جنگ اچھی ہے کہ بری؟ بات اب اس بحث سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔اب ہتھیار اپنی ہلاکت خیزی کے سبب نہیں اپنی اٹھلاہٹ کے سبب جانے جاتے ہیں۔ جس رات شمالی بحیرہ روم سے انسٹھ کروز میزائیل شام کے ایک ہوائی اڈے پر فائر کئے گئے ۔اس رات امریکی نیوز چینل ایم ایس این بی سی کے اینکر برائن ولیمز نے سکرین پر خوشی سے جھومتے ہوئے کہا
’آج رات موصول ہونے والی یہ کمال تصویریں دیکھئے۔مشرقی بحیرہ روم میں امریکی بحریہ کے جہاز کے عرشے پر کیا شاندار منظر ہے۔ان ہتھیاروں کا حسن دیکھنے والا ہے۔خوفزدہ کرنے کی صلاحیت سے مالامال یہ خوبصورت ہتھیار ۔۔۔”۔
عموماً جنگ کے خطرے کا سنتے ہی دل سے پہلے شیئر مارکیٹ نیچے بیٹھتی ہے مگر نیویارک سٹاک ایکسچینج میں یہ خبر پہنچتے ہی ٹاما ہاک کروز میزائیل بنانے والی کمپنی ریتھیون اور اس کی ساجھے دار لاک ہیڈ مارٹن کے شئیرز کی قیمت اور چڑھ گئی ۔
جنگ میں استعمال ہونے والے خوبصورت ہتھیاروں سے نہ صرف دھاک بیٹھتی ہے بلکہ یہ ہتھیار استعمال کرنے والے کے کپڑوں پر سے داغ اتارنے کے لیے ڈیٹرجنٹ کا کام بھی کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب اگست انیس سو اٹھانوے میں مونیکا لوئنسکی سکینڈل صدر بل کلنٹن کو مواخذے کی دہلیز تک لے آیا تو خرطوم (سوڈان ) میں ایک فارماسوٹیکل فیکٹری اور خوست (افغانستان) میں القاعدہ کے تربیتی کیمپوں پر درجنوں کروز میزائیل داغ کر کلنٹن نے اپنے داغ دھو ڈالے۔
شام پر دوسرا میزائیل حملہ ہو نہ ہو مگر پہلے حملے نے ہی اس امریکی میڈیا کا دل موہ لیا ہے جو پچھلے ہفتے تک ٹرمپ کے ساتھ بالکل گذارہ نہیں کر پا رہا تھا۔اب کون دانشور کہے گا کہ روس نے ٹرمپ کی انتخابی کامیابی میں کوئی کردار ادا کیا؟ کون سا صحافی کہے گا کہ ٹرمپ امریکی صدارت کے لیے موزوں نہیں؟ کون سیاسی مخالف کہے گا کہ ٹرمپ انتہائی نامقبول و نامعقول صدر ہے ؟
اور کون سا نیوز اینکر یہ سوال اٹھائے گا کہ جن خوبصورت شامی بچوں کے کیمیاوی ہتھیاروں سے بگڑ جانے والے چہروں کو دیکھ کر ٹرمپ سے رہا نہ گیا اسی ٹرمپ نے یہ پابندی بھی لگا رکھی ہے کہ ایک بھی شامی پناہ گزیں امریکا میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ ان پناہ گزینوں کے روپ میں دھشت گرد بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
میزائیل حملے کا دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی یکساں جوش سے خیرمقدم کیا۔ دونوں ممالک ’خوبصورت امریکی ہتھیاروں‘ کے سب سے بڑے خریدار ہیں مگر امریکا سمیت تینوں میں سے کسی ایک نے بھی جھوٹے منہ پیش کش نہیں کی کہ جو جو بچے اور بڑے بشار الاسد کے زہریلی گیس حملے سے متاثر ہوئے ہیں ان کو علاج معالجے کے لئے ہمارے ہاں بھیج دیا جائے۔ ( ایسے کاموں کے لیے یورپی ممالک جو موجود ہیں )۔
ہائے یہ اسلحہ برائے امن کے نام پر فارن برو ، پیرس ، دوبئی اور سنگاپور کے دل موہ لینے والی موت کی فضائی مشینوں کے ایر شوز اور آئیڈیاز دو ہزار سولہ جیسی اسلحہ نمائشیں ، ہائے یہ ابروئے محبوب کی طرح چڑھے ایف سولہ اور مگ پینتیس ، ہائے یہ مخروطی انگلیوں جیسے کروز اور سکڈز ، ہائے یہ شہوت انگیز طیارہ بردار جہاز اور کافر شکن ایٹمی آبدوزیں ، ہائے یہ سڈول فریگیٹس ڈیسٹرائر ، ہائے یہ وجیہہ ڈرونز ، ہائے یہ انگڑائی لیتی ایک سو بیس ملی میٹر کی توپیں، ہائے یہ یونانی مجسموں جیسے فوجی ۔۔۔۔۔
یہ سب جب ایک ساتھ ٹوٹ پڑتے ہیں تو روشنیوں سے زمین بقعہِ نور ہو جاتی ہے اور انسانی چیخیں عظمتِ آدم کا نغمہ بن کر دھائیں دھائیں کی دھن پر فضا میں بکھر جاتی ہیں۔ہائے یہ خوبصورت ہتھیاروں والی دل ربا جنگیں۔
یہی قصیدہ ہے آج کے دور کا اور یہی ہے حسن کا معیار ۔آئیے سب مل کے گاتے ہیں ۔
زندگی تو بے وفا ہے ایک دن ٹھکرائے گی
موت محبوبہ ہے اپنی ، ساتھ لے کر جائے گی
(بشکریہ:بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ