عطا ءاللہ عطش درانی 22 جنوری1952ءکو ساہی وال میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن ، ایم اے اردو اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ مختلف جرائد کے عملہء ادارت میں شریک رہے۔ جس ادارے میں بھی گئے وہاں اپنے کام کی دھاک بٹھا دی۔ ہمیشہ قائداعظم کے فرمان ”کام ،کام …. اور…. کام“ کی تعبیر نظر آئے۔وہ ماہر لسانیات، علم کمپیوٹر کے پاکستان میں اہم ترین ماہر،اصطلاحات ساز، ماہرتعلیم، ماہر جواہرات ، صحافی، تنقید نگار، محقق، اور سب سے بڑھ کر ایک مخلص دوست تھے۔
چالیس سال قبل (1978ءمیں) پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر منور ابن صادق کے ساتھ ایک بھاری بھرکم ،خوبرو اور کم گو نوجوان کے ساتھ پہلی ملاقات عمر بھر کی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔میں 1980 ءمیں مقتدرہ قومی زبان کے لیے اصطلاحات سازی پر کام کر رہا تھا، ہمارے پیشِ نظر علم التعلیم، سائنس، اور فنیات کے موضوعات پر اصطلاحات مرتب کرنا تھیں۔ عطش اُس وقت ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ سے منسلک تھے اور اُس کا چودہ صدیاں نمبر مرتب کر کے اپنی ادارتی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ میرے اصطلاحات سازی کے منصوبے میں عطش اور منور ابن صادق کا کلیدی کردار تھا۔ ہم بعد دوپہر شام تک بیٹھے کام کرتے رہتے، اور ہمارا کام مقتدرہ قومی زبان نے ”اصطلاحات فنیات“ اور ” تعلیمی اصطلاحات“ کے عنوانات کے تحت شائع کیا۔
اسی دوران میں عطش کو حکومت پنجاب کے رسالے ”اردو نامہ“ کی ادارت کا موقع ملا تو اس نے اس سرکاری جریدے کو علمی تحقیقی جریدے میں تبدیل کر دیا، وہ نہ صرف خود کام کرنا جانتا تھا، بلکہ اپنے احباب اور ملاقاتیوں سے بھی کام کرانے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ چنانچہ میرے ایسے لکھنے سے جی چرانے والے شخص سے بھی اُس نے بہت سا کام کرا لیا، اردو نامہ کے لیے مجھ سے مضمون لکھنے کا کہا، میں دوسری مصروفیات کے باعث خود تو کچھ نہ لکھ سکا البتہ اپنی ایک رفیق کار کو انگریزی عربی ڈکشنری دے کر کہا کہ اس میں ہر اُس لفظ پر پنسل سے نشان لگائیں، جو انگریزی اور عربی میں تقریباً ایک جیسی آواز کے حامل ہوں۔ بعد میں ان الفاظ کو ٹائپ کراکے ابتدا میں مختصر تعارف اس انداز میں کہ عربی میں یورپی اصطلاحات کیسے آئیں، کے ساتھ مضمون مرتب کیا اور اُن محترمہ کے نام سے شائع کرا دیا۔ وہ نہ تو عربی زبان جانتی تھیں اور نہ ہی انہیں اصطلاحات سازی سے کوئی واقفیت تھی، مگر اُن کے نام سے ایک وقیع مقالہ شائع ہوگیا۔
حکومت پنجاب کی ملازمت سے عطش درانی مقتدرہ قومی زبان میں چلا گیا، اسلام آباد میں قیام کے دوران عطش کو اپنی صلاحیتوں کا بھر پور انداز میں استعمال کا موقع ملا۔ اس نے اصطلاحات سازی پر تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اب اس کا تحقیق اور تصنیف کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا اور اس نے بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا۔ اُس نے پونے تین سو سے زیادہ کتابیں اور سینکڑوں مقالہ جات اردو اور انگریزی میں شائع کیے۔ حکومت پاکستان نے اسے ”تمغہ ءامتیاز“ اور ”ستارہء امتیاز “ کے اعزازات سے نوازا۔
کئی سال پہلے میں نے عطش کے بارے میں لکھا تھا: ” مجھے اور ہمارے مشترک دوست، مرحوم منور ابن صادق کو عطش کے بارے میں سخت خدشات کا احتمال تھا کہ یہ لڑکا اپنی صلاحیتوں اور استعدادِ کار کے باعث بہت سے مخالف بلکہ دشمن بنا لے گا، اس باب میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاہم معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ دوست بنانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے، جو اسے سراہتے ہیں، اس کے کام کی تعریف کرتے ہیں اوراس کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔
عطش نے جو نام اپنے لیے منتخب کیا ، اس کی رو سے وہ ”کام کرنے کی “ پیاس کامارا ہے اور الف لیلیٰ کے جن کی مانند کام کے لیے ہردم ترستا دکھائی دیتا ہے۔ یہی پیاس اسے متنوع میدانوں میں چیلنج قبول کرنے پر آمادہ رکھتی ہے اور یہی اس کے مختلف النوع میدانوں میں کام کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کا راز ہے۔“
عطش کی علمی سرگرمیوں کا جائزہ لینا میرا آج کا موضوع نہیں ہے۔ میں تو اپنے دوست کو یاد کرنے اور دوسروں کو بحیثیت ایک دوست کے متعارف کرانا چاہتا ہوں۔ عطش جس قدر ”وسیع الجسہ“ تھا، اتنا ہی اُس کا دل بھی وسیع تھا، اُس کی دلچسپیاں بھی اتنی ہی متنوع اور عمدہ تھیں، اُس کے بھاری بھرکم ہونے کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ اسلام آباد سے عطش اور ڈاکٹر وحید قریشی لاہور جارہے تھے۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر وی آئی پی لاؤ نج میں پہنچے تو جو بیرا ان کے لیے چائے لے کر آیا، ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے ستائشی انداز میں کہا ”ماشاءاللہ صاحبزادے بھی ہمراہ ہیں“ اُ س زمانے میں عطش ڈاکٹروحید قریشی سے جُسے میں کم تھا۔ بعد میں تو بہت زیادہ پھیل گیا تھا۔ اُس کا کام بھی اُس کے جسم کی مانند پھیلتا چلا گیا۔
عطش مقتدرہ قومی زبان میں تھا، اُن دنوں وہ ”عظیم کتب“ کے عنوان سے ایک منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ میں اُن دنوں وزارت تعلیم کے ایک منصوبے، ٹیچرٹریننگ پراجیکٹ، میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہا تھا ۔ ایک دن ڈارون کی کتاب ”The Descent of Man“ مجھے دی کہ میں اس کا ترجمہ کروں۔ میں اپنی دوسری مصروفیات کے باعث اس کتاب کا تقریباً ایک تہائی ترجمہ ہی کر پایا، باقی ماندہ ابواب کا ترجمہ کرنے کے لیے اپنے ایک رفیق کار اور دوست، اے ڈی میکن کو درخواست کی۔ اس موقعہ پر اس کتاب کے چند ابواب عطش نے ایک اور دوست سے ترجمہ کرالیے ، اس طرح اس کتاب کا ترجمہ ”توریثِ آدم“ کے عنوان سے شائع ہوا۔
1991 ءمیں مقتدرہ قومی زبان میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادارت میں ”قومی انگریزی اردو ڈکشنری“ مرتب ہو رہی تھی۔ عطش کے ایما پر اس ڈکشنری کا ایک حرف مجھے مرتب کرنے کا موقعہ ملا۔ یہ باتیں اس لیے بیان کی گئی ہیں کہ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عطش اپنے دوستوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا جانتا تھا اور میرے ایسے کام چور دوستوں سے کام لینا بھی جانتا تھا۔
دنیاوی زندگی میں بلندیوں پر پہنچ کر بھی عطش نے اپنے ماضی اور ماضی کے دوستوں کو فراموش نہیں کیا۔ مجھے ٹیلی فون کیا کہ ملتان میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ سرائیکی میں ڈاکٹر نسیم اختر ایک تقریب کا انعقاد کر رہی ہیں، لہٰذا میں بھی اُس تقریب میں پہنچوں، وہیں ملاقات ہوگی۔ پھر اطلاع دی کہ محرم کے بعد ملتان آنے کا پروگرام ہے، مگر ملتان آنے کی بجائے عطش کی علالت کی اطلاع ملی، میں نے اسلام آباد عطش کی بیگم سے بات کی تو وہ پر امید تھیں کہ اب روبصحت ہیں اور دو تین دن میں ہسپتال سے گھر منتقل ہو جائیں گے، مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے، عطش ہسپتال ہی سے ابدی سفر پر روانہ ہو گیا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔
عطش کی آخری تصنیف ”کتاب الجواہر“ جو البیرونی کی تصنیف ”کتاب الجماہر فی معرفة الجواہر“ کے اُس حصے کا ترجمہ ہے جو جواہرات سے متعلق ہے، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے جولائی2018 ءمیں شائع کی۔ اس کتاب کا جو نسخہ مجھے ارسال کیا، اُس پر8 ۔ اگست 2018ءکی تاریخ کے ساتھ دستخط ہیں۔انہی دنوں میری بھی ایک تصنیف ”البیرونی“ اردو سائنس بورڈ لاہور نے شائع کی تھی۔
عطش میں کام کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی، اور اس نے متنوع موضوعات پر کام کر کے بھی دکھلایا۔میں اُسے کام کرنے کے حوالے سے اللہ دین کے چراغ کے جن سے تشبیہ دیتا تھا۔ نجی محفلوں میں ہم قریبی دوست اُس کے کام کرنے کی صلاحیت اور کیے گئے کام کی وسعت سے مبہوت تھے۔ وہ ابتدائی عمر ہی سے محنت کرنے میں ایسا مصروف ہوا کہ اُس نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ اُس کے سامنے صرف کام ہی کام تھا۔ انتھک کام کرنے والا، اور دوستی نبھانے والا ایسا کوئی اور شخص میرے حلقہ ء احباب میں نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ اُس کی بشری خامیوں کو معاف کرے اور اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ عطش کے بعد یہ دنیا ایک بہت بڑے عالم ، ایک عظیم انسان سے ، اور ہم ایک محبت کرنے والے مخلص دوست سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عطش کے اہل خانہ، بیگم اور بیٹے اسد کو صبر اور اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ باقی رہے نام اللہ کا!
فیس بک کمینٹ