بلی تھیلے سے باہر تو کئی برس سے جھانک رہی تھی اب پوری طرح باہر آ چکی ہے اور کشمیر پر جھپٹا مارنے کے بعد اب بھارتی آئین کو دبوچنے کے لیے اپنی کمر کمان کر چکی ہے۔ کشمیر سے مرغِ مسلم جیسا سلوک کرنے کے بعد آنے والے پہلے دسہرے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی ماں آر ایس ایس کے چیف موھن بھاگوت نے ناگپور میں اپنے ہیڈ کوارٹر کے باہر یونیفارم پہنے ہزاروں جوشیلے لٹھ بردار رضاکاروں کے سامنے نظریاتی پیاز کا آخری چھلکا بھی اتار دیا۔
پہلے تو انھوں نے پھولوں سے اٹی تلواروں اور بندوقوں کی شسستر پوجا کی۔اس کے بعد فرمایا کہ ہم بنا لگی لپٹی کے کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہندو راشٹر تھا اور ہے۔ اس بیان پر سکھوں کے مقدس اکال تخت کے جتھے دار گرپریت سنگھ اور تمام گوردواروں کی نگراں شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے سربراہ گووند سنگھ لنگو وال نے مطالبہ کیا کہ اس سے پہلے کہ آر ایس ایس کے سربراہ کا بیان ملک کی فرقہ ورانہ یکجہتی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے اس تنظیم کو کالعدم قرار دیا جائے ( آر ایس ایس انیس سو اڑتالیس میں گاندھی جی کے قتل کے بعد لگ بھگ دو برس کے لیے کالعدم ہو چکی ہے)۔
موہن بھاگوت نے اسی تقریر میں یہ بھی کہا کہ لنچنگ (بھیڑ کا انصاف) ایک مغربی اصطلاح اور روائیت ہے اور ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ہندی میں نہ تو لنچنگ کے لیے کوئی لفظ ہے اور نہ یہ ہمارے ہاں ہوتی ہے۔لہٰذا بھارت کو بدنام کرنا بند کیا جائے۔
چلیے چھوڑئیے اس قضیے کو۔ملک کے معروف انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دلی سے کییمیکل انجینئرنگ میں تازہ تازہ گریجویٹ نوین چورے کی ہندی نظم سنئے جو اس وقت خاصی وائرل ہے۔ نظم کا عنوان ہے لنچنگ (بھیڑ کا انصاف)۔اس نظم میں جو جو بھی اپنا چہرہ دیکھنا چاہے خوش آمدید۔
’’ سر پے تپتا جون ہے ، اک سڑک پے خون ہے
ایک انگلی ہے پڑی اور اس پے جو ناخون ہے
ناخون پے ہے اک نشاں
اب کون ہوگا حکمراں
جب چن رہی تھی انگلیاں ، یہ انگلی بھی تب تھی وہاں
پھر کیوں پڑی ہے خون میں ؟ جسم اس کا ہے کہاں ؟
کون تھے وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں تھیں لاٹھیاں ؟
نہ پولیس نا پترکار ، اک ناگرک ( شہری ) ہوں ذمے دار
میرے سیدھے پرشن (سوال) ہیں سیدھا اتر (جواب ) دو مجھے
ہے سڑک پر خون کیوں ؟ وہ لوگ آخر کون تھے ؟
آدمی چھوٹے ہیں صاحب ، ہم کیوں پڑتے بیچ میں
ہم بچانے بھی گئے تھے ، تین پڑ گئے کھینچ کے
موٹر سائیکلوں پر آئے تھے وہ ، روڈ پر کر دیں کھڑی
اور دس لونڈے لپاڑے لاٹھیاں اتی بڑی !
گالی دے کے نام پوچھا ، پیٹ میں گھونسا جڑا
ادھ موا وہ گر پڑا ، پھر دے دنادن لاٹھیاں
پاؤں کی ہڈی مٹا دی ، ماس کی لگدی بنا دی
خون تو اتا بہا صاحب کہ ہم سے دیکھا نہ گیا
صاحب صاحب ! ان میں سے ایک کو جانے کیا پڑی
جیب سے چاقو نکالا اور انگلی بھی کاٹ دی
آخری تھا وار جس کا سب کا وہ سردار تھا
اس نے ہی سب کو بتایا جو مرا غدار تھا
اور اور اس نے یہ بھی کہا
حق نہیں ان کو ہمارے دیش پر
دیمکوں کو نہ رکھو گر جوتیوں کی نوک پر
سر پے یہ چڑھ جائیں گے اور کئی گنا بڑھ جائیں گے
حکمراں ہوگا انھی کا ، سر پے موتیں گے یہی
پیر کے نیچے کچل دو ، جیت ہوگی دھرم کی
ہم ہم ہم تو خود ڈر گئے صاحب
خوف ان کو تھا نہیں
کس نسل کے لوگ تھے وہ کچھ سمجھ آیا نہیں
نہ کوئی انساں تھا ان میں ، نہ تھا کوئی آدمی
کھال پہن کے بن گئے وہ شیر
اور آس پاس گیدڑوں کی بھیڑ تھی
ہاتھ میں تھیں لاٹھیاں تو بھینس بھی ان کی ہی تھی
یہ کوئی ہلہ نہیں صاحب واستاوک قانون (آج کا قانون ) ہے
ہم سے کاہے پوچھتے ہو کیوں سڑک پے خون ہے
پوچھو اس انگلی سے تم کہ کیا یہاں گھٹنا گھٹی
جرم اس نے کیا کیا تھا ، جسم سے یہ کیوں کٹی ؟
میں تو سمجھا مر چکی ہے ، انگلی میں پر جان تھی
بولی اب کیا چاہیے ووٹ تھا دے تو دیا
جی رہے تھے قید میں ، موت دے دی شکریہ
ناخون پے جمہوریت ہے ، جم گیا ہے خون بھی
آپ ہی تو ہو عدالت ، آپ ہو قانون بھی
آپ سے کیسی شکائیت آپ تو ہیں نیند میں
آپ جیسے سو کھڑے ہیں جاہلوں کی بھیڑ میں
پر سو میں سے گر ایک بھی دے دے گواہی آپ کو
میں خوشی سے مان لوں گا بھیڑ کے انصاف کو
کیجیے اس پر بحث اب چینلوں پے بیٹھ کر
کیا ہوا موہن کا وعدہ ، ہے کہاں امبیدکر ؟
سب برابر ہیں اگر تو بس مجھے ہی کیوں چنا
کون پہنچائے گا میرے گھر پے جا کے روٹیاں
اک نصحیت کر رہا ہوں ، سوچ کر بولا کرو
بھیڑ سے کچھ پوچھنا بھی جان لیوا جرم ہے
تفتیش کرنے آئے ہو ؟ کھل کے کر لو شوق سے
فرق پڑتا ہی کہاں ہے ایک دو کی موت سے
چار دن چرچا رہے گا لوک تنتر ( جمہوریت ) کا یہاں
پانچویں دن بھول کے سب کام پے لگ جائیں گے
کام سے ہی کام رکھنا ہاں مگر یہ یاد رکھنا
کوئی پوچھے کون تھے ؟
بس تمہیں اتنا ہے کہنا
بھیڑ تھی کچھ لوگ تھے
پھر بھی کوئی ضد پکڑ لے کیا ہوا کس نے کیا ؟
سوچ کے انگلی اٹھانا
کٹ رہی ہیں انگلیاں
بات کو تھوڑا گھمانا ، نفرتوں کا دور ہے
بس یہ کہنا
دھرم تھا نہ جات ان کی
بھیڑ تھی کچھ لوگ تھے ‘‘
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)