ہزاروں برس ہوئے جب انسانوں نے بستیاں آباد کیں، کاشتکاری اور گلہ بانی کا آغاز کیا۔
چند صدیوں پہلے تک زندگی پرسکون انداز میں دھیرے دھیرے ارتقاء کے ناگزیر عمل سے گزر رہی تھی، باضابطہ اور منظم جنگیں آج کی طرح عام نہیں تھیں، بڑی لڑائیاں عموماً بادشاہوں کے دارالحکومتوں میں لڑی جاتی تھیں، چھوٹے گاؤں اور دیہات کے لوگ حملہ آوروں کی لوٹ مار سے محفوظ تھے اور اشیاء کے تبادلے سے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کر لیا کرتے تھے۔
سکوں اور کرنسیوں کا چلن کم تھا چونکہ حمل و نقل کے ذرایع محدود تھے، اس لیے سفر عام نہیں تھا، لہٰذا جراثیم اور بیماریاں تیزی سے نہیں پھیلتی تھیں اور وبائیں بھی کسی مخصوص شہر یا علاقے میں اپنا قہر ڈھایا کرتی تھیں۔
قدرتی ماحول کو تباہ اور برباد نہیں کیا جاتا تھا اس لیے آج کے صنعتی دور جیسی کئی بیماریاں بھی نہیں تھیں۔ بیماریوں کے کم ہونے کے باوجود اس دور میں اموات کی شرح زیادہ تھی کیونکہ نوزائیدہ بچوں اور زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی شرح بہت بلند تھی۔ مزید برآں، ادویات کم ترقی یافتہ تھیں اس لیے لوگ معمولی بیماریوں سے بھی ہلاک ہو جاتے تھے۔
زرعی دور میں، زندگی کا انحصار غیر مشینی زراعت پر تھا جس کے لیے بہت سے ہاتھوں کی ضرورت ہوتی تھی لہٰذا زیادہ بچوں والے خاندان خوشحال ہوا کرتے تھے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے عدم تصور کے باوجود بھی آبادی میں تیز رفتار اضافہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ مفروضہ آج بھی عام ہے کہ پرانے وقتوں میں لوگ طویل عمریں پاتے تھے جب کہ ایسا نہیں تھا۔ انسانوں کی نسبتاً جلد اموات کے باعث اس زمانے کی اوسط عمر آج کے مقابلے میں کہیں کم تھی۔
کرہ ارض پر انسانی زندگی ہزاروں سال سے آہستگی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ اٹھارویں صدی کے وسط تک وہ انقلاب سر پر آپہنچا جس نے پورے سماج کی کایا پلٹ کردی۔
یہ تاریخ ساز صنعتی انقلاب تھا جس کے آتے ہی سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رونما ہونے والی حیرت انگیز دریافتوں اور ایجادات نے سماج کے ہر شعبے کو یکسر بدل دیا۔ اس انقلاب کے ہمہ جہت پہلو ہیں لیکن انسانی آبادی پر بھی صنعتی انقلاب کا گہرا اثر پڑا۔ لوگوں کی بڑی تعداد، دیہاتوں سے شہروں کی جانب رخ کرنے لگی نتیجتاً دنیا میں بڑے لیکن گندے اور پرہجوم شہر وجود میں آ گئے۔ اس کے ساتھ ہی آبادی بھی غیر معمولی رفتار سے بڑھنے لگی۔
انسانی آبادی، جو لاکھوں سال میں بڑھ کر 19ویں صدی کے آغاز پر صرف ایک ارب تک پہنچی تھی وہ صرف اگلے دو سو سال میں آٹھ ارب تک جا پہنچی۔ آبادی میں اضافے کی متعدد وجوہ ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ، اوسط عمر بڑھنے کے باعث بچوں کی زیادہ شرح پیدائش اور صحت کی نسبتاً بہتر سہولتوں کی دستیابی سے معمر افراد کی تعداد میں ہونے والا اضافہ تھا۔
دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی نے ان گنت گمبھیر مسائل پیدا کر دیے، جس کے باعث اقوام متحدہ کی جانب سے آبادی کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا اور گیارہ جولائی 1990 سے ہر سال یہ عالمی دن پوری دنیا میں منایا جانے لگا جس کا مقصد لوگوں کی توجہ ان سنگین مسائل کی جانب مبذول کرانا ہے جو آبادی میں بھیانک اضافے سے پیدا ہو چکے ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچ سب سے بڑے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے جب کہ پہلے سب سے بڑے چار ملک، ہندوستان، چین، امریکا اور انڈونیشیا ہیں۔ دنیا کی آٹھ ارب سے زائد آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی میں سالانہ آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی کے عالمی دن کے حوالے سے ہر سال عوامی شعور اور آگہی کو اجاگر کرنے کے لیے کسی مخصوص موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
اس سال صنفی مساوات کی طاقت اور اہمیت کو موضوع بنایا گیا ہے جس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا تقریباً نصف آبادی عورتوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے لہٰذا آدھی آبادی کو نظر انداز کر کے ترقی کے خواب دیکھنا ایک بہت بھیانک نادانی ہوگی۔
انسانی ترقی کی درجہ بندی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 192 ملکوں میں 161 ویں درجے پر آ گیا ہے اور جنوبی ایشیاء کے ہر ملک سے بہت پیچھے ہے۔ اس قدر مایوس کن صورتحال کی بڑی وجہ یقیناً معاشی پسماندگی ہے لیکن یہ جان لیا جائے کہ ہماری پس ماندگی کا بہت بڑا سبب، ترقی کے عمل میں عورتوں کو شریک نہ کرنا بھی ہے۔
چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت اس لیے بھی ہے کہ اس کی 60 فیصد عورتیں پیداواری عمل کا فعال حصہ ہیں۔ بنگلہ دیش کی بے مثال ترقی میں عورتوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ لاکھوں خواتین کارکن گارمنٹس فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرتی ہیں۔
ہندوستان میں بھی عورتوں کو بڑی تیزی سے با اختیار بنایا جارہا ہے جس کے باعث اسے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بننے میں بہت مدد ملی ہے۔ ہمارا عذاب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ معاشی بحرانوں میں گھرے رہتے ہیں۔ ہمیں ہر شعبے میں گراؤٹ کا سامنا ہے لیکن ہماری آبادی کی شرح نمو 2.4 فیصد کے ساتھ خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
عورتوں کو مرکزی دھارے میں لائے بغیر آبادی میں خطرناک اضافے کو روکنا ناممکن ہے۔ تمام پڑوسی ملکوں میں عورتوں کی شرح خواندگی ہم سے زیادہ ہے اور وہ پیداواری عمل میں بھی شریک ہیں۔ ان دو عوامل کی وجہ سے مذکورہ ممالک کی آبادی میں ہونے والے اضافے کی شرح پاکستان سے کہیں کم ہے۔
آبادی کے عالمی دن کے موقع پر پاپولیشن کونسل نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے اعداد و شمار کافی تشویش ناک ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال گیارہ ہزار عورتیں زچگی کے دوران موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
ایک ہزار میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل مر جاتے ہیں، چالیس فیصد بچے غذائیت کی کمی اور انتیس فیصد وزن میں کمی کا شکار ہیں۔ آئین کے مطابق پانچ سے سولہ سال کے بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے لیکن اس عمر کے دو کروڑ سے زیادہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
تعلیم سے محروم بچیوں کی تعداد لڑکوں کی بہ نسبت کافی زیادہ ہے کیونکہ ہمارے سماج میں لڑکیوں کی تعلیم کو عموماً غیر اہم تصور کیا جاتا ہے، ہمیں اگر خطرناک شرح سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنا اور ترقی کی رفتار تیز کرنی ہے تو صنفی مساوات اور برابری کو ہر سطح پر یقینی بنانا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتو نیوگو تیرس نے بالکل درست کہا ہے کہ ’’ صنفی امتیاز سے عورتوں، لڑکیوں، مردوں اور لڑکوں سب کو نقصان پہنچتا ہے۔ عورتوں پر سرمایہ کاری کرنے سے تمام لوگوں، برادریوں اور ملکوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔‘‘
کیا اچھا ہوکہ محض بلند بانگ دعوؤں کے بجائے حکومتیں عورتوں کو مساوی حقوق دینے، با اختیار بنانے اور انھیں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے واضح اہداف مقرر کریں اور ان کے حصول کو ہر قیمت پر یقینی بھی بنائیں، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر یہ بتایا جائے کہ اپنی آدھی آبادی کی صلاحیتوں کو کام میں لائے بغیر دنیا کے کس ملک نے ترقی کی ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ