حکومت پنجاب نے کئی برس کی پابندی کے بعد بسنت منانے کی اجازت دے دی ہے ۔ فروری میں زندہ دلانِ لاہور بھرپور روایات کے ساتھ بسنت منائیں گے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نے اس فیصلے کے سماجی اور سیاسی مضمرات پر غور کر لیا ہے ؟ کیا حکومت ماضی کی طرح قاتل ڈور سے ہونے والی ہلاکتوں کا سدِ باب کر پائے گی ؟ اور واپڈا کو جو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے کیا اس بارے میں بھی اربابِ اختیار غور فرما چکے ہیں ؟ اگر ان خدشات کا مناسب حل تلاش کر لیا جائے تو بسنت ضرور منائی جائے کیونکہ یہ برصغیر کا موسمی تہوار ہے اور اس کا کسی مذہب کے ساتھ تعلق جوڑنا بھی مناسب نہیں . بسنت کا آغاز کب ہوا ؟ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاریخ میں 200 قبل مسیح میں پتنگیں اُڑانے کے شواہد بھی ملتے ہیں لیکن پتنگیں اُڑانے کے مختلف طریقوں کا تذکرہ سب سے پہلے 1282ء میں مشہورِ زمانہ سیاح مارکوپولو نے اپنے سفرنامے میں کیا۔ مارکوپولو نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سیاحت میں گزارا اور اپنی سیاحت کے دوران اس نے مختلف ملکوں میں پتنگ بازی کے حوالے سے جو کچھ دیکھا یا سنا اُس کا تذکرہ اس نے بھرپور انداز میں کر دیا۔
اسی طرح سائنس دانوں نے بھی پتنگ اُڑا کر مختلف تجربات کئے اور سائنسی قوانین وضع کئے۔ بینجمن فرینکلن نے پتنگ اُڑا کر آسمانی بجلی کے متعلق تجربہ کیا۔ کوریا میں جنگ جاری تھی کہ ایک سپاہی کی نظر اچانک آسمان پر پڑی اُس نے شہاب ثاقب کو گرتے ہوئے دیکھا اور شور مچا دیا کیونکہ کوریا میں شہاب ثاقب کا گرنا بدشگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے آناً فاناً ہر طرف شور مچ گیا۔ قریب تھا کہ فوج حوصلہ ہار دیتی کہ ایک فوجی جنرل کو ایک خیال سوجھا اور اُس نے حکم دیا کہ ایک بڑی پتنگ کو اُڑایا جائے۔ اس کے ساتھ ایک لیمپ لٹکا دیا جائے اور ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ شہاب ثاقب واپس چلا گیا ہے۔ اس طرح صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچا لیا گیا۔
سمگلرز بھی غیر قانونی طور پر پیرس میں ممنوعہ شراب مہیا کرنے کے لئے بڑی بڑی پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔ پیرس شہر کی فصیلوں سے شراب کی بوتلیں پتنگوں کے ذریعے گزار دی جاتی تھیں۔ فرانسیسی فوج بھی بیرکوں سے میدان میں سگنلز بھیجنے کے لئے پتنگوں کا استعمال کرتی رہی ۔
دنیا میں سب سے زیادہ بلندی تک پتنگ اُڑانے کا اعزاز امریکا کے پاس ہے امریکہ میں 5400 میٹر بلندی تک پتنگ اُڑائی گئی۔ جاپانیوں نے ایک ریکارڈ قائم کیا جو حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد دلچسپ بھی ہے۔ 3000 کاغذ کی شیٹوں کی مدد سے ایک بہت بڑی پتنگ تیار کی گئی جسے 100 آدمیوں نے مل کر اُڑایا اس پتنگ کو خاصی بلندی پر اُڑایا گیا اور 2500 ٹن وزن بھی اس کے ساتھ منسلک تھا۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کی پتنگوں کی ساخت اور رنگ بالکل مختلف ہیں۔ آج مختلف سائزوں، رنگوں، اشکال کی پتنگیں دستیاب ہیں۔ بسنت میلے کا انعقاد برصغیر کی ثقافتی روایات کا حصہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور اور قصور میں اسے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا رہا پھر بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے اس کو پذیرائی بخشی اور پھر یہ تہوار گوجرانوالا، فیصل آباد، راولپنڈی، گجرات، سیالکوٹ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی منایا جانے لگا ۔
بسنت پر پابندی کی وجوہات میں قاتل ڈور کا استعمال تھا جس کی وجہ سے درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اللہ نہ کرے اگر کوئی ایسا حادثہ ہو گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ ہماری خوابیدہ عوام نے پھر کسی مداری سیاست دان کے کہنے میں آ کر حکومت کو بغیر سوچے سمجھے الزام دے دینا ہے ۔ کروڑوں روپے کی پتنگ بازی الگ ہو گی اور واپڈا کا بار بارانتباہ بھی ماضی کی طرح بے اثر ثابت ہو گا۔ حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتاہے۔ اس شوق کا اہتمام ضرور کیا جائے لیکن ان تمام خدشات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ھے