سدھارتھ محل کی بالکنی میں کھڑا سب تماشا دیکھ رہا تھا۔اس نے محافظ سے کہا اس فقیر کو روکو اور احترام سے بٹھاؤ۔پھر سدھارتھ نے شاہی طبیب طلب کیا اور حکم دیا میری آنکھیں سائل کو لگا دی جائیں۔سدھارتھ نے باقی جنم نابینا رہ کر راج کیا اور اگلے جنم میں اس کو وہ روشنی ملی جس نے اسے گوتم بودھ بنا دیا۔
یہ وہ کہانی ہے جو سری لنکا کے ہر سنہالہ گھر میں ہوش سنبھالنے والے ہر بچے کو معلوم ہے اور سنہالہ آبادی کا پچھتر فیصد ہیں۔بدھ مت کے پیروکار تو جاپان اور کوریا سے چین تا بھارت پھیلے ہوئے ہیں مگر سوا دو کروڑ آبادی والے جزیرے سری لنکا کے شہری کچھ اسپیشل ہیں۔انیس سو اٹھاون سے وہاں اعضا کے عطیے کو جائز قرار دینے والا قانون نافذ ہے۔
ایک جواں سال ڈاکٹر ہڈسن سلوا نے اسی برس آنکھوں کے عطیے کے لیے اخباری اپیل کی۔اگلے برس آنکھوں کا پہلا عطیہ ملا۔انیس سو ساٹھ میں ڈاکٹر سلوا کی والدہ کا انتقال ہوا تو اپنی ماں کی آنکھیں ایک غریب نابینا کاشتکار کو عطیہ کر دیں۔ انسانیت کے اس مظاہرے نے ڈاکٹر سلوا کو راتوں رات قومی ہیرو بنا ڈالا۔
انیس سو اکسٹھ میں ڈاکٹر سلوا نے آنکھوں کے عطیے کی سوسائٹی قائم کی۔آج اس سوسائٹی کے نو لاکھ سے زائد ارکان ہیں۔ان ارکان میں سنہالہ ہی نہیں تامل اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ملک بھر میں سوسائٹی کی ساڑھے چار سو شاخیں اور پندرہ ہزار رضاکار ہیں۔ہر سال سوسائٹی کے قائم کردہ نیشنل آئی بینک کو آنکھوں کے لگ بھگ تین ہزار عطیات موصول ہوتے ہیں۔اس عطیے کی کار آمدگی کے لیے ضروری ہے کہ عطیہ کرنے والے کی وفات کے چار سے آٹھ گھنٹے کے اندر انھیں محفوظ کر لیا جائے اور بیس روز کے اندر کسی ضرورت مند کے لیے استعمال کر لیا جائے۔سری لنکا ہر برس آنکھوں کے لگ بھگ دو ہزار عطیات باقی دنیا کو بلا معاوضہ دان کرتا ہے۔انیس سو چونسٹھ میں ڈاکٹر سلوا ایک تھرموس میں آنکھیں لے کے سنگا پور پہنچے۔یہ آنکھوں کے عطیے کی پہلی ایکسپورٹ تھی۔ملک کے ایک سابق صدر آنجہانی جولئیس جے وردھنے کی آنکھیں اس وقت دو جاپانی باشندوں کی بینائی بنی ہوئی ہیں۔سب سے زیادہ آنکھیں پاکستان کو ایکسپورٹ ہوتی ہیں ( لگ بھگ آٹھ سو سالانہ)۔اس کے بعد مصر اور پھر ملائیشیا ، نائجیریا اور سوڈان۔
مسلمان ممالک کو آنکھیں ایکسپورٹ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ضرورت مند تو ہیں مگر انسانی اعضا کے عطیات کے جائز ناجائز ہونے کے بارے میں عمومی سطح پر کنفیوژن پایا جاتا ہے۔بہت سے لوگ آنکھوں سمیت انسانی اعضا کا عطیہ لینا حرام نہیں سمجھتے مگر دینا حرام سمجھتے ہیں۔علما بھی اس مسئلے پر بٹے ہوئے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ جسم اللہ کی امانت ہے لہذا اس کی کاٹ پیٹ یا اعضا کا استعمال امانت میں خیانت ہے۔
مگر بہت سے علما کا خیال ہے کہ اگر جسم مقدس ہے تو جیتی جاگتی زندگی جسم سے بھی زیادہ مقدس ہے۔اگر ایک مردہ جسم کے اعضا سے ستائیس زندہ انسانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے تو اس سے زیادہ نفع کا سودا عطیہ کرنے والے کسی بھی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔یہ علما اس اصول کو دلیل بناتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اعضا عطیہ کرنے کے بارے میں مذہبی سے زیادہ مقامی ثقافتی اقدار آڑے آتی ہیں۔ورنہ اعضا کے عطیے کے جائز ہونے کے بارے میں پہلا فتویٰ انیس سو اناسی میں کویت کے مفتی ِ اعظم اور انیس سو اٹھاسی میں جدہ میں قائم اسلامی فقہ اکیڈمی اور اسی دوران جامعہ الازہر سے کیوں آتا۔اس وقت اعضا کے عطیات کے اعتبار سے مسلمان ممالک میں سب سے بہتر حالات تیونس ، اردن ، ترکی ، ملائیشیا اور ایران میں ہیں۔یہاں اس بارے میں قانون سازی اور عطیہ کرنے کا رجحان دیگر مسلمان ممالک کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے۔آنکھوں کے علاوہ دنیا میں اس وقت جتنی ضرورت گردوں کے عطیات کی ہے اس کے مقابلے میں محض دس فیصد گردے بطور عطیہ دستیاب ہیں۔باقی ضرورت مناسب قانون سازی نہ ہونے کے سبب بلیک مارکیٹ سے پوری ہوتی ہے۔ اس بلیک مارکیٹ میں اعضا فروخت کرنے والے زیادہ ترانتہائی غریب لوگ ہوتے ہیں۔یہ اربوں روپے کا دھندہ ہے جس میں سب سے کم پیسے فروخت کنندہ اور سب سے زیادہ مافیا کا سرغنہ یا غیر قانونی آپریشن کرنے والا سرجن کماتا ہے۔پاکستان میں اگرچہ بہت سے جید علما نے اعضا کے عطیات کو جائز قرار دیا ہے۔ملک میں اعضا عطیہ کرنے کا قانون مجریہ دو ہزار دس بھی نافذ ہے۔پچھلے ہفتے ہی سینیٹ میں صحت کی قائمہ کمیٹی نے اتفاقِ رائے سے سینیٹر محمد عتیق شیخ کا اعضا کے عطیات سے متعلق نجی ترمیمی بل بھی منظور کیا ہے جس کے تحت اعضا عطیہ کرنے والے شہریوں کے شناختی کارڈ پر خصوصی نشان لگایا جائے گا۔تاکہ ان کی کلینکل یا طبعی موت کی صورت میں بروقت معلوم ہو سکے کہ انھوں نے اعضا کا عطیہ دینے پر رضامندی ظاہر کر رکھی ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ افراد جگر اور تیس ہزار افراد گردے کے عارضے میں مبتلا ہو کر وفات پا جاتے ہیں۔ان میں سے بہت سوں کی جان بچ سکتی ہے اگر اعضا کا عطیہ بروقت میسر ہو۔مگر موجودہ قوانین کے تحت اعضا کے عطیات کی قانونی وصیت کے باوجود اگر ورثا اجازت نہ دیں تو اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔
ایک عام غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اعضا کے عطیات کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کی صورت میں سرجن آئے گا اور مرنے والا کا گردہ ، دل یا پھیھپڑا نکال کے لے جائے گا۔ایسا ہرگز نہیں۔صرف ان انسانوں کے اعضا ِ رئسیہ کار آمد ہوتے ہیں جو حادثات میں شدید زخمی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی کلینیکل ڈیتھ ہو جاتی ہے ( کلینکیل ڈیتھ سے مراد یہ ہے کہ دماغ مردہ ہو جائے اور باقی اعضا رفتہ رفتہ مردہ ہوتے چلے جائیں یا دماغ کے پھر سے زندہ ہونے کا کوئی طبی امکان نہ رہے )۔اس مرحلے پر متوفی کے اعضا اگر کسی اور انسان کے لیے ایک مخصوص وقت میں کسی اور کے لیے استعمال ہو جائیں تو ہی دوسرے کا بھلا ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان شرائط کے ہوتے ہوئے اگر سو افراد نے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کر دی ہے تو ان میں سے شائد ایک یا دو فیصد ہی ان شرائط کو پورا کر پائیں کہ جن کے نتیجے میں ان کے اعضا کسی ضرورت مند کے کام آ سکیں۔البتہ آنکھوں کے عطیے کے لیے کلینکل ڈیتھ ضروری نہیں۔ایک مکمل مردہ جسم کی آنکھیں اگر چند گھنٹوں کے اندر محفوظ کر لی جائیں تو ان کی پتلیاں کسی ضرورت مند کو روشنی دینے کے کام آ سکتی ہیں۔نوید انور پہلا پاکستانی ہے جس نے اعضا کا عطیہ دیا اور انیس سو اٹھانوے میں اس کی حادثاتی موت کے بعد اس کے اعضا ضرورت مندوں کے کام آ گئے۔جن لوگوں نے آنکھوں کا عطیہ دیا ان میں سب سے معروف عبدالستار ایدھی ہیں۔ان کی آنکھیں آج بھی کسی ضرورت مند کے چہرے پر روشن ہیں۔ایدھی صاحب کے ایثار کا اثر یہ ہوا کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کو چند ہی دنوں میں پانچ سو سے زائد ڈونرز مل گئے۔کہاں پچھلے چار برس میں محض تیرہ سو نوے ڈونرز نے عطیہ فارم بھرے تھے۔مگر بائیس کروڑ نفوس کا ملک کہ جو خیرات ، صدقے اور عطیے کے معاملے میں دنیا کے پانچ چوٹی کے ممالک میں شامل ہے اعضا کے عطیات کے معاملے میں اتنا ہی پیچھے ہے۔میں نے بھی اپنے اعضا ایس آئی یو ٹی کو عطیہ کرنے کا فارم بھر رکھاہے اور میرا کارڈ میرے سرہانے رہتا ہے۔ زندگی میں تو خیر کسی کے کام کیا آ سکا۔شائد بعد از زندگی ہی کچھ کام آ سکوں۔
بشکریہ ایکسپریس
فیس بک کمینٹ