ملتانی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرتے تھے ؟
وہ حملہ آوروں کو گردنیں ہی نہیں مال و اسباب بھی پیش کرتے ہیں۔ڈھور ڈنگراور ڈھورڈنگروں کی طرح زندگی بسرکرنے والی عورتیں بھی حملہ آوروں کے حوالے ہوجاتی ہیں۔اور پھرایک کے بعد دوسرا حملہ آور آتا ہے ۔کوئی فارس سے ،کوئی عرب سے، کوئی افغانستان سے ،کوئی وسط ایشیاءسے اورکوئی کسی اور دوردراز علاقے سے ۔تو پھرجب حملہ آور یہاں آتے تھے تو کیا یہاں کے مہمان نوازلوگ ان کامقابلہ نہیں کرتے تھے؟ کیا وہ اپنی گردنیں کسی مزاحمت کے بغیر ہی پیش کردیتے تھے۔ اورکیا وہ قتل ہونے کے لئے پہلے ہی تیارہوتے تھے۔
مخدوموں اور وڈیروں کے دربار سے روابط
دریا کے حصار میں شہر آبادتواس لیے کیاگیاتھا کہ یہ ملتانیوں کو حملہ آوروں سے بچائے گا۔ لیکن دریا نے کوئی راستہ تو کھلا چھوڑنا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ایسا راستہ کہ جہاں سے کوئی حملہ کرسکے یا پھرجب حملہ پسپا ہو توفرارہوسکے۔ اور یہ راستے مشرق اور جنوب میں تھے۔ مشرق کی طرف دہلی تھا جو تخت بھی تھا اور جس سے روابط اسی طرح یہاں کے وڈیروں اور پیروں کے لئے باعث اعزاز تھے جیسے آج اسلام آباد یا واشنگٹن کے ساتھ تعلق پر یہاں کے وڈیرے اور مخدوم فخر کرتے ہیں۔ سو یہاں کی برگزیدہ ہستیاں ،یہاں کے خان ،یہاں کے وڈیرے بہت اہتمام کے ساتھ دہلی کی جانب سفر کرتے تھے۔ کبھی یہاں کے لوگوں کی عرضداشتیں لے کر جاتے تھے۔ اور مفلوک الحال مریدوں اور غلاموں کو بتاتے تھے کہ ہم تمہاری فریاد ظل الٰہی تک پہنچانے جارہے ہیں ۔ عرضداشتیں تو معلوم نہیں دہلی کے بادشاہوں تک پہنچتی تھیں یا نہیں کہ تاریخ میں یہ تذکرہ تو موجودہے کہ یہاں کے وڈیرے اور یہاں کے مخدوم اور یہاں کے پیر اور یہاں کے حکمران عوام کی درخواستیں لے کر دہلی تک گئے۔ لیکن تاریخ میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ ان عرضداشتوں پر ظل الٰہی نے احکامات بھی جاری کئے تھے یانہیں۔ہاں اس خطے کے عوام کی غربت اور پسماندگی دور کرنے کے لئے دہلی کی جانب سے ان پیروں اور مخدوموں کو بھاری انعام واکرام دیا جاتاتھا۔انہیں موتیوں میں تولا جاتا تھا۔اور اسی طرح شان وشوکت اور احترام کے ساتھ وہ ملتان واپس آتے تھے جیسے آج کے حکمران عالمی بینک ،آئی ایم ایف یا براہ راست امریکہ سے خیرات حاصل کرنے کے بعد وطن لوٹتے ہیں۔
ملتان آیاں دا کہ جایاں دا ؟
جیسے ہمارے حکمران ہماری عزت، ناموس ،وقار ،خودداری اور کو بالکل مجروح نہیں کرتے۔ اسی طرح سینکڑوں ہزاروں سال پہلے بھی یہاں کے محکوموں کی عزت نفس ،وقار اور خودداری کا تحفظ کیاجاتاتھا۔اور ان کے وقار کا اتناتحفظ کیاگیا کہ انہوں نے ذہنی طورپر تسلیم کرلیا کہ ”ملتان آیاں دا ہے جایاں دا کائی نئیں “ ۔(یعنی ملتان آنے والوں ”حملہ آوروں“ کاہے یہاں پیدا ہونے والوں کانہیں)۔اور یہاں پیدا ہونے والوں کا ملتان ہوبھی کیسے سکتاتھا ۔انہیں تو ان کے آباءاور انہیں ان کے آباءنے نسل درنسل غلامی میں دے دیاتھا۔انہیں عقیدے کی بنیاد پر محکوم رکھا گیا ۔جس شہر میں آج بھی عقیدت و عقیدے کو باقی شہروں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہاں بھلا سینکڑوں ہزاروں سال پہلے عقائد کا کس قدر غلبہ ہوگا ۔اس بارے میں توتصور بھی کریں توروح کانپ جاتی ہے۔
گدھ منڈلاتے ہیں اور سخی قحط ختم کرتے ہیں
یہاں کے ایک روحانی پیشوا جن کی سخاوت اور عوام دوستی کا تاریخ کی کتابوں میں بہت ذکر ملتا ہے ان کے بارے میں ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک بار جب ملتان میں قحط پڑ گیا تو لوگ بھوکوں مرنے لگےتھے ۔ قحط بھی بلا کاتھا۔دریا خشک ہوا ، بارش کا دوردور تک کوئی نشان نہ تھا۔فصلیں اجڑ گئیں تو لوگ بھوک سےمرنے لگے۔ پرندے اس خطے سے ہجرت کرگئے ۔اور گدھ بڑی تعداد میں آسمان پر منڈلانے لگے کہ کب بھوک سے نڈھال یہ لوگ ایک ایک کرکے گریں اور ان کی خوراک کااہتمام ہوجائے۔تو اس سخی نے ،اس روحانی پیشوا نے جس کا دہلی کے دربار سے بھی رابطہ تھا لوگوں کو اس مصیبت سے نکال لیا۔اس بزرگ نے کمال فیاضی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اناج کے ذخائر ملتان کے قحط زدہ لوگوں کے لیے کھول دیئے۔ مؤ رخین تحر یر کرتے ہیں کہ یہ ذخائر عوام میں تقسیم ہوئے تو شہر سے قحط ختم ہوگیا۔ہم آ ج کے ذخیرہ اندوزوں کو اس لیے سزا دیتے ہیں کہ وہ اشیائے خوردونوش کاذخیرہ کرکے لوگوں کو بھوکا مارتے ہیں۔اگر وہ بھی ان بزرگوں کی زندگیوں سے سبق حاصل کریں اور بھوکے لوگوں میں اپنے ذخائر تقسیم کرتے رہیں تو ان کانام بھی فخر سے لیا جاسکے گا۔ معترضین اس بات پر غور نہیں کرتے اور یہ روشن پہلو نہیں دیکھتے کہ اگر سیکڑوں برس قبل شہر میں قحط پیدا ہوتا تھا تو عوام کی جان بچانے کے لیے وہ بزرگ اپنا ذخیرہ لوگوں میں تقسیم کردیتے تھے۔آج بھی یونہی تو مخلوق دوردراز سے ننگے پاﺅں ان ہستیوں کے احترام میں ملتان نہیں آتی۔وہ لوگ ملتان کی وجہ سے اور اپنے مخدوم کے احترام میں ہمارا بھی احترام کرتے ہیں۔ملتان کو ملتان شریف کہتے ہیں اور ملتان والوں کو خوش قسمت سمجھتے ہیں جو اس شہر میں رہتے ہیں جہاں ان کے پیر صاحب آسودہ خاک ہیں اور جہاں ان کے مخدوم صاحب رہتے ہیں۔یہ سادہ لوح عوام اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ جس مخدوم کے احترام میں وہ اس کے گھٹنے چھو رہے ہیں وہ تو خود اسلام آباد ،راولپنڈی یا واشنگٹن میں کسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ جسے وہ ناخدا سمجھتے ہیں وہ خود کسی اور کوخدامانتا ہے۔
( جاری )