اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں میڈیا آزاد نہیں، جس ملک میں بیسیوں ٹی وی چینل دن رات چنگھاڑتے ہوں، جہاں اخبارات میں روزانہ سینکڑوں موضوعات پر کالم شائع ہوتے ہوں اور جہاں کوئی صحافی دبنے والا ہو اور نہ بِکنے والا (براہِ کرم ب کے نیچے زیر پڑھی جائے) وہاں یہ کہنا کہ ملک میں صحافت آزاد نہیں، ایسا ہی ہے جیسے کوئی مٹھائی کی دکان پر جاکر شکایت کرے کہ آپ کے پاس میٹھے میں آئس کریم کیوں نہیں ہے! مگر اِس کے باوجود نجانے کیوں مجھے یہ وہم سا ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا مکمل آزاد نہیں۔ میرے ایک بدگمان دوست ع غ کو تو خیر اس بارے میں کوئی شبہ ہی نہیں، ع غ کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں صحافی محفوظ نہیں، یہاں صحافی قتل ہوئے ہیں، ان پر تشدد ہوا ہے، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر اُن کی کردار کُشی کی جاتی ہے، اپنی باتوں کے ثبوت کے طور پر ع غ عالمی آزادیٔ صحافت کے اشاریے کا حوالہ دیتا ہے جس میں پاکستان کا نمبر 142واں ہے۔ ع غ کی اِن باتوں نے مجھے الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے، اِس الجھن کو رفع کرنے کے لیے میں روزنامہ ’’کالک‘‘ کے ایڈیٹر کے پاس گیا تو اُس نے کہا کہ یہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے جس پر میں تم سے کام سے فارغ ہونے کے بعد اطمینان سے بات کروں گا، موصوف اُس وقت ایک سائیکل کی ٹیوب کو پانی میں ڈبو کر پنکچر چیک کر رہے تھے، کمال باریک بینی سے انہوں نے دو پنکچر نکالے، گاہک سے دو سو روپے اور ایک سگریٹ وصول کیا اور پھر سگریٹ سلگانے کے بعد اطمینان سے بولے ’’دیکھو برخوردار یہ ع غ جیسے لوگ جو پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہاں صحافت آزاد نہیں دراصل وہ صحافتی آزادی نہیں بلکہ ملک کو گالی دینے کی آزادی مانگتے ہیں، تم مجھے بتاؤ کہ کیا ہمارے ملک میں ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی کمی ہے، میں تو جب بھی ٹی وی لگا کر دیکھتا ہوں یا کوئی اخبار اٹھا کر پڑھتا ہوں مجھے تو چار سُو صحافی ہی چنگھاڑتے نظر آتے ہیں، اب ایسے میڈیا کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے، عجیب نامعقول بات ہے‘‘۔ ایڈیٹر صاحب کی باتیں میں نے بہت غور سے سنیں اور جواب میں انہیں وہی دلیل دی جو ع غ نے مجھے سکھا کر بھیجی تھی، میں نے کہا ’’آزادی صرف میڈیا چینلز کی چکا چوند یا اخبارات کی فراوانی سے نہیں آتی، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اخبارات میں کیا چھپ سکتا ہے اور ٹاک شوز میں کیا کہا جا سکتا ہے، اپنے یہاں تو کالم نگاروں کے مضمون روک لیے جاتے ہیں، ٹاک شوز میں اُن کی بولتی بند کر دی جاتی ہے، ایسے میں صحافت کو آزاد کیسے سمجھا جائے؟‘‘ ایڈیٹر صاحب نے سگریٹ کا ایک کش لگایا اور بولے ’’تم بھی اُس ملک دشمن ع غ کی زبان بول رہے ہو، یہ سب بکواس ہے کہ اخبار کالم نگاروں کے مضمون روک لیتا ہے، دراصل لوگ ہیرو بننے کے شوق میں جھوٹے دعوے کرتے ہیں، تم اِن پر کان مت دھرو، (سینے پر دو ہتڑ مارتے ہوئے) میں تمہیں دعوت دیتا ہوں میرے اخبار میں لکھو، جس سیاست دان کے منہ پر چاہو کالک ملو، کوئی روک ٹوک نہیں‘‘۔ ابھی یہ علمی گفتگو جاری تھی کہ ایڈیٹر صاحب کا ایک اور گاہک آ گیا اور وہ پنکچر لگانے میں جُت گئے، میں اجازت لے کر چلا آیا۔
ع غ کو میں نے ایڈیٹر صاحب سے ملاقات کا احوال سنایا تو پہلے وہ طلسم ہوشربا کے کسی بابے کی طرح قہقہے مار کر ہنسا اور پھر یکدم زار و قطار رونے لگا، میں نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو جواب دینے کے بجائے اُلٹا اُس نے مجھ پر ایک سوال داغ دیا ’’یہ بتاؤ کہ آخر انسان کے لیے آزادیٔ اظہار کا حق کیوں ضرور ی ہے، آخر دنیا میں بہت سے ملک ہیں جہاں میڈیا پر پابندیاں ہیں مگر اِس کے باوجود وہ ترقی کر رہے ہیں جیسے کہ چین، اور تمہارے پسندیدہ ملک ترکی میں تو میڈیا چینلز پر باقاعدہ دھاوے بول کر صحافیوں کو اٹھایا گیا، دن دہاڑے اور علی الاعلان، وہاں بھی تو انسان ہی بستے ہیں، تو پھر آزادیٔ اظہار کا اتنا واویلا کیوں؟‘‘ میں اِس سوال کا جواب سوچنے لگا مگر فوری طور پر کوئی جواب ذہن میں نہیں آیا، ع غ نے خود ہی میری مشکل حل کر دی ’’دراصل آزادیٔ اظہار اِس لیے ضروری ہے کہ اِس کے نتیجے میں سچ سامنے آتا ہے، مثلاً ایک شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے، جواب میں دوسرا شخص اس دعوے کا ثبوت یا دلیل مانگتا ہے اور یوں ایک بحث شروع ہو جاتی ہے، اب اگر فریقین میں سے کسی ایک کی رائے کا گلا گھونٹ دیا جائے تو سچ سامنے نہیں آ سکے گا، سچ صرف اسی صورت میں سامنے آئے گا جب لوگ آپس میں دلائل سے بحث کریں گے اور کسی پر پابندی نہیں ہوگی کہ کسی مخصوص دائرے میں رہ کر ہی بات کرے، کیونکہ اگر آپ نے پابندی لگا دی تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کی دلیل مضبوط نہیں، موقف درست نہیں، بیانیے میں کھوٹ ہے یا بیان جھوٹا ہے، اس کے برعکس اگر آپ کی بات میں وزن ہو تو پھر آپ اپنے مدمقابل کو دلائل سے زیر کریں گے، اُس کا گلا گھونٹنے کی آپ کو ضرورت پیش نہیں آئے گی اور یوں جس کا موقف حق سچ پر مبنی ہوگا سامنے آ جائے گا‘‘۔ ع غ سانس لینے کے لیے رکا تو میں نے وہیں سے بات اچک لی ’’تو کیا اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر ہر کسی کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ جب چاہے جس کی مرضی پگڑی اچھال دے، کسی بھی شریف آدمی کی کردار کشی کر دے، کسی بھی ادارے کے خلاف ہزرہ سرائی کرے! اس طرح تو لوگوں گمراہ ہو جائیں گے، سچ دھندلا جائے گا‘‘۔ ع غ نے اطمینان سے یہ بات سنی پھر گویا ہوا ’’جن ممالک میں آزادیٔ اظہار کی مکمل آزادی ہے اُن میں ناروے سرفہرست ہے، کیا وہاں کسی کی جرات ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلا کر کردار کشی کرے؟ نہیں نا! کیونکہ آزادیٔ اظہار کے ساتھ ساتھ وہاں اتنا ہی سخت قانون بہتان لگانے والوں کے خلاف بھی ہے، اسی لیے کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کی جرات نہیں کرتا، کسی کے خلاف جھوٹا اسکینڈل شائع نہیں ہو سکتا اور کوئی بھی تنقید سے ماورا نہیں رہ سکتا‘‘۔ ع غ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر میں نے اُس کی رائے کا گلا گھونٹ دیا کیونکہ میرے پاس اب دلیل ختم ہو چکی تھی۔
روزنامہ کالک کے ایڈیٹر سے میری بات ہو چکی ہے، میں اس کے اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم لکھا کروں گا، موضوعات کی ایک فہرست ایڈیٹر صاحب نے مجھے تھما دی ہے کہ ان پر جو چاہو لکھو اظہار کی کوئی پابندی نہیں، مثلاً پنکچر ڈھونڈنے کے دس طریقے، یوٹیوب سے پیسے کیسے کمائیں، رمضان میں پکوڑوں کی فضیلت، محکمہ زراعت کا سنڈی مار پروگرام، واپڈا کی کرپشن، تندرستی ہزار نعمت ہے، مائی بیسٹ فرینڈ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو واویلا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں میڈیا آزاد نہیں، جس ملک میں بیسیوں ٹی وی چینل دن رات چنگھاڑتے ہوں، جہاں۔۔۔!
کالم کی دُم:یہ کالم میڈیا آزادی کے عالمی دن کی مناسبت سے لکھا گیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ