گزشتہ ہفتے پھر دو مسلمان بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں گائے کی اسمگلنگ کے شبہے میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن کے ہلاک ہو گئے۔راجستھان میں گزشتہ برس جس پہلو خان اور اس کے ساتھی کو ہجوم نے گؤ چوری کے الزام میں ہلاک کر دیا تھا۔اس کے مجرم کمزور ثبوت کے سبب گزشتہ ماہ چھوٹ گئے اور پہلو خان کے ورثا اتنے غریب ہیں کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے سے قاصر ہیں۔
ستمبر دو ہزار پندرہ میں داداری کے اخلاق احمد کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ہلاک کیا گیا۔ تب سے اب تک ساٹھ سے زائد مسلمان گؤ ماتا کے چرنوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
مسلمانوں اور یہودیوں کو یہ سہولت ہے کہ حرام اور حلال جانوروں کی ایک واضح فہرست ہے کہ دونوں مذاہب کے لوگ کون سے چرند و پرند و حشرات کھا سکتے ہیں یا نہیں۔دونوں مذاہب میں حلال چرندوں اور پرندوں کو سوائے ذبیحہ کے کسی اور طریقے سے مارا نہیں جاسکتا۔خنزیر چونکہ دونوں مذاہب میں حرام ہے لہذا کوئی بھی مسلمان یا یہودی بھلے کسی بھی فرقے سے ہو خنزیر کے گوشت سے پرہیز کرتا ہے ( اس کا استعمال صرف گالی کی حد تک ہے)۔ عیسائیت میں ایسی کوئی خاص ممانعت نہیں۔
اس تناظر میں ہندو مت کو دیکھا جائے تو خود کو ہندو کہنے یا سمجھنے والے بہت سے لوگ گائے کے گوشت سے اجتناب برتتے ہیں۔مگر یہودیوں اور مسلمانوں کے برعکس سب ہندو اس بارے میں متفق نہیں۔ہندوؤں کی جینی شاخ ( جس کے پیروکار کروڑوں میں ہیں) کسی بھی قسم کے گوشت کے استعمال سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔برہمنوں میں کئی گوتیں ہیں جو گوشت تو کجا انڈے ، پیاز اور لہسن تک سے پرہیز کرتی ہیں۔مگر نچلی ذاتوں ، دلتوں اور بہت سے ہندو قبائل میں گوشت کا چلن عام ہے اور گوشت میں بھی بیف اس لیے زیادہ کھایا جاتا ہے کیونکہ مچھلی ، مرغی اور مٹن وغیرہ کے مقابلے میں پروٹین حاصل کرنے کا سستا ذریعہ ہے۔
بھارت کا طول و عرض دیکھا جائے تو آسانی سے اندازہ ہوجائے گا کہ بھانت بھانت کی نسلوں ، مذاہب اور مزاجوں کو اپنے اندر سمونے والے کسی ملک میں ایک طبقے کی ’’ لحمیاتی شریعت‘‘کا سب پر نفاذ کس قدر مشکل ہے۔
مثلاً بھارت کی انتیس ریاستوں میں سے صرف دس ریاستوں(ہماچل پردیش ، پنجاب، ہریانہ ، اترا کھنڈ ، اتر پردیش ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ) ، مقبوضہ جموں و کشمیر اور مرکز کے براہِ راست زیرِ انتظام دو علاقوں (دہلی اور چندی گڑھ میں گائے ، بیل اور بچھڑے کے گوشت کی تجارت اور استعمال جرم ہے۔ چھتیس گڑھ میں تو بھینس کا گوشت بھی فروخت نہیں ہو سکتا۔
لیکن ہریانہ میں بی جے پی کی ریاستی حکومت کو بھینس کے ذبیحے پر کوئی پریشانی نہیں البتہ گائے ، بیل اور بچھڑے کے گوشت کا استعمال ناقابلِ ضمانت جرم ہے اور اس کی سزا دس برس قید بامشقت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے مگر وہاں گائے اور بیل کاٹنے کے جرم پر ہریانہ کی نسبت کم یعنی پانچ سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ ہے ( مہاراشٹر میں البتہ جنسی ہراسگی کی سزا تین برس قید ہے ) لیکن گوا کی ریاست میں بی جے پی کی حکومت کو بھینس ، بیل اور بچھڑے کے گوشت کی خرید و فروخت پر کوئی پریشانی نہیں حالانکہ گوا میں چھبیس فیصد عیسائیوں کے مقابلے میں چھیاسٹھ فیصد آبادی ہندو ہے۔
مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام علاقہ ہونے کے باوجود جنوب مغربی بھارت کے جزیرے لکشا دویپ میں گائے کا گوشت فروخت ہوسکتا ہے۔ تاویل یہ دی جاتی ہے کہ لکشا دویپ میں مسلمان آبادی اسی فیصد سے زائد ہے۔مگر مقبوضہ جموں و کشمیر میں گائے کا ذبیحہ غیرقانونی ہے حالانکہ وہاں مسلمان آبادی ستر فیصد کے لگ بھگ ہے۔
آٹھ ریاستوں ( بہار ، جھاڑ کھنڈ ، اڑیسہ ، تلنگانہ ، آندھرا، تامل ناڈو ، کرناٹکا ، گوا ) اور چار یونین ٹیرٹریز (دمن و دیو ، دادرا و نگر حویلی ، پانڈیچری اور انڈیمان و نکوبار) میں بھینس اور بیل کا گوشت سرکاری تصدیقی سرٹیفکیٹ کے ساتھ بیچا اور خریدا جاسکتا ہے۔
دیگر آٹھ ریاستوں میں گائے سمیت کسی بھی جانور کا گوشت قانوناً جائز ہے۔حالانکہ ریاست آسام میں ہندو آبادی باسٹھ فیصد اور مغربی بنگال میں اکہتر فیصد ہے مگر کوئی بھی گائے یا بیل جس کی عمر چودہ برس سے زائد ہو اور نسلی افزائش یا دودھ کی پیداوار دینے کے ناقابل ہو اس کا گوشت سرکاری تصدیقی سرٹیفکیٹ لے کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ شمال مشرقی بھارت کی کسی بھی عیسائی و قبائلی اکثریتی ریاست ( ارونا چل پردیش ، منی پور ، میگھالے ، میزو رام ، ناگالینڈ ، تریپورہ ، سکم ) اور جنوبی ریاست کیرالہ میں گائے اور بیل کا گوشت آزادی سے بیچا اور کھایا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ سکم میں ہندو آبادی اٹھاون فیصد اور کیرالہ میں پچپن فیصد ہے۔
اس پورے گورکھ دھندے سے ثابت کیا ہوا ؟ ثابت یہ ہوا کہ گائے کا مسئلہ بھارت کی آدھی آبادی کے لیے مذہبی ہے اور بقیہ کے لیے سیاسی۔شمالی بھارت کی ریاستوں میں چونکہ گائے کا معاملہ تاریخی اعتبار سے حساس رہا ہے لہذا فرقہ وارانہ تنظیموں کو ان علاقوں میں مقبول رہنے کے لیے یہ ایک معقول حربہ دکھائی دیتا ہے۔ شمال مشرقی اور جنوبی ریاستوں میں چونکہ یہ ووٹ گھیرو جذباتی موضوع نہیں لہذا بی جے پی اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں ان ریاستوں میں بیف کے مسئلے پر زیادہ متشدد بھی نہیں۔
بس اتنا ہوا ہے کہ جن ریاستوں میں گائے کے معاملے پر سیاسی سختی بڑھی ہے وہاں سے نرم گیر ریاستوں کی جانب گائے اور بیل کی اسمگلنگ بڑھ گئی ہے۔بھارت اس وقت بیف کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے ( برازیل دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر ہے )۔سالانہ پانچ ارب ڈالر کا بیف بھینس کا گوشت کہہ کر بیرونِ ملک بھیجا جاتا ہے۔مگر اس میں گائے اور بیل کا گوشت کتنا ہے کوئی نہیں جانتا۔
ملک میں پالتو مویشیوں کی جتنی آبادی ہے اس میں بھینسوں کا تناسب چھتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ کچھ سرکردہ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ انتیس میں سے بیس ریاستوں میں گائے اور بیل کے کاٹنے پر کلی و جزوی پابندی کے سبب بھینسوں کے گوشت کی اندرون و بیرونِ ملک مانگ بڑھنے سے بھینسوں کا تناسب کم ہوتا جائے گا۔یوں ڈیری مصنوعات کی پیداوار بھی رفتہ رفتہ کم اور مہنگی ہوتی جائے گی۔
جب کہ افزائشِ نسل کے جدید طریقے عام ہونے کے سبب بیلوں کی واحد اہمیت بھی مسلسل کم ہورہی ہے۔ بیل بے چارا افزائشِ نسل میں مددگاری کے سوا نہ دودھ دیتا ہے نہ اس کا گوشت کچھ بڑی ریاستوں میں کھایا جاسکتا ہے اور گائے کی دودھ دینے اور افزائشِ نسل کی صلاحیت جوں جوں کم ہوتی چلی جاتی ہے تو وہ بھی مفت کا چارا توڑتے توڑتے ماتا ہونے کے باوجود کسان پر بوجھ بن جاتی ہے۔ ملک میں موجود گؤ شالاؤں میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہ کروڑوں گائیوں کی تاحیات دیکھ بھال کرسکیں۔
چنانچہ بے شمار گائیں اور بیل شہروں اور قصبات کی شاہراہوں اور گلی کوچوں میں پھیلے کچرے پر گذارہ کرتی ہیں۔قوانین جیسے جیسے سخت اور متشدد ہوتے جائیں گے کسانوں اور گھوسیوں کی گائے پالنے سے دلچسپی بھی معاشی افادیت کم ہونے کے سبب گھٹتی چلی جائے گی۔ان اسباب کے نتیجے میں جو اقتصادی بحران دیہی معیشت میں چند برس بعد آ سکتا ہے اس جانب توجہ دینے کی فی الحال نہ تو کسی میں جرات ہے نہ صلاحیت۔ابھی تو گؤ رکھشا ایک موثر سیاسی ترشول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔مگر اس ترشول کا رخ بھی گائے اور بیل کا گوشت کھانے والے سب طبقات کی طرف نہیں صرف ایک طبقے یعنی مسلمانوں کی جانب ہے۔
تمام تر جذباتی فضا کے باوجود مرکزی حکومت اتنی سیانی ضرور ہے کہ پورے بھارت کی سطح پر کوئی جامع قانون سازی نہیں کی گئی اور بیف کھانے نہ کھانے کا قانونی اختیار ریاستوں کو دیا گیا ہے۔ ملک گیر سطح پر یہاں سے وہاں تک اگر ایک قانون نافذ ہوجائے کہ آج کے بعد نہ بیف کھایا جائے گا نہ ایکسپورٹ ہوگا تو ریاستوں ، مذاہب ، نسلوں اور تاجروں کے بیچ ایسی ٹھنا ٹھنی ہوگی کہ بھارتی ایکتا شائد اس وقت اس کی متحمل نہ ہوسکے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)