اب سے ٹھیک چالیس برس اور ایک دن پہلے ائیر فرانس کی فلائٹ تہران کے مہر آباد ائیرپورٹ پر اتری۔ مگر اترنے سے پہلے اسے فضا میں کئی چکر لگانے پڑے کیونکہ نیچے مجمع اتنا زیادہ تھا کہ ائیرپورٹ حکام کو خدشہ تھا کہ کہیں لاکھوں جذباتی بے قابو ہو کر جنگلے تہس نہس کرتے ہوئے رن وے پر نہ آجائیں۔اس پرواز میں سے جو جو افراد اترے ان میں سے آج کوئی بھی اس دنیا میں نہیں مگر ایرانی انقلاب آج اکتالیسویں برس میں داخل ہو چکا ہے۔
کسی بھی انقلابی تبدیلی کو دیکھنے کے دو زاویے ہیں، ایک یہ کہ اس نے آس پاس کی دنیا کو کیا اچھا برا دیا اور یہ کہ اس نے اپنے لوگوں کی زندگی میں کتنی مثبت یا منفی تبدیلی پیدا کی۔مثلاً انقلابِ فرانس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار کوئی ایسی ہوا چلی جس نے جاگیرداری نظام کو جڑ سے اکھاڑ کے اس کی جگہ بورڑوا جمہوریت کو آگے بڑھنے کا راستہ دیا۔روسی انقلاب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے شاہی استبداد کو اکھاڑ کے مزدوروں کے نام پر پہلی کیمونسٹ آمریت قائم کی اور صنعتی سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ راستے کے ذریعے انسانی ترقی کے لیے ایک اور مثالیہ پیش کیا۔چینی انقلاب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے جاگیردارانہ نظام کی جگہ کسانوں کو اہمیت دی اور کسان انقلاب نے آگے چل کر جو راستہ ہموار کیا اس پر صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی گئی اور پھر اپنی ہی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل کو ترقی سے جوڑ کر وہ چین پیدا کیا گیا جس کی آج دنیا بھر میں واہ واہ ہے۔
مگر چالیس برس پہلے آنے والے ایرانی انقلاب نے کون سا ایسا ماڈل تشکیل دینے کی کوشش کی کہ جس سے باقی دنیا یا خود عام ایرانی متاثر ہو سکے ؟
جہاں تک ایران سے باہر بسنے والے شیعوں کا معاملہ ہے تو بھارت، پاکستان،افغانستان، خلیجی ریاستوں، عراق، شام اور لبنان تک آباد شیعہ اکثریت اس انقلاب کو ایک مذہبی ، سیاسی و علاقائی مثالیہ مانتی ہے۔جب کہ سنی اکثریت کا رویہ یا تو لاتعلقی کا ہے یا پھر شک و شبہے سے آلودہ۔بالخصوص سنی عرب ریاستوں کا رویہ اور ردِ عمل اس انقلاب کے عزائم کے تناظر میں شروع سے ہی مخاصمانہ ہے اور امریکا سمیت بیشتر مغربی ممالک اور اسرائیل اس بابت سنی عرب ریاستوں کے ہم خیال ہیں۔صدام حسین اور آئت اللہ خمینی کی زاتی دشمنی نے جب آٹھ سالہ طویل خونی جنگ کا روپ لیا تو عرب و عجم کی تاریخی کشاکش کا باب دومِ کھل گیا اور پھر آنے والے برسوں میں یہ کش مکش نام اور مقام بدل بدل کر ایک دوسرے کو ہر طرح سے نیچا دکھانے کی جہدِ مسلسل میں بدل گئی اور آج بھی شام ، لبنان اور یمن میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
جہاں تک مغرب کا معاملہ ہے تو برطانیہ اور امریکا پہلوی ایران کے زوال کے بعد سے تادمِ تحریر ایران کو صرف ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے کسی اچھائی کی توقع ناممکن ہے۔باقی یورپ کہ جس میں جرمنی ، فرانس ، اٹلی اسپین وغیرہ شامل ہیں۔ان کے لیے ایران ایک اجنبی نظریاتی ملک ضرور ہے مگر ایسا اجنبی بھی نہیں کہ اس سے اقتصادی تعلقات بھی برقرار نہ رکھے جا سکیں۔ چین، روس اور بھارت کے نزدیک چونکہ ایران حریف مغربی ممالک کے مقابلے میں تیل اور سرمایہ کاری کے امکانات سے مالا مال ہے لہٰذا اپنے اندرونی نظام اور نظریے سے قطع نظر بڑی عالمی گیم میں ایک فائدہ مند اسٹرٹیجک علاقائی ساتھی ہے۔
رہا پاکستان تو بیشتر سنی اکثریت انقلابِ ایران سے یا لاتعلق یا پھر غیر جانبدار ہے۔ شیعہ آبادی پسندیدگی تو رکھتی ہے مگر اس ماڈل کو پاکستان کے مخصوص طبقاتی و گروہی حالات کے تناظر میں قابلِ عمل نہیں سمجھتی۔فرقہ پرست تنظیموں کا ایجنڈا چونکہ کچھ اور ہے اور ضرورت و حکمتِ عملی کے اعتبار سے گرم ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے لہٰذا پاکستان کے تناظر میں ایرانی انقلاب کے تجزیے سے ان تنظیموں کی فکر کو اکثریتی خیالات سے جوڑنا مناسب نہیں۔
بیرونی دنیا ایران ، اس کے عزائم ، طرزِ حکومت ، سخت گیر نظریے اور انسانی حقوق کے حالات کے بارے میں بھلے کچھ بھی رائے رکھے۔مگر خود ایرانیوں کو اس انقلاب نے کیا دیا ؟ میرے نزدیک کوئی بھی انقلاب یا تدریجی طرزِ حکومت محض نعرے بازی پر استوار ہے مگر اپنے لوگوں کی روزمرہ زندگی بہتر بنانے میں ناکام ہے تو ایسے نظام کا کوئی بھی خوشنما نام رکھ لیا جائے ہوگا وہ اپنے جوہر میں ایک کھوکھلا کنستر ہی۔انقلاب یا ناانقلاب ، عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے تین ہی بیرومیٹر ہیں۔ صحت ، تعلیم اور معیارِ زندگی۔
پچھلے چالیس برس میں ایران نے عام آدمی کو ایک مثالی سیاسی نظام دیا یا نہیں مگر صحت کا بہتر نظام ضرور دیا۔ عالمی ادارہِ صحت کہتا ہے کہ ہر ریاست کو اپنے شہریوں کی صحت پر کل قومی آمدنی کا کم ازکم چھ فیصد ضرور خرچ کرنا چاہیے۔ایران کئی برس سے یہی کر رہا ہے۔گاﺅں سے شہر تک چھیانوے فیصد آبادی کی رسائی صحت کی سہولتوں تک ہے۔ہر ایک ہزار شہریوں پر اوسطاً ایک ڈاکٹر ہے۔ سو میں سے چھیالیس ڈاکٹر خواتین ہیں۔نوے فیصد آبادی کو ہیلتھ انشورنس کا تحفظ حاصل ہے۔جان بچانے والی ادویات بھاری سرکاری سبسڈی کے سبب ہر ایک کی رسائی میں ہیں۔
غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی تعداد چونکہ بہت کم ہے لہٰذا چھیانوے فیصد ادویات کی تیاری مقامی دوا ساز کمپنیاں جنرک ناموں سے کرتی ہیں۔یعنی بازار میں اگر ایک ڈسپرین ہے تو اس کا پورے ملک میں ایک ہی نام اور قیمت ہو گی۔چھتیس مختلف لیبل اور مختلف قیمتیں نہیں ہوں گی۔تمام ویکسینز بھی مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہیں۔
گاو?ں سے شہر کی سطح تک ہیلتھ کئیر سسٹم اتنا منظم ہے کہ بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ایران میں اعضا کا عطیہ بھی قانوناً دیا جا سکتا ہے مگر اعضا کی خرید و فروخت پر سزا ہے۔ انقلاب سے پہلے اوسط عمر پچپن برس تھی۔ا?ج چھہتر برس ہے۔بلوم برگ اور عالمی ادارہِ صحت کے مطابق ایران میں صحت کا نظام دنیا کے چالیس بہتر صحت کے ریاستی نظاموں میں شامل ہے۔
رہا تعلیم کا شعبہ تو سیکنڈری اسکول تک تعلیم مفت اور لازمی ہے۔چورانوے فیصد آبادی خواندہ ہے۔ انقلاب سے قبل پچپن فیصد آبادی خواندہ شمار ہوتی تھی۔تعلیم پر کل قومی آمدنی کا پانچ فیصد صرف ہوتا ہے۔اس میں سے آدھا بجٹ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے لیے مختص ہے۔ گزشتہ بیس برس کے دوران شائد ہی کوئی عالمی یونیورسٹی رینکنگ ہو جس میں ایران کی کم ازکم تین یونیورسٹیاں ٹاپ فائیو ہنڈرڈ میں نہ ا?تی ہوں۔ایک برس تو یہ تعداد سات تک پہنچ گئی تھی۔ایرانی اسکولوںمیںبچوںکو انگریزی، عربی ، فرنچ، جرمن، ہسپانوی میں سے ایک زبان ضرور پڑھنا پڑتی ہے۔زیادہ تر رجحان انگریزی سیکھنے کی طرف ہے۔سالانہ پونے دو لاکھ طلبا کسی بھی ایک غیر ملکی زبان کے مرکز سے سرٹیفکیٹ یا ڈپلوما حاصل کر لیتے ہیں۔پرائمری سطح سے یونیورسٹی تک طالبات کا تناسب طلبا سے ہمیشہ زیادہ رہتا ہے۔یونیورسٹیوں سے سب سے زیادہ گریجویٹ سائنس ، انجینئرنگ اور تعمیرات کے شعبوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے ایران کی رینکنگ ٹاپ فائیو عالمی ریاستوں میں ہے۔
اقتصادی پابندیوں کے سبب ایرانی معاشی اعتبار سے پریشان رہتے ہیں مگر صحت، تعلیم، خوراک اور مواصلاتی سہولتوں پر ریاست ان پابندیوں کا اثر نہیں پڑنے دیتی۔ اس اعتبار سے انقلاب ایران نے اردگرد کے ممالک کے مقابلے میں اپنے شہریوں کو کیا دیا۔اس کا باآسانی اندازہ آپ کو ان ممالک میں صحت ، تعلیم اور مواصلاتی سہولتوں کے بجٹ اور فی کس صرفے سے ہو سکتا ہے۔میں تقابلی اعداد و شمار بتا کر آپ کا مزہ فی الحال کر کرا نہیں کرنا چاہتا۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)