بعد از خرابی بسیار مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کرنے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں شاندار ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لاہور میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف اور جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ اپوزیشن کے مطالبات کی فہرست اسلام آباد کے اجتماع میں ہی پیش کی جائے گی۔ اس طرح حکومت کے خلاف احتجاج اور عمران خان سے استعفیٰ کے حوالے سے اپوزیشن میں موجود ابہام ختم ہوگیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حد تک یہ ابہام شہباز شریف نے ہی پیدا کیا تھا جو خبروں کے مطابق اس احتجاج میں شریک ہونے کے خلاف رہے ہیں کیوں کہ وہ اسے ایک سیاسی حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کا راستہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن گزشتہ ہفتے نیب کی طرف سے عدالت میں پیش کرنے کے موقع پر نواز شریف نے آزادی مارچ کی دوٹوک حمایت کرکے مفاہمانہ راستہ اختیار کرنے اور مولانا فضل الرحمان سے فاصلہ رکھنے کی حکمت عملی کو مسترد کردیا تھا۔ نواز شریف نے اس موقع پر بتایا تھا کہ انہوں نے شہباز شریف کو ایک خط میں تفصیلی ہدایات دے دی ہیں اور وہ جلد ہی اس بارے میں ضروری اعلان کریں گے۔
نواز شریف کے بیان کے بعد اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی پوزیشن کافی حد تک واضح ہوگئی تھی لیکن پھر بھی یہ امکان موجود تھا کہ شہباز شریف اس معاملہ پر نواز شریف کے سامنے پوری طرح گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ شہباز شریف کو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا رہا ہے ۔ وہ نواز شریف کے برعکس عسکری اداروں سے براہ راست اختلاف کرنے کی بجائے، ان کی مرضی و منشا سے معاملات طے کرنے کے حامی رہے ہیں۔ گرشتہ برس جولائی میں نواز شریف جب لندن میں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر مریم نواز کے ساتھ لاہور پہنچے تو ان کی گرفتاری یقینی تھی کیوں کہ ان دونوں کو غیر حاضری میں ہی احتساب عدالت نےپانامہ کیس میں طویل المدت سزائیں سنا دی تھیں۔ ملک میں انتخابی مہم زوروں پر تھی اور یہ امید کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ(ن) لاہور ائرپورٹ پر شدید احتجاج کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلائے گی ۔ لیکن پارٹی کے صدر شہباز شریف اپنی گاڑی پر لاہور شہر میں ہی گھومتے رہے اور ائیرپورٹ پہنچنے میں ناکام رہے۔
شہباز شریف کی اس ناکامی کو انتظامی رکاوٹوں کی بجائے شہباز شریف کا سوچھا سمجھا اقدام سمجھا جاتا رہا ہے کیوں کہ وہ براہ راست عسکری اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنے کے حامی نہیں رہے۔ اسی لئے جب سپریم کورٹ نے 2017 میں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم معزول کرنے کا فیصلہ کیا اور نواز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے براستہ جی ٹی روڈ لاہور روانہ ہوئے تاکہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرسکیں، تب بھی شہباز شریف اس فیصلہ پر دل سے بھائی کے ساتھ نہیں تھے۔ بہرصورت سزائیں پانے اور انتخابات میں ’متوقع‘ ناکامی کے بعد شہباز شریف نے نواز شریف کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگر وہ اپنی زبان بند رکھیں اور مریم نواز بھی سیاسی طور سے خاموش رہیں تو مصالحت کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔ شہباز شریف اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ نواز شریف کو پاناما کیس میں ضمانت ملنے کے بعد العزیزیہ ریفرنس میں سزا دے کر کوٹ لکھپت جیل میں بند کردیا گیا ۔ مریم نواز نے جب سیاسی طور سے متحرک ہونے کی کوشش کی تو انہیں بھی چوہدری شوگر ملز کے معاملہ میں نیب کے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
سیاسی بقا کے لئے مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ یا اس سے باہر اپنی موجودگی کا احساس دلوانا ضروری تھا۔ اگست میں سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر اپوزیشن نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کے متعدد سینیٹرز نے صادق سنجرانی کی حمایت میں ووٹ ڈال کر حکومت کو کمزور کرنے کا خواب چکنا چور کردیا۔ اس کے بعد اپوزیشن کے پاس سڑکوں پر احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اپوزیشن لیڈر متعدد بار ملاقاتیں کرنے کے باوجود کسی مشترکہ حکمت عملی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بالآخر مولانا فضل الرحمان نے تن تنہا حکومت کا تختہ الٹنے کا بیڑا اٹھایا اور اب پوری قوم نہایت تجسس سے 31 اکتوبر کا انتظار کررہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے آج لاہور میں بتایا ہے کہ اس روز ملک بھر سے احتجاجی قافلے اسلام آباد پہنچیں گے اور بیک وقت دارالحکومت میں داخل ہوں گے۔ شہباز شریف نے مولانا کے احتجاجی مارچ کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسلام آباد میں آزادی مارچ کا استقبال کریں گے اور اسی روز ہونے والے جلسہ میں اپوزیشن کے مطالبات پیش کئے جائیں گے‘۔
مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے اعلان پر استقامت سے قائم رہے ہیں۔ اس طرح اس احتجاج کی قوت و شدت کے بارے میں ہر آنے والے دن کے ساتھ قیاس آرائیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آرہا ہے کہ اگر ملک کی دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی براہ راست احتجاج کرنے اور حکومت کو اپنی سیاسی قوت سے متاثر کرنے کی کوشش کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکیں تو مولانا فضل الرحمان کو ایک ایسا مارچ منظم کرنے کی ضرورت و ہمت کیسے ہوئی ہے جس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے تک کوئی بھی بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے، جس کے ملکی معیشت اور سماجی رویوں پر اثرات مرتب ہونا لازم ہوں گے۔ حتیٰ کہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر امن و امان کی صورت حال قابو سے باہر ہوگئی تو فوج مارشل لا لگانے پر مجبور ہوجائے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز اس قسم کے انتہائی اقدام کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر عوام کو روکنے کی کوشش کی گئی تو ان کا رخ مارشل لا لگانے والوں کی طرف ہوجائے گا۔ گویا اس بات کا واشگاف لفظوں میں اعلان کیا جارہا ہے کہ یہ احتجاج موجودہ حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ نشانے پر اسے مسلط کرنے والی قوتیں ہیں۔
مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے اپنی تمام تر اسٹیبلشمنٹ دوستی کے باوجود آج لاہور کی پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں ان میں بین السطور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اپوزیشن عسکری اداروں سے مطالبہ کررہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو قوت فراہم کرنا بند کردیں تاکہ ملک میں غیر جانبدارانہ سیاسی عمل شروع ہوسکے۔ شہباز شریف نے تحریک انصاف کی حکومت کو نااہل اور ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ اس مکمل حمایت کے باوجود جو انہیں حاصل ہوئی ہے، عمران خان بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ وہ اب اپنی ناکامیوں کا بوجھ اداروں پر ڈال رہے ہیں۔ اگر کسی نالائق ترین حکومت کو بھی اس اعانت کا 25 فیصد حاصل ہوجاتا جو موجودہ حکومت کو ملا ہے تو پاکستان میں ترقی کی رفتار آسمان کو چھو رہی ہوتی‘۔
شہباز شریف کے ان فقروں میں دو باتیں بہت واضح ہیں۔ ایک یہ کہ فوج پوری طرح عمران خان کی حمایت کررہی ہے دوسرے یہ کہ ماضی کی حکومتوں کو ایسی اعانت فراہم نہیں کی گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس شکوہ نما حقیقت بیانی سے شہباز شریف ایک ایسے وقت میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ ملک میں سیاسی احتجاج کی باگ ڈور ایک چھوٹی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو کل تک مختلف سیاسی جماعتوں سے لین دین کے ذریعے بعض عہدے اور مراعات حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے تھے ، اب خود اس پوزیشن میں آنے والے ہیں کہ لگتا ہے کہ ملک کی بزعم خویش مقبول اور بڑی سیاسی پارٹیوں کو مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے مولانا فضل الرحمان کی شرائط ماننا پڑیں گی۔
سیاسی لیڈروں کی ’صاف گوئی‘ سے اب یہ بات بین ا لسطور تبصروں سے نوشتہ دیوار بن رہی ہے کہ اپوزیشن کو عمران خان یا تحریک انصاف سے کوئی شکوہ نہیں ہے ۔ اس لئے آزادی مارچ بھی تحریک انصاف کو چیلنج کرنے کے لئے نہیں ہوگا بلکہ اس کے ذریعے طاقت کی بساط سجانے والی عسکری قوتوں کو یہ باور کروایا جائے گا کہ انہوں نے ملکی سیاست میں مرضی مسلط کرکے جو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ اہداف پورے نہیں ہوسکے۔ ایک نام نہاد شفاف کردار کے حامل شخص کو وزیر اعظم بنانے کے لئے عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا لیکن وہ ڈیلیور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ شہباز شریف نے آج پریس کانفرنس میں دراصل اپنے ناخداؤں سے یہی سوال یا شکوہ کیا ہے اور پیشکش کی ہے کہ ہمیں ایک اور موقع دے کر دیکھئے، ملکی معیشت سرپٹ بھاگنے لگے گی۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عسکری ادارے اپنی غلطی کا ادراک کرلیں گے اور سیاسی قوتوں کو وہ سپیس دینے پر آمادہ ہوجائیں گے جس میں عوام کے ووٹ کی بنیاد پر حقیقی نمائیندہ حکومت قائم ہوسکے اور سیاسی انجینئرنگ کا مقبول کھیل قصہ پارینہ بن کر رہ جائے؟ اگر صورت حال کے بارے میں یہ گمان کرنا درست تجزیہ ہے تو موجودہ سیاسی طوفان کی قیادت کرنے والے مولانا فضل الرحمان کیا ایک بار پھر صرف کشمیر کمیٹی کی چئیر مینی پر ہی اکتفا کرلیں گے؟ یا پھر انہیں وزارت عظمیٰ کے تخت پر بٹھانے کا خواب دکھانے والے اپنا وعدہ نبھائیں گے۔ اس صورت میں ووٹ کو عزت دو کا معاملہ تو بدستور ہو ا میں ہی معلق رہے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)