پاکستان تحریک ِانصاف کے اکرام اللہ گنڈہ پور، بلوچستان عوامی پارٹی کے سراج رئیسانی اور عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی امیدوار ہارون بلور سمیت پچھلے دو ہفتے میں کم ازکم 178 افراد انتخابی مہم کو درپیش دہشت گردی کا لقمہ بن چکے ہیں۔ چاروں صوبوں میں کئی امیدواروں یا ان کے قافلوں پر فائرنگ کی وارداتیں الگ ہیں۔کچھ امیدواروں کو حریف جماعتوں کی جانب سے سنگین خطرات کا بھی سامنا ہے۔ جیسے کراچی میں قومی اسمبلی کے ایک آزاد امیدوار جبران ناصر اور ان کے حامی مذہبی جماعتوں کے حمایتیوں کی طرف سے پتھراؤ، اشتعال انگیزی، گھیراؤ اور فتووں کی زد میں ہیں اور صورتِ حال اس نہج پر ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بری خبر آ سکتی ہے۔شدت پسندی کے مرتکب افراد پر نگاہ رکھنے والی شیڈول فور کی فہرست پر نظرِ ثانی کے سبب کالعدم شدت پسند تنظیموں کی قیادت و کارکنان مختلف پلیٹ فارمز استعمال کرکے انتخابی مہم میں نہ صرف حصہ لے رہے ہیں بلکہ خود کو ملک گیر وفاق پرست کہلانے والی جماعتوں کے امیدوار بھی جہاں جہاں ضرورت پڑ رہی ہے ان شدت پسند اور کالعدم تنظیموں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہے ہیں، ان کی حمایت کے سرٹیفکیٹ لے رہے اور ضرورت پڑے تو خود بھی مذہبی اشتعال پھیلانے والے ٹکڑے اپنی تقاریر میں استعمال کر رہے ہیں۔بس اس لیے کہ ووٹ چاہیے۔ بھلے وہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے وعدے پر ملے یا مذہبی اقلیتوں پر تیر برسا کر اکثریت کی ہمدردیاں سمیٹنے کی شکل میں دستیاب ہو یا ابلیس سے ہاتھ ملا کر مل جائے۔ بس ووٹ مل جائے۔
جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ ہے تو حسبِ منشا مثبت نتائج اور ایک غیر مستحکم ربڑ سٹیمپ پارلیمینٹ کا ہدف حاصل کرنے کے لیے تمام مطلوبہ وسائل، حربے اور گھوڑے استعمال کرنے کا تاثر اب ملکی حدود سے اوپر بین الاقوامی سطح تک پھیل گیا ہے۔ اس کے پیچھے سوچ یہی ہے کہ ملک کا طویل المیعاد سیاسی، علاقائی، بین الاقوامی اور اقتصادی مفاد تو کل بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے 25 جولائی تو سیدھا کر لیں۔کل ملا کے اب تک اتنا گند اچھل چکا ہے کہ اگر 25 جولائی کو انتخابات سو فیصد صاف و شفاف بھی ہو جائیں تب بھی نتائج کے ماتھے پر سوالیہ نشان کا سٹیکر چپکا رہے گا۔مگر اس سے بھی خطرناک یہ پہلو ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر بھی پہلے سے تحفظات زیادہ ہیں اور خود جج الزامات لگانے پر اتر آئے ہیں۔ مثلاً اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بھلے اپنی بعض آبزرویشنز، فیصلوں یا پیشہ ورانہ کنڈکٹ کے تعلق سے کتنے ہی متنازع ہوں لیکن ایک اعلیٰ عدالت کے حاضر سروس جج کے طور پر کہ جو سینیارٹی کے اعتبار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا اگلا چیف جسٹس بننے کا اہل ہے، ان کی باتوں کو غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔اگر جسٹس صدیقی کی جانب سے کسی کو عمر قید یا سزائے موت دینے کے فیصلے کو قبول کیا جا سکتا ہے تو پھر ان کے اس الزام پر بھی کان دھرنے کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس وقت انٹیلی جینس ایجنسیوں کے نرغے میں ہے۔یہ اتنا سنگین الزام ہے جس کی تحقیقات کے لئے فوراً ایک آزاد و خود مختار عدالتی کمیشن کے قیام اور سفارشات پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ جتنی دیر ہوتی جائے گی اتنے ہی سائے گہرے ہوتے جائیں گے۔ اس مجوزہ کمیشن کا دائرہ کار محض یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک حاضر سروس جج نے ضابطہِ کار یا ضابطہِ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے لہذا اس کے خلاف تادیبی کاروائی ہونی چاہیے کہ نہیں۔ بلکہ کمیشن کے مینڈیٹ میں یہ بھی شامل ہونا چاہئیے کہ مذکورہ جج نے جو الزامات لگائے ہیں ان کی تہہ تک پہنچا جائے۔ اگر الزامات بے بنیاد ثابت ہوں تو جج کو کٹہرے میں لایا جائے بصورتِ دیگر عدلیہ کی حرمت، دائرہ کار اور کردار سے کھلواڑ کرنے والوں پر بلا امتیاز فردِ جرم عائد کی جائے۔دودھ اور پانی فوری طور پر اس لیے الگ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عدلیہ سے اعتماد اٹھنے کا مطلب انصاف سے اعتماد اٹھنا اور انصاف سے اعتماد اٹھنے کا مطلب ریاست پر سے اعتماد اٹھنا ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ