت میں جب وزیر خارجہ بیرون ملک دورہ کے دوران پاکستان کی جغرافیائی سالمیت کو لاحق خطرے کا اعلان کرنا ضروری سمجھ رہے تھے، وزیر اعظم کے لئے اپوزیشن کے ساتھ سیاسی حساب بے باق کرنا اہم تھا۔ اس پس منظر میں شاہ محمود قریشی کی اس سنسنی خیز پریس کانفرنس کو ’توجہ ‘حاصل کرنے کی کوشش سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اس سے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں ہے کہ ڈوزئیر کی بنیاد پر بھارت کے خلاف کی جانے والی بیان بازی سے مطلوبہ سفارتی نتائج حاصل نہیں ہوسکے جس کے بعد وزیر خارجہ کو فوری پریس کانفرنس میں بھارتی حملے کے خطرہ کی گھنٹی بجانا پڑی۔ پریس کانفرنس کے لئے ابوظہبی کا انتخاب بھی ایک سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے مقابلے ابوظہبی میں پاکستانی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کو غیر ملکی میڈیا زیادہ اہمیت دیتا ۔ اس طرح بھارت کے خلاف پاکستانی مؤقف کو عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ مل سکتی تھی۔ بظاہر پاکستانی وزارت خارجہ اس کوشش میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔
اب لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے مبصرین کی گاڑی پر مبینہ بھارتی فائرنگ کو غیرمعمولی طور سے اہمیت دی جارہی ہے۔ حالانکہ اس میں پاکستان کی بجائے اقوام متحدہ خود فریق ہے کیوں کہ اس کے مبصرین کی زندگی کو خطرہ لاحق ہؤا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے بیان میں گاڑی پر فائرنگ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی احتجاج کیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان اس معاملہ کو بحرانی انداز میں پیش کرکے عالمی منظر نامہ پر توجہ حاصل کرنے کی کوشش ضرور کررہا ہے۔ اب وزیر اعظم نے اس ساری صورت حال پر ٹوئٹ پیغامات میں وہی تاثر قائم کیا ہے جو دو روز پہلے شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے ذریعے ظاہر کیاتھا۔ سوال ہے کہ کیا پاکستان حقیقی معنوں میں بھارتی حملے کا خطرہ محسوس کررہا ہے یا اس بارے میں شور مچا کر خود داخلی مشکلات اور معاشی مسائل سے توجہ ہٹانے کا وہی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا الزام نریندر مودی کی حکومت پر عائد کیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کو داخلی طور سے متعدد مسائل کا سامنا ہے لیکن کیا پاکستان کو اس سے کم بڑے اور سنگین مسائل درپیش ہیں؟ بھارت میں تو کسان چند قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن پاکستان میں متحدہ اپوزیشن ملکی آئین کی خلاف ورزی پر سراپا احتجاج ہے اور جمہوریت کے نام پر مسلط نظام کو جعلی قرار دے رہی ہے۔ وزیر اعظم سمیت پوری حکومت گزشتہ دد ماہ سے اپوزیشن کے سیاسی حملوں کا جواب دینے میں مصروف ہے۔ نریندر مودی کے اقتدار کو ایسا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بھارتی حملہ کے بارے میں اگر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے اندیشے درست ہیں تو پبلک بیانات میں ان کی تشہیر کی بجائے سنجیدہ سفارتی ذرائع سے متعلقہ طاقتوں کو مطلع کرنے اور بھارت کو کسی اشتعال انگیزی سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔
موجودہ صورت حال میں تو یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ اسلام آباد کی خارجہ پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے ممکنہ بھارتی جارحیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ بیانات بھارت یا اقوام عالم کو تو متاثر نہیں کریں گے لیکن پاکستانی عوام کے خوف اور سرمایہ کاروں کی بے یقینی میں ضرور اضافہ ہوگا۔
( بشکریہ کاروان ۔۔ ناروے )