جون 2023 میں، خام تیل لے کر روس کے دو بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوچکے ہیں۔ عام حالات میں اسے کوئی غیرمعمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے۔
تاہم، دو ملکوں کے درمیان تجارت اس وقت لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لیتی ہے جب اس عمل میں کوئی ایسی پیش رفت رونما ہوجائے جس کی عموماً توقع نہ کی جا رہی ہو۔ تیل بردار روسی بحری جہازوں کی آمد اس حوالے ایک علامتی حیثیت رکھتی ہے کہ پاکستان غالباً اپنی خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی لانے پر بالاخر مائل ہورہا ہے۔ اس کام میں اگرچہ معاشی مجبوری کا عنصر کار فرما ہے لیکن اسے ایک مثبت مظہر ضرور قرار دیا جانا چاہیے۔
ہماری معاشی مجبوری یہ کہ ان دنوں ہمیں اپنی تاریخ کے انتہائی بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ آج سے 52 سال پہلے متحدہ پاکستان کے مشرقی بازو میں ایک طویل خوف ناک سیاسی محاذ آرائی اور ہندوستان سے جنگ کے بعد ملک دو ٹکڑے تک ہوگیا تھا، لیکن اتنی ہولناک تباہی کے بعد بھی معیشت دیوالیہ ہونے سے بچی رہی۔
ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ بات کافی عجیب لگے کہ پاکستان کے سیاسی بحرانوں اور معاشی تباہی میں اس غیر دانش مندانہ خارجہ پالیسی کا بہت بڑا کردار ہے، جسے تبدیل کرنے کا اصرار کرنے والوں کی حب الوطنی کو عموماً شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، جب کہ اس حوالے سے اہم پالیسی سازوں کو صرف یہ مشورہ دیا جاتا تھا کہ اپنی معاشی خود انحصاری کو یقینی بنانے کی خاطر ہمیں کسی بھی ایک بلاک یا سپر طاقت سے وابستہ ہوئے بغیر، آزاد و غیر وابستہ خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔
سادہ الفاظ میں اس کا مفہوم یہ تھا کہ اس دور کی دو قطبی دنیا میں جو سرد جنگ جاری تھی اس میں ہمیں معاشی اور فوجی امداد کے لیے کسی ایک فریق کی نیابتی جنگ نہیں لڑنی چاہیے۔
اس خیال کے حامی ملکوں نے غیر وابستہ تحریک کے تحت غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کر لی تھی۔ 1961 میں یہ تنظیم قائم ہوئی اور آج بھی دنیا کے 120 ملک اس کے رکن ہیں۔ اس وقت آذر بائیجان کے صدر اس تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے بعد یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں اس تنظیم کو کافی اہمیت حاصل تھی اور اس میں شامل ملکوں نے خود کو غیر وابستہ رکھ کر دونوں سپر طاقتوں سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ ابتدائی مرحلے میں پاکستان اس تنظیم کا حصہ تھا لیکن پھر اس نے اپنی راہیں جدا کر لیں، یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس حوالے سے کوئی ملک ہماری راہ میں رکاوٹ تھا بلکہ مغربی بلاک سے وابستہ رہنا ہماری حکومتوں کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔
اس دور کا سوویت یونین جو آج سمٹ کر رشین وفاق کہلاتا ہے تقسیم ہند کا حامی نہیں تھا کیونکہ اس کے خیال میں ایسا کرنا برطانوی سامراج کی ایک دور رس حکمت عملی تھی۔ کانگریس پارٹی خصوصاً جواہر لعل نہرو رومانوی سوشلسٹ اور سامراج مخالف تھے، اس لیے سوویت روس، ہندوستان کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ 1947 میں سوویت یونین نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل، قائد اعظم محمد علی جناح کو مبارکباد کا پیغام نہیں بھیجا تھا لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد سوویت روس نے اپنی سوچ تبدیل کر تے ہوئے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو مبارک باد کا پیغام دینے کے ساتھ ماسکو کے سرکاری دورے پر مدعو کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو نے مئی 1948 میں امریکا کے دورہ کا اعلان کیا جس سے سوویت یونین کو کافی مایوسی ہوئی، اس کے ساتھ اپنے ملک کے مفاد میں انھوں نے دولت مشترکہ میں بھی شامل رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان دونوں فیصلوں کے رد عمل میں سوویت یونین نے پاکستان کی جانب گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کے وزیر اعظم کو ماسکو آنے کی دعوت دی لیکن لیاقت علی خان اس موقع کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انھوں نے سوویت یونین کے بجائے امریکا جانے کو ترجیح دی اور تاثر یہ دیا گیا کہ مذکورہ دورے کو حتمی شکل دینے کے ضمن میں چونکہ تاخیر ہوگئی تھی لہٰذا وزیراعظم، سوویت یونین کا دورہ نہیں کرسکے، اس پیش رفت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی۔
بعدازاں 1954۔1955میں سیٹو، سینٹو اور تعاون کے دیگر معاہدوں میں شمولیت کے بعد پاکستان مغربی بلاک کے زیادہ قریب ہوتا گیا اور سوویت یونین سے اس کی دوریاں بھی بڑھتی چلی گئیں۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں جمہوری عمل کسی نہ کسی شکل میں جاری تھا۔ سیاسی شعور کے حوالے سے مشرقی پاکستان کے عوام اور سیاسی جماعتیں کافی آگے تھیں اور ملک میں جمہوریت اور آزاد خارجہ پالیسی کی حمایت کرتی تھیں۔ 1956 میں حسین شہید سہروردی وزیراعظم بنے جو بائیں بازو کی سوچ کے زیادہ قریب تصور کیے جاتے تھے۔
اس صورت حال کے تناظر میں سوویت یونین کی طرف سے ایک بار پھر بہتر تعلقات کے لیے پیش رفت کی گئی۔ سوویت یونین کا ایک ثقافتی وفد پاکستان آیا جب کہ پاکستان کے ایک وفد کی جانب سے بھی جوابی دورہ کیا گیا۔ سوویت یونین نے زراعت، صنعت، سائنس سمیت بہت سے شعبوں میں تعاون اور مدد کی پیش کش کرنے کے علاوہ اس وقت اسٹیل مل لگانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا ۔
1958 میں جنرل ایوب خان کی جانب سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد جمہوری عمل کا تسلسل مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ جنرل ایوب کو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا تھا لہٰذا انھوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے ملک کو مغربی بلاک کی جھولی میں ڈال دیا۔ 1960 میں، پشاور کے ایک فضائی اڈے سے اڑنے والے امریکی یو ٹو جاسوس جہاز کو سوویت یونین نے مار گرایا، اس کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور خروشیف نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا۔
اس واقعے کے بعد پاکستان اور سوویت یونین کے تعلقات بد ترین حد تک کشیدہ ہوگئے۔ اس واقعے کے ایک سال بعد جنرل ایوب آٹھ روزہ دورے پر امریکا گئے جہاں ان کا بیمثال استقبال کیا گیا۔ میرے خیال میں آج تک امریکا میں کسی پاکستانی سربراہ حکومت کا امریکا میں اتنا شاندار استقبال نہیں کیا گیا ہوگا۔ انھیں کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ اس غیر معمولی پذیرائی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنرل ایوب روس کے خلاف اس وقت مغربی بلاک کے اتحادی بنے جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی ۔
1965 کی پاک بھارت جنگ میں سوویت یونین نے پاکستان سے اپنی ناراضی کے باوجود تاشقند معاہدے کے ذریعے اس جنگ کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کر کے، ایک بار پھر یہ عندیہ دیا کہ وہ اس خطے میں امن اور پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش رکھتا ہے۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ